سوال
"کیا مرنے کی خواہش کرنا غلط ہے ؟
جواب
بہت سے لوگ جو انتہائی شدید درجے کی بیماری ، تکلیف دہ حالات یا شدید اداسی یا جذباتی دُکھ میں مبتلا ہوتے ہیں وہ مرنا چاہتے ہیں ۔ ایسے لوگ جو شک کا شکار ہو جاتے ہیں کیا وہ خدا سے درخواست کر سکتے ہیں کہ وہ اُن کی جان نکال لے ۔ کیا یہ خود کشی کی ایک شکل ہے ؟ اگر ہم مرنے کی دُعا کرتے ہیں تو کیا خدا ہمیں فردوس میں قبول کر لے گا؟ یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کیا ایسی دُعا کرنا گناہ ہے ۔
چاہے مصائب جذباتی یا جسمانی نوعیت ہی کے کیوں نہ ہوں مرنےاور مصائب سے بچنے کی خواہش کرنا عین انسانی فطرت کے مطابق ہے ۔ یہاں تک کہ خدا وند یسوع مسیح نے بھی ایسی دُعا کی تھی کہ "اَے میرے باپ! اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مجھ سے ٹل جائے۔ تَو بھی نہ جیسا مَیں چاہتا ہوں بلکہ جیسا تُو چاہتا ہے وَیسا ہی ہو" ( متی 26باب 39آیت)۔ یسوع مسیح اپنی انسانی فطرت کے لحاظ سے ایسا کہہ رہا تھا۔ کیونکہ یسوع جانتا تھا کہ آگے صلیب پر کیا ہونے والا ہے مگر غور کریں کہ وہ خدا کی مرضی کے تابع رہا ۔ یسوع نے ہر بات میں خود کو باپ کی مرضی کے تابع کر دیا تھا ( یوحنا 5باب 30آیت)۔ یسوع نے گتسمنی باغ میں تصدیق کی تھی کہ ایسا وقت بھی آتا ہے جب دُکھ اُٹھانا ضروری ہوتا ہے اور اُس نے اپنی مرضی سے دُکھ اُٹھایا تھا کیونکہ یہ باپ کی مرضی تھی ۔
ایماندار ہونے کے ناطے ہمیں ہمیشہ اس طرح دُعا کرنی چاہیے کہ "تیری مرضی پوری ہو" ۔حتی ٰ کہ اگر ہم مرنا بھی چاہیں تو ہم میں سے کوئی بھی اپنے مقررہ وقت سے پہلے نہیں مرے گا ۔ داؤؔد اس سچائی کی تصدیق کرتا ہے کہ ہمارے تمام دن خدا کی طرف سے مقرر ہیں اور خدا کی مرضی کے بغیر کوئی بھی شخص اُن میں کچھ کمی نہیں کر پائے گا :"جو ایّام میرے لئے مقرر تھے وہ سب تیری کِتاب میں لکھے تھے۔ جب کہ ایک بھی وجود میں نہ آیا تھا" (139زبور 16آیت)۔ مرنے کی دُعا کرنے کی بجائے ہمارے لیے زیادہ بہتر یہ ہےکہ ہم جس بھی طرح کی مصیبت کا سامنا کر رہے ہوں اُس میں ثابت قدم رہنے کے لیے خداکی قوت اور فضل کےلیے دُعا کریں اور اِس مُصیبت کے دورانیہ کے تعین اور مقاصد کےلیے خدا پر بھروسہ کریں ۔
مصیبت تکلیف دہ ہوتی ہے اور بعض اوقات اس کا سب سے مشکل ترین حصہ "کیوں" کے حامل وہ سوالات ہوتے ہیں جن کا ہمیں سامنا ہوتا ہے ۔ مصیبت عاجز بناتی ہے اور بطور انسان ہم عاجز یا کمزور ہونا اور دوسروں پر انحصار کرنا پسند نہیں کرتے ۔ مگر جب ہم سوال کرتے ہیں کہ " مَیں ہی کیوں خداوند ؟" توہو سکتا ہے کہ اِس کا جواب بالکل یہی ہو " تم کیوں نہیں ؟" جب نئی پیدایش کے حامل ایماندار زمین پر مصائب کا سامنا کرتے ہیں تو اِس مصیبت کے پیچھے خدا کا ایک خاص مقصد ہوتا ہے اور جس طرح وہ خود کامل اور پاک ہے اُسی طرح اُس کےمنصوبے اور مقاصد بھی کا مل اور پاک ہیں ۔ زبور نویس ہمیں بتاتا ہے کہ "خُدا کی راہ کامِل ہے" ( زبور 18باب 30آیت)۔ اگر خدا کی راہیں کامل ہیں تو ہم بھروسہ کر سکتے ہیں کہ وہ جو کچھ کرتا ہے اور جن باتوں کی اجازت دیتا ہے – وہ بھی کامل ہیں ۔ ہوسکتا ہے کہ یہ بات ہمیں ناممکن لگے اس لیے کہ ہمارے خیالات خدا کے خیالات نہیں ہیں جیسا کہ وہ یسعیاہ 55باب 8-9آیات میں ہمیں یاد دلاتا ہے ۔
پولس رسول کے" جسم میں( ایک ) کانٹا" چبھوئے جانے کے باعث اُسے ایک ایسی تکلیف کا سامنا تھا جس کی بائبل میں وضاحت نہیں کی گئی اور اُس نے تین بار خداوند سے اس کانٹے کو دُور کرنے کی دُعا کی تھی۔ لیکن خدا جو ایک پل میں پولس کی تکلیف کو دور کر سکتا تھا اُس نے ایسا نہ کیا ۔ اُس نے پولس کو یاد دلایا کہ " کانٹا " اُس کو غرور کرنے سے روکنے اور اُس کو دئیے جانے والے " مُکاشفوں کی زِیادتی " کے باعث اُس کو اپنے آپ پر فخرکرنے سے بچانےکےلیے تھا ۔ لیکن خدا نے پولس کو اِس دُکھ میں بے یارو مددگار نہیں چھوڑ دیا تھا ۔ خدا نے اُسے یقین دلایا تھا کہ اُس کا فضل پولس کےلیے "کافی" ہے اور یہ بھی کہ جب پولس اپنی مضبوطی کے لیے خدا کی قوت پر انحصار کرے گاتو خدا کا نام جلال پائے گا ۔اِس سچائی کے ردّ عمل میں پولس رسول کی کمزوری اور مصیبت اُس کی خوشی کا باعث بن گئیں کیونکہ جب اُس کی قوت اور طاقت کے معجزات رونما ہوتے ہیں تو اُن میں خدا کا نام جلال پاتا ہے ( 2کرنتھیوں 12باب 7-10آیات)۔ لہذا موت کے وسیلہ سے کسی بھی قسم کی تکلیف سے بچنے کی کوشش کرنے کی بجائے ہم خدا پر بھروسہ کرتے اور اُس میں اطمینان پاتے ہیں کیونکہ مصیبت کے پیچھے اُس کا مقصد ہمیشہ اُس کے جلال اور ہماری برکات کی کثرت میں اضافہ کرے گا ۔
جب ہم مصائب کے شدید دباؤ میں ہوتے ہیں تو ہمیں بعض اوقات ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اب ہم مزید برداشت نہیں کر سکتے ۔ لیکن خدا ہمیں یاد دلاتا ہے کہ کسی ایماندار پر آنے والی کوئی مصیبت یا آزمایش ایسی نہیں جو ہم سے پہلے کسی اور ایماندار پر نہیں ہو گزری ۔ دوسرے ایماندار ایسی ایسی تکالیف کا سامنا کرچکے ہیں جن کی شدت کو جدید ادویات کم نہیں کر سکتیں ۔ کچھ ایماندار خدا سے نفرت رکھنے والے کے ہاتھوں ایذار سانی اور خوفناک اموات کا شکار ہوچکے ہیں ۔ دیگر ایماندار وں کو تنہا، جلا وطن ، جبکہ کچھ کو اُن کی گواہی کے باعث قید کیا گیا ہے ۔ پس بلاشبہ ہم اکیلے نہیں ہیں ۔ کیونکہ خدا وفادار ہے اور وہ ہم پر ایسی مصیبت آنے نہیں دے گا یا ہمیں ایسی آزمایش میں نہیں ڈالے گا جس کا ہم سامنا نہیں کر سکتے بلکہ وہ ہمیں اِس میں سے نکلنے کا راہ بھی مہیا کرے گا تاکہ ہم اُس کو برداشت کر نے کے قابل ہوں ( 1کرنتھیوں 10باب 13آیت)۔
آخر میں اس سوال کا جواب کہ آیا مرنے کی دُعا کرنا واقعی گناہ ہے بنیادی طور پر اِس اصول کی جانب رہنمائی کر سکتاہے کہ " جو کچھ اِعتقاد سے نہیں وہ گناہ ہے" ( رومیوں 14باب 23آیت)۔ دوسرے الفاظ میں اگر ہمارا دل کہتا ہے کہ یہ گناہ ہے تو یہ ہمارے لیے گناہ ہے ۔ کلام مقدس بھی فرماتا ہے کہ "پس جو کوئی بھلائی کرنا جانتا ہے اور نہیں کرتا اُس کے لئے یہ گناہ ہے۔" صر ف ایک ایسا گناہ ہے جو ہمیں آسمان سے دور رکھتا ہے وہ خداوند یسوع مسیح کو اپنے نجات دہندہ کے طور پر قبول کرنے سے انکار کرنے کا گناہ ہے ۔ لیکن خدا سے دُعا کرنا کہ وہ ہمیں مرنے کی اجازت دے گناہ ہو سکتا ہے کیونکہ ایسی دُعا ایمان کی کمی کوظاہر کرتی ہے ۔ ایک اچھی دُعا کچھ یوں ہوگی " اے خدا ، تُو نے مجھے کسی بھی آزمایش میں قائم رکھنے کا وعدہ کیا ہے ۔ مَیں تجھ سے التجا کرتا ہوں کہ میری نا اُمید ی کو دُور کر ، اپنی موجودگی سے مجھے تسلی دے اور اپنے مضبوط دائیں بازو سے مجھے محفوظ رکھ، مگر تمام باتوں میں میری نہیں بلکہ تیری مرضی پوری ہو۔آمین!"
English
"کیا مرنے کی خواہش کرنا غلط ہے ؟