settings icon
share icon
سوال

نظریہ افادیت پسندی کیا ہے؟

جواب


نظریہ افادیت پسند ی کا جوہر دراصل اس نظریے کا لطف اور تکلیف کا تصور ہے ۔ افادیت پسندی کا فلسفہ ہر اُس چیز کو اچھا سمجھتا ہے جو خوشی میں اضافہ اور تکلیف میں کمی کرتی ہے ۔ یہ نتائج پر مبنی فلسفہ ہے ۔ اگر کسی عمل کا نتیجہ خوشی کو بڑھانے اور تکلیف کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے تو اس عمل کو اچھا سمجھا جاتا ہے۔ نظریہ افادیت پسندی بنیادی طور پر لذت پسندی کا فلسفہ ہے ۔ نظریہ افادیت پسندی کی تاریخ کا سراغ قدیم یونانی فلاسفر ایپی کیورس تک لے جاتا ہے۔ لیکن ایک مکتبہ فکر کے طور پر نظریہ افادیت پسندی کا سہرا اکثر برطانوی فلاسفر جیریمی بینتھم(Jeremy Bentham) کے سر جاتا ہے ۔

نظریہ افادیت پسندی کے چندمسائل کون کون سے ہیں ؟نتیجے پر توجہ مرکوز کرنا اس کا پہلا مسئلہ ہے ۔ حقیقت میں کوئی عمل محض اس بنیاد پر اچھا نہیں ہوتا کہ اُس کا نتیجہ اچھا ہے ۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ " کیونکہ خُداوند اِنسان کی مانند نظر نہیں کرتا اِس لئے کہ اِنسان ظاہری صورت کو دیکھتا ہے پر خُداوند دِل پر نظر کرتا ہے " ( 1سموئیل 16باب 7آیت)۔ خدا نتائج سے اتنا تعلق نہیں رکھتا ہے جتنا وہ ہمارے دل کے ارادوں سے رکھتا ہے ۔ بُرے ارادوں پر مبنی نیک اعمال خدا کو خوش نہیں کر سکتے ۔ یقیناً ہم دوسروں کے خیالات کو جان نہیں سکتے ۔ حتیٰ کہ ہم اپنے ارادوں کو بھی پوری طرح جاننے کی صلاحیت نہیں رکھتے ۔ لیکن یہ کوئی عُذ ر نہیں ہے ؛ہم سب کو خدا کے حضور حاضر ہونا اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ۔

حقیقت میں جو کچھ اچھا ہے اس کے برعکس خوشی پر توجہ مرکوز کرنانظریہ افادیت پسند ی کو درپیش دوسرا مسئلہ ہے ۔ انسان کے مطابق اچھے سےمراد خوشی ہے اور اس وجہ سے یہ بہت زیادہ نفسانی ہو سکتی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ کوئی چیز جو ایک شخص کےلیے خوشی کا باعث ہو وہ دوسرے شخص کے لیے خوشی کا باعث نہ ہو۔ بائبل کے مطابق خدا کی اپنی ذات اچھائی کی تعریف ہے ( 85زبور 5آیت؛ 119زبور68آیت) اور چونکہ خدا لا تبدیل ہے (یعقوب 1باب 17آیت) لہذا اچھائی کی تعریف بھی تبدیل نہیں ہوتی ؛ یہ نسبتی نہیں بلکہ ہمہ گیر ہے ۔ اچھائی انسان کی خواہش کے رجحانات یا وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ تبدیل نہیں ہوتی رہتی ۔ مزید برآں اچھائی کو خوشی سے منسوب کرنے کے باعث ہم اچھائی کو محض اپنی جسمانی خواہشات کی تسکین کے طور پر بیان کرنے کے خطرے میں مبتلا ہوتے ہیں ۔ جیسا کہ لذت پسندی سے مغلوب لوگوں کی طرز ِ زندگی سے ثابت ہوتا ہے کہ کوئی شخص جتنا زیادہ خوشی کے حصول میں مشغول ہوتا ہے خوشی اُس کے لیے اُتنی زیادہ کم ہوتی جاتی ہے اوراُس شخص کو پہلے جتنی خوشی حاصل کرنے کے لیے اور زیادہ شدت کے ساتھ ایسے عوامل میں ملوث ہونا پڑتا ہے جن سے اُسے خوشی حاصل ہوتی ہے۔ اصل میں خوشی پر تقلیلِ حاصل کے قانون کا اطلاق ہوتا ہے ۔ اس سلسلے کی ایک مثال منشیات کے عادی لوگوں کی ہے جو مطلوبہ احساسِ تسکین کے حصول کے لیے بتدریج زیادہ شدید منشیات کا استعمال کرتے ہیں ۔

افادیت پسندی کو درپیش تیسرا مسئلہ تکلیف سے اجتنا ب ہے ۔ تمام قسم کی تکلیف بُر ی نہیں ہے ۔ یہ بات نہیں ہے کہ تکلیف بذات خود اچھی ہے مگر یہ اچھائی کی جانب رہنمائی کر سکتی ہے ۔ انسانی تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے جن میں دیکھا جا سکتا ہے کہ انسان غلطیوں سے سیکھتا رہا ہے۔ جیسا کہ بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ ناکامی بہترین اُستاد ہے ۔ہمیں اِس بات کی وکالت کرنے والا کوئی شخص نہیں ملے گا جو یہ کہتا ہے کہ ہمیں بڑی سرگرمی کے ساتھ تکالیف کی تلاش کرنی چاہیے۔ لیکن یہ کہنا پوری طرح بچگانہ بات ہوگی کہ ہر طرح کی تکلیف بُری ہے اور اس سے اجتناب کرنا چاہیے ۔ خدا ہماری خوشی سے کہیں زیادہ ہماری پاکیزگی میں دلچسپی رکھتا ہے۔ اپنے لوگوں کےلیے اُس کی نصیحت ہے کہ وہ پاک بنیں جیسےکہ وہ خود پاک ہے ( احبار 11 باب 44آیت؛ 1پطرس 1باب 15-16آیات)۔ بائبل یہ بھی کہتی ہے کہ جب ہم ہر طرح کی آزمائشوں کا سامنا کرتے ہیں تو ہمیں اُن کے حوالے سے بھی خوش ہونا چاہیے ( یعقوب 1باب 2-4آیات)یہ اس لیے نہیں کہ آزمایشیں خوشگوار ہیں بلکہ اس لیے کہ یہ زیادہ ثابت قدمی اور وفاداری کا باعث بنتی ہیں ۔

مجموعی طور پر افادیت پسندی کا فلسفہ جہاں تک ممکن ہو زیادہ سے زیادہ لوگوں کےلیے اس زندگی کو تکلیف سے پاک بنانے پر مرکوز ہے ۔ سطحی طور پر یہ ایک قابلِ تعریف مقصد معلوم ہوتا ہے ۔ کون نہیں چاہے گا کہ تمام دنیا کے لوگوں کے دکھوں کو دور کیا جائے ؟۔ تاہم بائبل ہمیں بتاتی ہے کہ محض زمین پر اس زندگی کے کئی اور پہلو بھی ہیں ۔ اگر ہم اس زندگی میں محض زیادہ سے زیادہ خوشی حاصل کرنے کے لیے جی رہے ہیں تو ہم زیادہ بڑے نقطہ نظر سے محروم رہتے ہیں ۔ یسوع نے فرمایا ہے کہ جو اس زندگی کےلیے جیتا ہے اُسے شدید مایوسی ہو گی ( متی 6باب 19آیت)۔ پولس رسول کہتا ہے کہ اس زندگی کی مصیبتیں اور دُکھ اُس جلال کے برابر نہیں ہیں جو ہم ابدیت میں حاصل ہوگا ( 2کرنتھیوں 4باب 17آیت)۔ اس زندگی کی چیزیں عارضی اور وقتی ہیں ( 18آیت)۔ ہماری توجہ اس زمینی زندگی پر نہیں بلکہ فردوس میں زیادہ سے زیادہ جلال پانے پر ہونی چاہیے ۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

نظریہ افادیت پسندی کیا ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries