سوال
" بعل کون تھا؟
جواب
بعل قدیم کنعان اور فونیشیا میں پوجے جانے والے ایک مقبول دیوتا کا نام تھا۔ یہودیوں کی مذہبی زندگی میں بعل کی عبادت کی سرایت/ شمولیت قاضیوں کے دور میں ہوئی تھی ( قضاۃ 3باب 7آیت) اور اخی اب کے دورِ حکومت میں اسرائیل میں عام ہوتے ہوئے ( 1سلاطین 16باب 31-33آیات) اِس نے یہوداہ کی سلطنت کو بھی متاثر کیا تھا ( 2تواریخ 28باب 1-2آیات)۔ لفظ بعل سے مراد " آقا/مالک " ہے اور اِس کی جمع بعلیم ہے۔ بعل عام طور پر ایک زر خیزی کا دیوتا تھا جس کے بارے میں مانا جاتا تھا کہ یہ زمین کو فصلیں پیدا کرنے اور لوگوں کو بچّے پیدا کرنے کے قابل بناتا ہ ے ۔ مختلف علاقے بعل کی مختلف طریقوں سے عبادت کرتے تھے اور بعل نہایت مطابقت پذیر دیوتاثابت ہوا تھا ۔ مختلف جگہوں کے لوگوں نے بعل کی کسی ایک یا دیگر صفات پر زور دیتے ہوئے بعل کی عبادت کے خاص "فرقے" تشکیل دئیے تھے ۔ بعل فغور (گنتی 25باب 3آیت) اور بعل بریت (قضاۃ 8باب 33 آیت) ایسے مقامی دیوتاؤں کی دو مثالیں ہیں۔
کنعانی افسانیات کے مطابق بعل مرکزی دیوتا ایل اور سمندر کی دیوی عستارات کا بیٹا تھا ۔ بعل کو تمام دیوتاؤں میں سب سے زیادہ طاقتور سمجھا جاتا تھا اور اس کے مقابل ایل جسے کمزور اور غیر موثر خیال کیا جاتا تھا ماند پڑ جاتا ہے ۔ بعل نے سمندر کے دیوتا یام، اور موت اور پاتال کے دیوتا موٹ کو متعدد لڑائیوں میں شکست دی تھی ۔ بعل کی بہنیں/بیویاں اشٹورتھ اور انیتھ تھیں؛ اشٹورتھ ستاروں سے وابستہ زرخیزی کی دیوی تھی اور انیتھ محبت اور جنگ کی دیوی تھی۔ کنعانی لوگ بعل کی سورج دیوتا اور طوفان کے دیوتا کے طور پر بھی پوجا کرتے تھے - اسے عام طور پر آسمانی بجلی تھامے ہوئے دکھایا جاتا ہے - جس نے دشمنوں کو شکست دی اور فصلیں پیدا کیں تھی ۔ کنعانی اسے زرخیزی کے ایسے دیوتا کے طور پر بھی پوجتے تھے جو بچّے مہیا کرتا تھا۔ بعل کی عبادت جنسی سرگرمیوں پر مشتمل تھی اور مندروں میں رسمی زناکاری پائی جاتی تھی ۔ بعض اوقات بعل کو خوش کرنے کے لیے انسانی قربانیاں درکار ہوتی تھیں اور عام طور قربانی چڑھانے والا اپنے پہلوٹھے کو اُس کی نذر گزرانتا تھا(یرمیاہ 19باب 5آیت) ۔ بعل کے پجاری اپنے دیوتا سے بلند آوازوں، پُرجوش چیخوں اور خود کو زخمی کرنے کی حامل انتہائی جذباتی رسومات کے ساتھ التجا ئیں کرتے تھے (1سلاطین 18باب 28آیت)۔
عبرانی لوگوں کے وعدے کی سرزمین میں داخل ہونے سے پہلے ہی خداوند خدا نے اُنہیں کنعانی دیوتاؤں کی پرستش کے خلاف خبردار کیا تھا ( استثنا 6 باب 14-15آیات) لیکن اسرائیلی پھر بھی بُت پرستی کی طرف مائل ہو گئے۔ اخی اب اور ایزبل کے دورِ حکومت میں جب اسرائیل میں بعل کی عبادت اپنے عروج پر تھی تو خدا نے براہ راست اپنے نبی ایلیاہ کے وسیلہ سے بُت پرستی کا مقابلہ کیا ۔ سب سے پہلے خدا نے ساڑھے تین سال کی خشک سالی بھیجنے کے وسیلہ سے واضح کیاکہ بعل نہیں بلکہ وہ خود بارش پر اختیار رکھنے والا خُدا ہے ( 1سلاطین 17باب 1آیت)۔ اس کے بعد ایلیاہ نے اِس بات کو حتمی طور پر ثابت کرنے کی خاطر کہ حقیقی خدا کون ہے، کوہِ کرمل پر مقابلے کا مطالبہ کیا ۔ بعل کے 450 بچاری دن بھر اپنے دیوتا سے آسمان سے آگ بھیجنے کے لیے دُعا کرتے رہے –یقیناً آسمانی بجلی سے منسوب دیوتا کے لیے یہ ایک آسان کام تھا – لیکن " نہ کچھ آواز ہوئی نہ کوئی جواب دینے والا نہ توجُّہ کرنے والا تھا " (1سلاطین 18باب 29آیت)۔ بعل کے نبیوں کے ناکام ہونے پر ایلیاہ نے سادہ سی دُعا کی تو خدا نے آسمان سے فوراً آگ کے ساتھ اُس کی دُعا کا جواب دیا ۔ یہ ثبوت بے حد زبردست تھا اور" جب لوگوں نے یہ دیکھا تو مُنہ کے بل گِرے اور کہنے لگے خُداوند وُہی خُدا ہے! خُداوند وُہی خُدا ہے! " ( 39آیت)۔
متی 12باب 27آیت میں یسوع شیطان کوفلستیوں کے ایک دیوتا بعل زبوب (2سلاطین1باب 2آیت )سے جوڑتے ہوئے شیطان کو " بعلزبول " قرار دیتا ہے ۔پرانے عہد نامے کے بعلیم محض دیوتاؤں کے روپ میں بد اَرواح سے زیادہ کچھ نہیں تھے اور تمام طرح کی بت پرستی بنیادی طور پر شیطان کی عبادت ہے (1کرنتھیوں 10باب 20آیت)۔
English
" بعل کون تھا؟