سوال
صلیبی مقامات کیا ہیں اور ہم اُن سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟
جواب
صلیبی مقاما ت جنہیں Via Dolorosa کے نام سے بھی جانا جاتا ہے یسوع کی زندگی آخری چند گھنٹوں کے اندر ہونے والے واقعات و بیانات ہیں جو آج کے دن تک ہر ایک مسیحی کو رُوحانی رہنمائی عطا کرتے ہیں اور اِن سے ملنے والے سبق کا ہماری زندگیوں پر بہت اچھا اطلاق ہوتا ہے۔ صلیبی مقامات ہمارے سامنے اِس بات کی نمایاں یاددہانی کے طور پر ہیں کہ ہمارے خُداوند نے اپنی جان کی قربانی دینے کے ذریعے سے ہمارے لیے نجات مہیا کرنے کی خاطر بڑی حلیمی کے ساتھ اپنی ساری الوہیت کے استحقاق کو ایک طرف رکھ دیا اور ہمیں نجات بخشی۔
یسوع کی زندگی کے آخری چند گھنٹوں کے بارے میں کئی ایک داستانیں ملتی ہیں جنہیں بہت سارے لوگ قبول کرتے ہیں۔ اُن میں سے چند خاص قسم کے بیان تو بائبلی ہیں جبکہ دیگر بہت سارے روایتی ہیں۔ یسوع کی زمینی زندگی کے آخری گھنٹوں کے روایتی صلیبی مقامات کچھ اِس طرح سے ہیں:
1. یسوع مسیح پر موت کا فتویٰ دیا جاتا ہے۔
2. یسوع اپنی صلیب اُٹھاتا ہے۔
3. یسوع صلیب کے بوجھ کے تلے پہلی دفعہ گرتا ہے۔
4. یسوع کی غمزدہ ماں راستے میں ملتی ہے۔
5. شمعون کرینی یسوع کی صلیب اُٹھانے میں سہارا دیتا ہے۔
6. ویرونیکا یسوع کا چہرا رومال سے صاف کرتی ہے۔
7. یسوع صلیب کے بوجھ تلے دوسری دفعہ گرتا ہے۔
8. یسوع یروشلیم کی رونے والی عورتوں کو تسلی دیتا ہے۔
9. یسوع تیسری دفعہ گرتا ہے۔
10. سپاہی یسوع کے کپڑے اُتارتے ہیں۔
11. یسوع کو صلیب پر کیلوں سے جڑا جاتا ہے۔
12. یسوع صلیب پر مرتا ہے۔
13. یسوع کی لاش صلیب سے اُتار کر مریم کی گود میں رکھی جاتی ہے۔
14. یسوع کی لاش قبر میں رکھی جاتی ہے۔
روایتی طور پر بیان کئے جانےو الے صلیبی مقامات کے اندر مقام نمبر 3، 4، 6، 7 اور 9 بالکل بائبلی مقامات نہیں ہیں۔ پس لوگوں کو درست صلیبی مقامات سے سے رُوشناس کروانے کے لیے "صلیب کے رُوحانی راستے" کے طور پر معلومات کو ترتیب دیا گیا ہے۔ ذیل میں14 بائبلی مقامات اور اُن میں سے ہر ایک کا ہماری زندگیوں پر اطلاق بیان کیا گیا ہے۔
صلیب کا پہلا مقام: یسوع زیتون کے پہاڑ پر (لوقا 22 باب 39-46آیات)
یسوع نے زیتون کے پہاڑ پر دُعا کی اور اپنے باپ سے کہا کہ اگر ہو سکے تو یہ پیالہ مطلب اُس کی صلیبی موت کو اُس سے ہٹا لے؛ یہ بات یسوع کی انسانیت کا اظہار کرتی ہے (لوقا 22 باب 39-46آیات)۔ ہمارے لیے اِس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ہے کی اُس واقعے کے بارے میں جس کا وہ سامنا کرنے جا رہا تھا یسوع کا اپنا اندازہ کس قدر واضح اور بڑا تھا ۔ ہر ایک مسیحی کی زندگی میں کبھی نہ کبھی ایسا وقت آتا ہے جب خُدا کی مرضی اور اپنی مرضی میں سے کسی ایک کو چُننا پڑتا ہے۔ اور پھر اِس انتخاب کی بناء پر معلوم ہوتا ہے کہ لوگ خُدا کے ساتھ کس قدر مخلص ہیں اور اُسکے کس قدر تابع ہیں جیسا کہ ہم خُداوند یسوع مسیح کے معاملے میں دیکھ سکتے ہیں۔ جس وقت خُداوند یسوع زیتون کے پہاڑ پر دُعا کر رہا تھا اور خُدا باپ سے کہہ رہا تھا کہ اگر ہو سکے تو وہ اُس صلیبی موت کو اُس سے دور کر دے، وہ اُس ساری مصیبت اور دُکھ سے اچھی طرح واقف تھا جس کا وہ بہت جلد سامنا کرنے کو تھا، لیکن پھر بھی اُس کی دُعا یہ تھی کہ مستقبل میں اُسے چاہے جیسے مرضی حالات کا سامنا کرنا پڑے، اُس کے آسمانی باپ کی ہی مرضی پوری ہونی چاہیے۔ حتیٰ کہ جس وقت وہ کیلوں کے ساتھ جڑا ہوا صلیب پر لٹک رہا تھا اُس وقت بھی یسوع ہمیں خُدا کے کلام کی تابعداری اور ہر طرح کے حالات کے اندر اُس پر یقین رکھنے کا بہت واضح سبق سکھا رہا تھا۔
صلیب کا دوسرا مقام: یہوداہ یسوع کو دھوکا دیتا ہے اور یسوع کو گرفتار کیا جاتا ہے(لوقا 22 باب 47-48آیات)
خُداوند یسوع کو دھوکا دینے کی وجہ سے یہوداہ اسکریوتی نہ صرف پوری تاریخ میں قابلِ نفرت کردار بن گیا ہے بلکہ وہ سارے مسیحیوں کے لیے اِس بات کی سب سے بڑی یاددہانی بھی بن گیا ہے اُن کی زندگیوں میں بھی لازمی طور پر کبھی نہ کبھی ایسا وقت آیا ہے جب اُن پر گناہ کرنے یا گناہ میں گرنے کی آزمائش آئی ہے۔ تمام مسیحیوں کے لیے ٹھوکر کھا کر گناہ میں گرنا ایسے ہی ہے جیسے اُس نجات دہندہ کو دھوکادینا ہے جس نے اُن کی خاطر اپنی جان دی ہے۔ سوچیں کہ جس وقت گناہ ہمارے اپنے انتخاب کی بدولت ہمارے رویے کا حصہ بن جاتا ہے اور ہم جان بوجھ کر رُوحانی راہ سے ہٹ جاتے ہیں تو اُس صورت میں دھوکا کس قدر بڑا ہوتا ہے (لوقا 22 باب 47-48آیات)؟یہوداہ یسوع کے ساتھ ساتھ رہا اور کئی سالوں تک یسوع کے قدموں میں بیٹھ کر اُس سے تعلیم بھی پاتا رہا۔ لیکن چونکہ رُوح القدس کی قدرت کی وجہ سے اُس کا دل مکمل طور پر تبدیل نہیں ہوا تھا، اِس لیے جب شیطان نے اُس کی آزمائش کی تو وہ گناہ میں گر گیا ۔ مسیحیوں کے طور پر ہمیں کہا گیا ہے کہ ہم "اپنے آپ کو آزمائیں کہ ایمان پر ہیں کہ نہیں " (2 کرنتھیوں 13 باب 5آیت)۔
صلیب کا تیسرا مقام : یہودی مجلس یسوع کو رَد کرتی ہے (لوقا 22 باب 66-71آیات)
یہودی مذہبی مجلس سین ہیڈرن نے جو ستر کاہنوں، شرع کے عالموں اور ایک سردار کاہن پر مشتمل تھی پیلاطس سے تقاضا کیا کہ وہ یسوع کو سزائے موت دے۔ یہ واقعہ ہم سب مسیحیوں کو خبردار کرتا ہے کہ ہم اپنی خود راستی میں اپنے آپ کو اِس قدر زیادہ بلند نہ کر لیں کہ اِس کی بناء پر ہم دوسرے لوگوں کی عیب جوئی کرنا شروع کر دیں۔ بائبلی علم اور اِس دُنیا میں ملنے والے عہدے آج بھی پاک کاملیت کا کسی طورپر مقابلہ نہیں کر سکتے، اور انسانوں کے درمیان سب سے زیادہ پرہیز گار شخص کے لیے بھی تکبرانہ سوچ اُس کے بڑی آسانی کے ساتھ گرنے کا سبب ہو سکتی ہے۔ بائبل ہمیں یہ تعلیم دیتی ہے کہ ہم عہدیداروں اور اختیار والوں کی عزت کریں، لیکن حتمی طور پر ہماری زندگیوں پر خُدا کے کلام اور خُدا کی مرضی کی ہی حکمرانی ہونی چاہیے۔ مسیحیوں کو خُدا کے رُوح القدس سے یہ بپتسمہ ملا ہےجو اُنہیں ہر طرح کی صورتحال کے اندر تسلی و اطمینان دیتا ہے، تعلیم دیتا ہے اور اُن کی رہنمائی کرتا ہے تاکہ وہ ہر ایک فیصلہ خُدا کی کامل مرضی کے مطابق کر سکیں خاص طور پر کسی بھی انسان کی زندگی کے اندر یہ چیز سین ہیڈرن جیسے حاکموں کی ضرورت کی تردید کرتی ہے۔ یہودی قوم کی طرف سے یہودی مذہبی مجلس کو دیا جانے والا مکمل اختیار اُن کے بہت سارے کاہنوں اور شرع کے عالموں کے لیے بداطواری میں ملوث ہونے کا سبب بنا، اور جس وقت یسوع نے سچی تعلیم دینے کی کوشش کی تو اُس کی اُس تعلیم کی وجہ سے کاہنوں اور شرع کے عالموں کا اختیار خطرے میں پڑ گیا جس کی وجہ سے اُنہوں نے اُس کے قتل کا منصوبہ بنا یا اور پھر بالآخر رومی حکومت سے تقاضا کیا کہ وہ یسوع کو مصلوب کرے (لوقا 22 باب 66-71آیات)۔
صلیب کا چوتھا مقام: پطرس خُداوند یسوع کا انکار کرتا ہے (لوقا 22 باب 54-62آیات)
جس وقت یسوع کو گرفتار کیا گیا تو پطرس بھی یسوع کے پیچھے پیچھے اُس جگہ پر پہنچا جہاں یسوع پر مقدمہ چلایا جا رہا تھا، اُس جگہ پر مختلف لوگوں نے باری باری پطرس پر یہ الزام لگایا کہ وہ بھی یسوع کے شاگردوں میں سے ایک تھا (لوقا 22باب 54-62آیات)۔ جیسا کہ یسوع نے پہلے سے ہی اِس بات کی پیشن گوئی کر دی تھی، پطرس نے تین بار یسوع کو جاننے تک سے انکار کر دیا۔ پطرس خُداوند یسوع مسیح کا پیارا شاگرد تھا جس پر یسوع کو بھروسہ بھی تھا اور جس نے خُداوند یسوع مسیح کی طرف سے کئے جانے والے بہت سارے معجزات کو خود اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا، اور حتیٰ کہ وہ تو یسوع کے ساتھ پانی پر بھی چلا تھا (متی 14 باب 29-31آیات)۔ اِس کے باوجود پطرس نے گرفتار ہونے کے خوف سے یسوع کو جاننے سے انکار کرتے ہوئے انسانی کمزوری کا مظاہرہ کیا۔ ساری دُنیا کے میں مسیحی بہت دفعہ غیر ایماندار معاشروں کے اندر اپنے ایمان کی وجہ سے ایذا رسانی اور ہر طرح کی ذلت کا سامنا کرتے ہیں جس میں اُن کے ساتھ زبانی بد سلوکی سے لیکر مار پیٹ اور قتل تک کیا جانا شامل ہے۔ شایدبہت سارے لوگ جب پطرس کے یسوع کے ساتھ تعلق پر غور کریں تو خود راستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے رومیوں کے سلوک کے خوف سے مسیح کا انکار کرنے کی وجہ سے پطرس کی عدالت کرنا شروع کر دیں ، لیکن کتنے ایسے مسیحی ہیں جو یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنے ایمان کی وجہ سے عوام الناس میں یا کسی کے ساتھ شخصی ملاقات میں امتیازی سلوک کے خوف سے اُنہوں نے اپنے ایمان کے بارے میں چُپ نہ سادھے رکھی۔ اِس قسم کی خاموشی انسان کی ناکامل کمزوری کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اِس موقعے پر پطرس کا ایمان ایک ناکامل ایمان تھا کیونکہ اُس وقت تک رُوح القدس اُس کے اندر آکر نہیں بسا تھا۔ جس وقت پنتکست کے موقع پر جب رُوح القدس ایمانداروں کے دِلوں میں رہنے کے لیے آگیا ( اعمال 2 باب) تو اُس وقت پطرس ایمان کا دلیر شیر بن گیا جو اپنے خُداوند کی گواہی دینے سے کبھی بھی نہیں ڈرا تھا۔
صلیب کا پانچواں مقام: پنطس پیلاطس یسوع کی عدالت کرتا ہے (لوقا 23 باب 13-25آیات)
آج کل کے قانونی معیاروں کے مطابق اِس چیز کا قطعی طورپر امکان نہیں کہ کوئی عدالت یسوع کو مجرم ٹھہرا پاتی ، خاص طورپر اُس صورتحال میں جب اُس کے خلاف کسی طرح کا کوئی ثبوت نہ پیش کیا جا سکا۔ جو کچھ یسوع نے کیا تھا اُس کی بناء پر پنطس پیلاطس اُس میں کوئی قصور یا جرم نہ پا سکا اِس لیے وہ اُسے چھوڑ دینا چاہتا تھا (لوقا 23 باب 13-24)، لیکن یہودیوں کی مذہبی مجلس سین ہیڈرن نے اِس بات کا سختی کے ساتھ تقاضا کیا کہ پیلاطس اُسے مجرم ٹھہرا کر مصلوب کرنے کا حکم دے۔ سین ہیڈرن جو کہ موسیٰ کی شریعت اور یہودی روایات کے مطابق یہودیوں پر حکمرانی کرتی تھی یسوع کو اُس کے لیے ایک بہت بڑا خطرہ خیال کیا جا رہا تھا کیونکہ وہ یہودیوں پر اُس مجلس کے اراکین کے اختیار کو چیلنج کرتا تھا۔ یسوع نے لوگوں کو سکھایا تھا کہ نجات سین ہیڈرن کی طرف سے دئیے جانے والے بہت سارے احکامات اور قوانین کی پاسداری کے وسیلے سے نہیں بلکہ خُدا کے فضل کے وسیلے سے ملتی ہے، پس اُس کی ایسی تعلیم نے نہ صرف یہودیوں کے اوپر اِس مجلس کے اختیار کو کم کرنے کی کوشش کی تھی بلکہ یہ یہودی مذہبی رہنماؤں کی روزی روٹی کے لیے بھی خطرہ تھی وہ جو عام یہودی لوگوں کو اپنے اختیار کے ماتحت رکھ کر آسانی کے ساتھ کما رہے تھے۔ حتیٰ کہ آج کے دن تک یہ پیغام زیادہ مقبول نہیں کہ کہ نجات ہماری اپنی کوششوں کے وسیلے سے ممکن نہیں بلکہ خُدا کی قدرت اور اُس کے انتخاب سے ممکن ہے ۔ انسان جو مکمل طور پر گناہ آلود فطرت کا مالک ہے وہ چاہتا ہے کہ وہ خود اپنی نجات کو حاصل کرے ، یا کم از کم اُس میں کچھ حصہ رکھے تاکہ وہ بھی اُس جلال کے ایک حصے کا دعویٰ کر سکے۔ لیکن نجات صرف اور صرف خُدا کی طرف سے ہے جو اپنا جلال کسی دوسرے کے لیے روا نہیں رکھتا (یسعیاہ 42 باب 8آیت)۔
صلیب کاچھٹا مقام: یسوع کو کوڑے مارے جاتے اور کانٹوں کا تاج پہنایا جاتا ہے (لوقا 22 باب 63-65آیات)
اِس حوالے میں جس شفا کا ذکر کیا گیا ہے وہ رُوحانی شفا یا گناہ سے شفا ہے۔ اور خُدا کے ساتھ صلح میں بحالی کو بھی شفا کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے۔ مریم کے یسوع کو جنم دینے سے پانچ سو سالوں سے بھی زیادہ عرصہ پہلے یسعیاہ نبی نے اِس بات کی نبوت کی تھی کہ یسوع ہماری خطاؤں کے سبب سے گھایل کیا گیا اور ہماری بد کرداری کے باعث کچلا گیا (یسعیاہ 53باب 3-6آیات) ہماری ہی سلامتی کے لیے اُس پر سیاست ہوئی تاکہ اُس کے مار کھانے سے ہم شفا پائیں۔
صلیب کا ساتواں مقام: یسوع اپنی صلیب اُٹھاتا ہے (یوحنا 19باب 17آیت)
جس وقت یسوع نے اپنے صلیب اُٹھائی تو وہ محض ایک لکڑی سے بہت زیادہ بڑھ کر کچھ اُٹھائے ہوئے تھا۔ اُس دن بہت سارے تماشائی اِس بات کو نہیں جانتے تھے کہ یسوع بنی نوع انسان کے گناہوں کو اُٹھائے ہوئے تھا، اور وہ اُن گناہوں کی سزا کو اپنے اوپر لے کر گناہگار انسانوں کی جگہ پر جان دے رہا تھا۔ یسوع ہمیں متی 16 باب 24آیت میں نصیحت کرتا ہے کہ " اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خودی کا اِنکار کرے اور اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہو لے۔" وہ اِس بات کو بھی ظاہر کرتا ہے کہ یہ محض ایک انتخاب نہیں ہے بلکہ: " جو کوئی اپنی صلیب نہ اُٹھائے اور میرے پیچھے نہ چلے وہ میرے لائق نہیں" (متی 10 باب 38آیت)۔ اپنی صلیب یعنی موت کا آلہ کار اُٹھائے پھرنے سے مُراد یہ ہے کہ اپنی خودی کا انکار کر کے جسمانی لحاظ سے مر جانا اور نئی مخلوق کے طور پر مسیح کی خدمت میں تابعداری کے ساتھ زندہ رہنا ہے (2 کرنتھیوں 5 باب 17آیت)۔ اِس کا مطلب اپنی مرضی، اپنے جذبات، اپنے ارادوں اور اپنی خواہشات کو خُداوند کی مرضی کے تابع کرنا ہے۔ ہمارے لیے ضروری ہے کہ اپنی زندگیوں میں اپنی خوشی کی تلاش میں نہ رہیں بلکہ ہمیشہ ہر ایک چیز کو چھوڑنے کے لیے اور اگر ضرورت پڑے تو اپنی زندگیاں تک دینے کے لیے بھی تیار رہیں۔
صلیب کا آٹھواں مقام: شمعون کرینی یسوع کی صلیب اُٹھانے میں سہارا دیتا ہے (لوقا 23 باب 26آیت)
شمعون کرینی کو اُس دن حالات کا شکار قرار دیا جا سکتا ہے۔ وہ غالباً اُن دِنوں فسح کی عید کی سرگرمیوں کو سرانجام دینے کے لیے یروشلیم آیا ہوا تھا اور جو کچھ بھی یروشلیم میں چل رہا تھا اُس کے بارے میں شاید ہی کچھ جانتا تھا۔ ہم شمعون کرینی کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں کیونکہ جب اُس نے یسوع کی اُس صلیب کو اُٹھانے کے لیے سہارا دیا جس پر وہ مصلوب کیا گیا تھا، اُس کے بعد بائبل اُس کا بالکل بھی ذکر نہیں کرتی (لوقا 23 باب 26آیت)۔ جس وقت اُسے رومی سپاہیوں کی طرف سے حکم دیا گیا تو اُس نے اُس حکم کے خلاف مزاحمت نہیں کی ، غالباً اُس ساری صورتحال کے اندر اسے اپنی زندگی کا خطرہ لاحق ہو گیا تھا۔ یسوع کے برعکس جو اپنی مرضی سے اپنی صلیب کو اُٹھائے ہوئے جا رہا تھا شمعون کرینی کو صلیب کو اُٹھانے کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔ بطورِ مسیحی ہمیں یسوع کے دُکھوں میں اپنی رضامندی سے شامل ہونا چاہیے جیسا کہ پولس رسول ہمیں نصیحت کرتا ہے کہ "پس ہمارے خُداوندکی گواہی دینے سے اور مجھ سے جو اُس کا قیدی ہوں شرم نہ کر بلکہ خُدا کی قدرت کے موافق خوشخبری کی خاطر میرے ساتھ دُکھ اُٹھا" (2 تیمتھیس 1 باب 8آیت)۔
صلیب کا نواں مقام: یسوع یروشلیم کی عورتوں سے ملتا ہے (لوقا 23 باب 27-31آیات)
جس وقت یسوع اپنے مصلوب ہونے کے مقام کی راہ پر کچھ روتی ہوئی عورتوں اور اپنے شاگردوں سے ملا تو اُس نے اُنہیں خبردار کیا کہ وہ اُس کے لیے نہ روئیں بلکہ یروشلیم میں آنے والے خوفناک دِنوں کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنے لیے اور اپنے بچّوں کے لیے روئیں (لوقا 23 باب 27-31آیات)۔ حتیٰ کہ اپنی زندگی میں اِس قدر دُکھ اُٹھاتے ہوئے اور اتنی زیادہ ذلت کا سامنا کرتے ہوئے بھی یسوع کو اپنی ذات کی فکر نہیں تھی بلکہ وہ اُن لوگوں کی فکر کر رہا تھا جو اپنی زندگیوں میں گناہ رکھنے کی وجہ سے ابدی ہلاکت کے خطرے میں تھے۔ یہی انتباہ آج کے دن مسیحیوں کے لیے ہے کہ ہمیں ہمیشہ ہی اِس حوالےسے خبردار ہونا چاہیے کہ اپنی زندگیوں میں خُدا کی عبادت اور تابعداری کے سامنے اِس دُنیا کی فکروں کو آنے کی اجازت نہ دیں ۔ یسوع نے کہا ہے کہ "میری بادشاہی اِس دُنیا کی نہیں ہے" (یوحنا 18 باب 36آیت)، اور بطورِ آسمان کے شہری ہماری ساری توجہ کا مرکز آسمان ہی ہونا چاہیے۔
صلیب کا دسواں مقام: یسوع کو مصلوب کیا جاتا ہے(لوقا 23 باب 33-47آیات)
قریباً دو ہزار سال بعد یسوع کے قریبی ساتھیوں پر اُس وقت جو خوف طاری تھااُس کا تصور کرنا مشکل ہے جب یسوع کے ہاتھوں میں اُس صلیب پر لٹا کر کیل ٹھونکے جا رہے تھے جس پر اُس نے اپنے انسانی جسم میں آخری سانسیں لیں، اور اُس کے ساتھی بے بسی کے عالم میں کھڑے دیکھ تو رہے تھے لیکن کچھ بھی کرنے سے قاصر تھے (لوقا 23باب 44-46آیات)۔ اُس وقت جو کچھ ہو رہا تھا اُس کے پیارے اور شاگرد اُس کو اور اُسکی اہمیت کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ وہ اُس وقت اِس بات کو سمجھنے سے قاصر تھے کہ اُس وقت انسانوں کی طرف سے کیا جانے والا یہ بُرا کام خُدا کے ابدی منصوبے کا حصہ تھا اور اِس کی بدولت ہر وہ انسان نجات پانے کے قابل ہوا جو یسوع پر اپنے شخصی نجات دہندہ کے طور پر ایمان لاتا ہے۔ ہمارے لیے آج اہم بات یہ ہے کہ "اِتنی بڑی نجات سے غافل رہ کر ہم کیوں کر بچ سکتے ہیں؟ " (عبرانیوں 2 باب 3آیت)۔ "اور کسی دُوسرے کے وسیلہ سے نجات نہیں کیونکہ آسمان کے تَلے آدمیوں کو کوئی دُوسرا نام نہیں بخشا گیا جس کے وسیلہ سے ہم نجات پا سکیں" (اعمال 4 باب 12آیت)۔
صلیب کا گیارہواں مقام: یسوع ایمان لانے والے ڈاکو سے آسمانی بادشاہی کا وعدہ کرتا ہے(لوقا 23 باب 43آیت)
یہ بالکل ممکن ہے کہ یسوع کے ساتھ والی صلیب پر مصلوب ہونے والا ڈاکو اِس تصور کو سمجھ لے کہ زندگی یسوع کے لیے ختم نہیں ہو رہی تھی بلکہ وہ مادی دُنیا سے اُس ابدی وعدے میں داخل ہو رہا تھا جہاں سے وہ بنی نوع انسان کے لیے نجات مہیا کرنے کے لیے آیا تھا۔ پس اِس صورت میں مسیح یسوع پر ایمان لا کر خُدا کے فضل کے وسیلے آسمان میں داخل ہونے والوں میں سے ڈاکو پہلا انسان بن گیا (افسیوں 2 باب 8-9آیات)۔ یسوع نے ڈاکو کو بتایا کہ وہ اُسی دن یسوع کے ساتھ فردوس میں ہوگا کیونکہ اُس نے خُدا کے بیٹے کو قبول کیا اور اُس پر ایمان لایا۔ بہت ہی واضح طور پر یہ ایک بہت عمدہ مثال ہے کہ کوئی بھی انسان ایمان لانے کے ذریعے سے خُدا کے فضل کی بدولت ہی نجات پا سکتا ہے نہ کہ اپنے کسی بھی طرح کے اعمال کے ذریعے سے۔ جیسا کہ وہ سب لوگ جنہوں نے یسوع کو رَد کیا اور اُس کو دُکھ دیا خیال کر رہے تھےکہ وہ اپنے کاموں کے سبب سے بچیں گے۔
صلیب کا بارہواں مقام: یسوع صلیب سے اپنی ماں اور شاگرد سے بات کرتا ہے(یوحنا 19باب 26-27آیات)
جب خُداوند یسوع نے اپنے پیارے شاگرد کے سپرد اپنی ماں کی دیکھ بھال کی ذمہ داری لگائی تو اُس وقت بھی جب وہ مر رہا تھا اُس نے اپنی ضروریات کو مدِنظر نہیں رکھا بلکہ وہ بے لوث طریقے سے دوسروں کی بہتری اور ضروریات کے بارے میں پریشان تھا (یوحنا 19 باب 27آیت)۔ اُس کی ساری زندگی اور حتیٰ کہ اُسکی موت بھی ہمیں مختلف طرح کے نمونوں کے ساتھ یہ تعلیم دیتی ہے کہ ہمیں ہر ایک چیز کو خُدا کی پاک مرضی کے تابع لاتے ہوئے اپنی ضروریات پر دوسروں کی ضروریات کو ترجیح دینی چاہیے۔ خُدا کی مرضی پر چلنے کی رضامندی ظاہر کرنا ، اور اپنے کاموں کے ذریعے سے مشکلات کے اندر بھی ایمانداری کے ساتھ دوسروں کے لیے قربانی دینا ہی ایک حقیقی مسیحی کی زندگی کی نمایاں ترین خصوصیات ہونی چاہییں۔
صلیب کا تیرھواں مقام: یسوع صلیب پر اپنی جان دیتا ہے(لوقا 23 باب 44-46آیات)
یسوع کی موت کے وقت ہیکل کے اندر لگا ہوا دبیز پردہ جو عام لوگوں کو پاکترین مقام سے علیحدہ کرتا تھا اوپر سے لیکر نیچے تک پھٹ کر دو حصے ہو گیا۔ یہ بات اُن سب یہودیوں کے لیے بہت زیادہ خوفناک تھی جو اِس واقعے کے گواہ تھے ، اور جو اِس بات کو سمجھ نہیں پائے تھے کہ یہ چیز پرانے عہد نامے کے اختتام اور نئے عہد نامے کے آغاز کے بارے میں ایک بڑا نشان تھی۔ ابھی انسان کو اپنے گناہوں کی وجہ سے خُدا سے جُدائی کا شکار رہنے کی ضرورت نہیں تھی بلکہ اب وہ دلیری کے ساتھ خُدا کے فضل کے تخت کے سامنے جا کر خُدا سے اپنے گناہوں کی معاف کے لیے دُعا کر سکتا تھا۔ یسوع مسیح کی زندگی اور موت نے انسان کے لیے خُدا کے فضل کی بدولت نجات کا حصول ممکن بناتے ہوئے گناہ کی دیوار کو خُدا اور انسان کے درمیان سے ہٹا دیا ہے۔
صلیب کا چودھواں مقام: یسوع کو قبر میں اُتارا جاتا ہے(لوقا 23 باب 50-54آیات)
یسوع کی صلیب پر موت کے بعد اُس کے بدن کو نیچے اُتارا گیا اور پھر اُسے ارمتیاہ نامی علاقے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص یوسف کی قبر میں رکھا گیا جو اُس نے اپنے لیے تیار کروائی ہوئی تھی (لوقا 23 باب 50-54آیات)۔ یوسف بھی سین ہیڈرن مجلس کا ایک رکن تھا، لیکن وہ یسوع مسیح پر چلائے جانے والے مقدمے اور اُس کی مصلوبیت کے فیصلے کے خلاف تھا۔ یوسف خفیہ طور پر یہ ایمان رکھتا تھا کہ کلامِ مُقدس کے مطابق یسوع ہی مسیحا تھا لیکن وہ اپنے ایمان کا کھلے عام اظہار کرنے سے خوفزدہ تھا (یوحنا 19باب38آیت)۔ یسوع کی وفات کے بعد یوسف خفیہ طور پر پیلاطس کے پاس گیا اور اُس سے یسوع کا بدن حاصل کرنے کی درخواست کی تاکہ وہ مناسب طور پر یسوع کی تدفین کر سکے۔
یسوع کی عظیم قربانی صرف انسان کے گناہوں کے لیے کفارہ نہیں بنی تھی بلکہ یہ اُس موت پر فتح بھی بن گئی تھی جو گناہ کی لعنت کے اثر تلے پیدا ہونے والے انسان کے لیے نجات کے بغیر اُسکا حتمی انجام تھی۔ گناہ کی قیمت کی ادائیگی سے کسی طور پر بھی چھٹکارہ ممکن نہیں تھا اور یہ قیمت موت ہے۔ ہمارا خالق عدل و انصاف کرنے والا خُدا ہے اور اِس لیے وہ تقاضا کرتا ہے کہ گناہ کی قیمت ادا کی جائے۔ اور کیونکہ وہ راست منصف ہونے کے ساتھ ساتھ محبت اور رحم کرنے والا خُدا بھی ہے اِس لیے اُس نے اپنے اکلوتے بیٹے کو بھیجا تاکہ وہ انسان کے گناہوں کی قیمت ادا کرے کیونکہ وہ جانتا تھا کہ اگر یہ قیمت نہ ادا کی گئی تو انسان ابدی طور پر ہلاکت میں چلا جائے گا (یوحنا 3 باب 16آیت)۔ خُدا کی محبت اور رحم کا خوبصورت اور واضح اظہار یسوع مسیح کے اُن الفاظ سے ہوتا ہے جو اُس نے صلیب پر لٹکے ہوئے ادا کیے اور کہا کہ خُدا باپ اُن سب کو جو اُسے قتل کر رہے تھے معاف فرمائے کیونکہ وہ علم اور حکمت نہیں رکھتے تھے کہ کیا کر رہے تھے۔ اِس سب کا انجام یہ ہے کہ وہ سب لوگ جو یسوع کو صلیب پر لٹکا کر فنا کرنے کی کوشش کر رہے تھے اُن میں سے ہر اُس انسان کے لیے رُوحانی طور پر فنا ہونے کا جواز پیدا ہو گیا جو آج بھی ایسی ہی لا علمی رکھتے ہیں جس نے انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے۔ ہر وہ انسان جو نجات کے اُس تحفے کو قبول کرنے سے انکار کرتا ہے جسے یسوع نے اپنی جان کی قربانی کے ذریعے سے ممکن بنایا یقینی طور پر اُسی بغاوت زدہ لا علمی اور گناہ کی پیداوار ہے جو ایک انسان کوخُدا کی حکمت سے جُدا کرتا ہے۔
English
صلیبی مقامات کیا ہیں اور ہم اُن سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟