سوال
فقہی کون لوگ تھے جو اکثر خُداوند یسوع کے ساتھ بحث کیا کرتے تھے؟
جواب
فقہی قدیم اسرائیل کے عالم تھے جن کا کام شریعت کا مطالعہ کرنا، اُس کی نقلیں تیارکرنا اور اُس پر تفاسیر لکھنا تھا۔ انہیں ایسے مواقع پر اُجرت پر بھی بُلایا تھا جب کسی تحریری دستاویز کی ضرورت پیش آتی تھی یا جب کسی شرعی نکتے کی تشریح کی ضرورت ہوتی تھی۔ عزرا"موسیٰ کی شریعت میں جسے خداوند اسرائیل کے خدا نے دیا تھا ماہر فقیہہ تھا " (عزرا 7باب 6آیت )۔
فقہی کلامِ مقدس کو محفوظ کرنے کے اپنے کام کو بہت سنجیدگی سے لیتے تھے ؛ حتی ٰکہ کسی نقل کی درستگی کو یقینی بنانے کے لیے وہ حروف اور خالی جگہوں کی گنتی تک کرتے ہوئے بڑی احتیاط سے صحائف کی نقل کرتے تھے ۔ بائبل کے پرانے عہد نامے کے حصے کو محفوظ رکھنے کے لیے ہم یہودی فقیہوں کے شکرگزار ہو سکتے ہیں۔
یہودی لوگ صحائف ، بالخصوص شریعت کےوفاداری کے ساتھ کئے گئے مطالعے اور اِس پر عمل کرنے کی تفہیم کی بدولت تیزی سے "اہل کتاب" کے نام سے مشہور ہونے لگے ۔ نئے عہد نامہ کے زمانے میں فقہی اکثر فریسیوں کے فرقے سے منسلک تھےحالانکہ تمام فریسی ماہرفقیہہ نہیں ہوتے تھے (دیکھیں متی 5باب 20آیت ؛ 12باب 38آیت )۔ وہ لوگوں کے استاد تھے (مرقس 1باب 22آیت ) اور شریعت کی تشریح کرتے تھے۔ اُن کے علم، لگن اور شریعت کی تابعداری کی ظاہری شکل و صورت کی وجہ سے عام لوگوں کی طرف سے اُن کا بڑے پیمانے پر احترام کیا جاتا تھا۔
تاہم اہلِ فقیہہ کلام ِ مقدس کی تشریح سے آگے نکل گئے اور اُن باتوں میں بہت سی انسان مرکوز روایات کا اضافہ کیا جو خدا نے فرمائی تھیں ۔ وہ شریعت کی تفسیر و تشریح کرنے میں تو ماہر بن گئے جبکہ اُنہوں نے اُس کے پیچھے کی رُوح کو نظر انداز کر دیا۔ معاملات اتنے بگڑ گئے کہ فقیہوں نے شریعت میں جو اُصول و ضوابطہ اور روایات شامل کیں وہ خود شریعت سے زیادہ اہم سمجھی جانے لگیں ۔ یہ بات خُداوند یسوع اور فریسیوں اور فقیہوں کے درمیان بہت سے تصادم کا باعث ثابت ہوئی۔ پہاڑی واعظ کے آغاز میں خُداوند یسوع نے اپنے سامعین کو اس بات سے چونکا دیا کہ فقیہوں کی راستبازی کسی کو آسمان تک پہنچانے کے لیے کافی نہیں ہے (متی 5باب 20 آیت )۔ اِس کے بعدخُداوند یسوع کے واعظ کے ایک بڑے حصے نے اس حوالے سے بات کی کہ لوگوں کو (فقیہوں کی طرف سے) کیا سکھایا گیا ہے اور خدا اصل میں کیا چاہتا ہے (متی 5باب 21-40آیات )۔ اپنی خدمت کے اختتام کے قریب خُداوند یسوع نے فقیہوں کی ریاکاری کے باعث اُن کی پورے طور پر مذمت کی (متی 23باب )۔ وہ شریعت کو جانتے اور دوسروں کو سکھاتے تھےلیکن انہوں نے خود اس پر عمل نہ کیا تھا۔
فقیہو ں کا اصل مقصد پورے دل سے شریعت کو جاننا اور اُس کی حفاظت کرنا اور دوسروں کو اُس پر عمل کرنے کی ترغیب دینا تھا ۔ لیکن حالات اُس وقت بُری طرح خراب ہو گئے جب انسانوں کی بنائی ہوئی روایات خدا کے کلام پر غالب آنے لگیں اور پاکیزگی کے دکھاوے نے حقیقی دیندارزندگی کی جگہ لے لی۔ کلام کو محفوظ رکھنے کے اپنے مقصد کے برعکس فقیہوں نے اصل میں اُن روایات کے ذریعے اُسے منسوخ کر دیا تھا جو اُنہیں نے آگے منتقل کی تھیں(مرقس 7باب 13آیت )۔
معاملات اتنے بگڑ کیسے گئے؟ غالباً اس لیے کہ یہودی صدیوں سے ظلم و ستم سہہ کر اسیری سے بحالی کے بعد اِس وجہ سے متکبرانہ رویے میں مبتلا ہو گئے تھے کہ وہ شریعت کی پاسداری کرتے ہیں اور یہ کہ وہ خُدا کے چُنے ہوئے لوگ ہیں۔خُداوند یسوع کے زمانے کے یہودی یقیناً برتری کا احساس رکھتے تھے (یوحنا 7 باب 49آیت ) اور خداوند یسوع نے اِس رویے کی مخالفت کی تھے (متی 9باب 21آیت )۔ بڑا مسئلہ یہ تھا کہ فقہی دلی طور پر ریاکار تھے۔ وہ خُدا کو خوش کرنے کے برعکس لوگوں کے سامنے نیک نظر آنے میں زیادہ دلچسپی رکھتے تھے۔ بالآخر یہی وہ فقہی تھے جنہوں نے یسوع کو گرفتار اور مصلوب کرانے میں اہم کردار ادا کیا تھا (متی 26باب 57آیت ؛ مرقس 15باب 1آیت ؛ لوقا 22باب 1-2آیات )۔ ہر مسیحی فقیہوں کی ریا کاری سے یہ سبق سیکھ سکتا ہے کہ خدا راستبازی کے ظاہری کاموں سے بہت زیادہ کی توقع رکھتا ہے۔ وہ دل کی باطنی تبدیلی چاہتا ہے جو مسیح کی محبت اور فرمانبرداری میں لگاتار پروان چڑھتی جاتی ہے۔
English
فقہی کون لوگ تھے جو اکثر خُداوند یسوع کے ساتھ بحث کیا کرتے تھے؟"