سوال
اپنی مصلوبیت سے پہلے یسوع نے کونسےمقدمات کا سامنا کیا؟
جواب
جس رات یسوع کو گرفتار کیا گیا اُسے حنا، کائفا اور پھر یہودیوں کی مذہبی مجلس جسے یہودی رہنما سین ہیڈرن کہتے تھے کے سامنے پیش کیا گیا (یوحنا 18 باب 19-24آیات؛ متی 26 باب 57آیت)۔ اِس کے بعد اُسے پیلاطس کے سامنے لے جایا گیا جو اُس دور میں یہودیہ کا رومی حاکم تھا (یوحنا 18 باب 28آیت)، پیلاطس نے اُسے ہیرودیس بادشاہ کے پاس بھیج دیا (لوقا 23 باب 11-12آیات) اور وہاں سے اُسے پھر پیلاطس کے پاس بھیج دیا گیا (لوقا 23باب 7آیت) جس نے بالآخر اُسے سزائے موت سُنائی۔
یسوع کے مقدمے کے قریباً چھ حصے یا درجے ہیں: تین درجات یہودی عدالت میں اور تین درجات رومی عدالت میں۔ پہلے یسوع پر حنا ؔ کے سامنے مقدمہ چلایا گیا جو سابقہ سردار کاہن تھا؛ پھر اُسے کائفا جو کہ موجودہ سردار کاہن تھاکے سامنے پیش کر کے مقدمے کو آگے بڑھایا گیا ، او ر پھر اُسے یہودی مجلس کے سامنے پیش کیا گیا۔ اپنی مُقدمے میں اِن مذہبی پیشیوں کے دوران اُس پر خُدا کا بیٹا، یعنی مسیحا ہونے کا دعویٰ کرنے کی بدولت کفر کا الزام لگایا گیا۔
یسوع پر جو مقدمہ یہودی مذہبی عدالت میں چلایا گیا وہ ظاہر کرتا ہے کہ یہودی یسوع سے کس قدر زیادہ نفرت کرتے تھے کیونکہ اِس مُقدس کے دوران اُنہوں نے اپنے بنائے ہوئے بہت سارے قوانین کو رَد کر دیا تھا۔ یہودی قانون یا شریعت کی رُو سے اِس مقدمے میں بہت ساری بے قاعدگیاں اور عدم جواز غیر قانونی سرگرمیاں ہوئی تھیں:
1. عید کے دِنوں میں کوئی مُقدمہ نہیں چلایا جا سکتا تھا۔
2. کسی بھی شخص کو مجرم ٹھہرانے یا بَری کرنے کے لیے یہودی مجلس سین ہیڈرن کے ہر ایک رکن کی طرف سے انفرادی طور پر اپنی رائے دینے کا قانون تھا، لیکن یسوع کے مقدمے میں اُن سب نے ملکر شور و غوغے میں یسوع کو مجرم ٹھہرایا۔
3. اگر کسی کو سزائے موت سنائی جاتی تو ضروری تھا کہ اُس پر عملدرآمد سے پہلے ایک را ت گزرتی، لیکن یسوع کے معاملے میں اُس کی سزائے موت کے اعلان کے چند گھنٹوں بعد ہی اُسے مصلوب کر دیا گیا۔
4. یہودیوں کے پاس یہ اختیار نہیں تھا کہ وہ کسی کو سزائے موت دیتے۔
5. رات کے وقت کسی بھی طرح کی عدالتی کاروائی کا انعقاد ممنوع تھا۔ لیکن یسوع کا مقدمہ صبح صادق سے پہلے ہی چلایا گیا۔
6. یہودی قانون کے مطابق ملزم کو کوئی وکیل یا نمائندہ مہیا کیا جاتا تھا جو اُس کے موقف کو عدالت کے سامنے پیش کرے، لیکن یسوع کے معاملے میں ایسا کچھ بھی نہیں کیا گیا تھا۔
7. مُقدے میں ملزم سے ایسے سوال نہیں پوچھے جاتے تھے جن سے وہ خود کو مجرم ٹھہرائے، لیکن یسوع سے بار بار پوچھا گیا تھا کہ آیا وہ مسیح ہے۔
یہودیوں کی عدالت میں یسو ع کو مارنے پیٹنے کے بعد (یوحنا 18 باب 23آیت)، پیلاطس کے سامنے یسوع کے مقدمے کا آغاز ہوا۔ اِس عدالت اور مقدمے میں یسوع پر جو الزامات لگائے گئے وہ اُن الزامات سے بہت زیادہ مختلف تھے جو یہودیوں کی مذہبی عدالت میں لگائے گئے تھے۔ اُس پر الزام لگایا گیا کہ وہ لوگوں کو رومی حکومت کے خلاف بھڑکاتا، لوگوں کو محصول دینے سے منع کرتا اور خود یہودیوں کا بادشاہ ہونے کا دعویٰ کرتا ہے۔ اِن ساری باتوں کے باوجود پیلاطس کو ایسا کوئی جواز نظر نہیں آیا جس کی روشنی میں یسوع کو سزائے موت دی جا سکتی، اِس لیے اُس نے یسوع کو ہیرودیس بادشاہ کے پاس بھیج دیا (لوقا 23 باب 7آیت)۔ ہیرودیس نے محض یسوع کا مذاق اُڑایا، وہ بہرحال کسی بھی طرح کے مذہبی و سیاسی مسئلے سے بچا رہنا چاہتا تھا لہذا اُس نے اُسے واپس پیلاطس کے پاس بھیج دیا (لوقا 23 باب 11-12آیات)۔ یہ یسوع پر چلنے والے مقدمے کا آخری حصہ تھا جس کے دوران پیلاطس نے یسوع کو پٹوانے کے ذریعے سے یہودیوں کے نفرت انگیز جذبات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کی اور چاہا کہ یسوع کو چھوڑ دے لیکن اُس کی اِس کوشش کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ہجوم نے شور مچایا کہ ایک پرانے مجرم براؔبا کو چھوڑ دیا جائے اور یسوع کو مصلوب کیا جائے۔ پس پیلاطس نے اُن کی طرف سے کئے جانے والے تقاضے کو مان کر یسوع کو اُن کی مرضی کے سپرد کر دیا (لوقا 23 باب 25آیت)۔ یسوع پر چلایا جانے والا مقدمہ عدل و انصاف کے نظام کا منہ چڑاتا اور مذاق اُڑاتا ہے۔ یسوع جو نسلِ انسانی کی تاریخ میں سب سے زیادہ بے گناہ شخصیت تھی اُسے مجرم ٹھہرایا گیا اورمصلوب کر کے قتل کرنے کی سزا دے دی گئی۔
English
اپنی مصلوبیت سے پہلے یسوع نے کونسےمقدمات کا سامنا کیا؟