سوال
نجات کے تعلق سے بتدریج الہام کیا ہے؟
جواب
بتدریج الہام" کی یہ اصطلاح اس تصور اور تعلیم کی جانب اشارہ کرتی ہے کہ خدا نے بنی نوع انسان کےلیے اپنی مر ضی اور تمام تر منصوبے کے مختلف پہلوؤں کو اُن الگ الگ اوقات میں ظاہر کیا تھا جسے بعض عالمین الہیات کی طر ف سے" ادوار" کا نام دیا جاتا ہے ۔ نظریہ ادواریت ( مختلف ادوار کے نظریے ) کے ماننے والوں کے نزدیک ہر مخصوص دور خد ا کے منصوبے کی تکمیل میں ایک منفرد حیثیت ( یعنی واقعات کی ایک ترتیب شدہ حالت) رکھتا ہے ۔ گوکہ نظریہ ادواریت کے ماننے والے تاریخ کے دوران ہو گزرنے والے ادوار کی تعداد کے بارے غیر متفق ہیں مگر سب ہی مانتے ہیں کہ خدا نے ہر مخصوص دور میں اپنی ذات اور انسانی نجات کے اپنے منصوبے کے بارے میں چند مخصوص پہلوؤں کو ہی ظاہر کیا تھا اور ہر دور پچھلے دور کی بنیاد پر تشکیل دیا گیا تھا ۔
اگرچہ نظریہ ادواریت کے ماننے والے بتدریج الہام کے عمل پر یقین رکھتے ہیں لیکن اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ بتدریج الہام کے عمل کو قبول کرنے کےلیے کسی شخص کے لیے نظریہ ادواریت کاقائل ہونا ضروری نہیں ہے ۔ بائبل کے قریباً تما م ہی طلباً اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ بائبل میں پائی جانے والی چند سچائیوں کو خدانے پچھلی نسلوں پر پوری طرح عیاں نہیں کیا تھا ۔ موجودہ دورکا کوئی بھی شخص جو خدا تک رسائی کی غرض سے اُس کے حضور جانورکی قربانی نہیں لاتا ہے یا جو ہفتے کے آخری دن کی بجائے پہلے دن عبادت کرتا ہے وہ سمجھتا ہے کہ علم اور عمل میں پائے جانے والے ایسے فرق کو تمام تاریخ کے دوران بتدریج عیاں اور نافذکیا جاتا رہا ہے ۔
مزید برآں بتدریج الہام کے تصور سے متعلق انتہائی اہم ترین معاملات موجود ہیں ۔ اس کی ایک مثال کلیسیا کی پیدایش اور تشکیل ہے جس کے بارے میں پولس رسول بیان کرتا ہےکہ :"اِسی سبب سے مَیں پولس تم غیر قوم والوں کی خاطر مسیح یسوع کا قیدی ہوں۔ شاید تم نے خُدا کے اُس فضل کے اِنتظام کا حال سنا ہو گا جو تمہارے لئے مجھ پر ہوا۔ یعنی یہ کہ وہ بھید مجھے مکاشفہ سے معلوم ہوا۔ چنانچہ مَیں نے پہلے اُس کا مختصر حال لکھا ہےجسے پڑھ کرتم معلوم کر سکتے ہو کہ مَیں مسیح کا وہ بھید کس قدر سمجھتا ہوں۔ جو اَور زمانوں میں بنی آدمؔ کو اِس طرح معلوم نہ ہوا تھا جس طرح اُس کے مُقدس رسولوں اور نبیوں پر رُوح میں اب ظاہر ہو گیا ہے۔ یعنی یہ کہ مسیح یسوع میں غیرقومیں خوشخبری کے وسیلہ سے میراث میں شرِیک اور بدن میں شامل اور وعدہ میں داخل ہیں" ( افسیوں 3باب 1-6آیات)۔
پولس رسول روم کی کلیسیا کے نام خط میں بھی قریباً یہی چیز بیان کرتا ہے :"اب خُدا جو تم کو میری خوشخبری یعنی یسوع مسیح کی منادی کےموافق مضبوط کر سکتا ہے اُس بھید کے مکاشفہ کے مطابِق جو اَزل سے پوشیدہ رہا۔ مگر اِس وقت ظاہر ہو کر خُدایِ اَزلی کے حکم کے مطابق نبیوں کی کتابوں کے ذرِیعہ سے سب قوموں کو بتایا گیا تاکہ وہ اِیمان کے تابع ہو جائیں"( رومیوں 16باب 25-26آیات)۔
بتدریج الہام کے بارے میں مختلف طرح کی بحث میں لوگوں کو سب سے پہلے اس سوال کا سامنا ہوتا ہے کہ بتدریج الہام کا اطلاق نجات پر کیسے ہوتا ہے ۔ کیا مسیح کی آمد سے پہلے موجود لوگوں نے اُس لحاظ سے مختلف طرح سے نجات پائی تھی جس طر ح سے موجودہ زمانہ کے لوگ نجات پاتے ہیں ؟ نئے عہد نامے کے ز مانہ میں لوگوں کو یسوع مسیح کے نجات کے کام اور اس بات پر ایمان رکھنے کی منادی کی جاتی ہے کہ خدا نے اُسے مُردوں میں سے جِلایا ہے اور یہ بھی کہ وہ ا یمان کے وسیلہ سے نجات پائیں گے ( رومیوں 10باب 9-10آیات؛ اعمال 16باب 31آیت)۔ تاہم پرانے عہد نامے کے ماہر ایلن رَوس(Allen Ross) کا کہنا ہے کہ " یہ بڑی حد تک نا قابلِ یقین بات ہے کہ ہر انسان جو ( پرانے عہد نامے میں ) نجات پر ایمان رکھتا تھا وہ شعوری طور پر خدا کے بیٹے یسوع کی کفارہ بخش موت پر بھی ایمان رکھتا ہو۔" جون فین برگ مزید بیان کرتا ہے کہ " پرانے عہد نامے کے زمانہ کے لوگ نہیں جانتے تھے کہ یسوع ہی مسیحا ہے ، کہ یسوع اپنی جان دے گا اور یہ کہ اُس کی موت نجات کی بنیاد ہو گی "۔ اگر روز اور فین برگ درست ہیں تو مسیح کے زمانہ سے پہلے کےلوگوں پر خدا نے حقیقتاً کن باتوں کو عیاں کیا تھا اور پرانے عہد نامے کے مقدسین نے کیسے نجات پائی تھی ؟ پرانے عہد نامے کے نجات کے عمل اور نئے عہد نامے کے نجات کے عمل میں اگر کوئی تبدیلی ہوئی تھی تو وہ کیا تھی ؟
بتدریج الہام – نجات کے لیے ایک راستہ ہے یا دو راستے ہیں ؟
کچھ لوگ یہ الزام لگاتے ہیں کہ بتدریج الہام کے قائل لوگ نجات کے دو الگ الگ طریقوں کی حمایت کرتے ہیں - ایک وہ جو مسیح کی آمد سے پہلے موجود تھا اور دوسر ا وہ جو اُس کی موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بعد رائج ہوا تھا ۔ ایل ایس شیفر(L. S. Chafer) ایسے دعوے کو مسترد کرتا اور لکھتا ہے کہ " کیا ایسے دو طریقہ کارموجود ہیں جن کے وسیلہ سے کوئی نجات پا سکتا ہے ؟ اس سوال کے جواب میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ کسی بھی مخصوص کردار کی نجات ہمیشہ سے خدا کا کام ہے جو اُس نے انسان کی خاطر سر انجام دیا ہے اور یہ کبھی بھی کوئی ایسا کام نہیں ہے جو انسان خدا کی خاطر کرتا ہے۔۔۔۔۔۔ لہذا نجات کےلیے صرف ایک ہی راستہ ہے جو خدا کی قدرت سے مسیح کی قربانی کے وسیلہ سے ممکن ہے۔"
اگر یہ سچ ہے تو پھر نجا ت کے تعلق سے پرانے اور نئے عہد نامے کے الہام ہم آہنگ کیسے ہو سکتے ہیں ؟ چارلس رائری (Charles Ryrie) اس معاملے کا خلاصہ کامیابی کیساتھ اس طرح بیان کرتا ہے :مسیح کی موت ہر زمانہ میں نجات کی بنیاد ہے؛ ایمان ہر زمانہ میں نجات کا تقاضا ہے ؛ خدا ہر زمانے میں ایمان کا مرکز ہے ؛ مختلف ادوار میں ایمان کا مواد تبدیل ہو تا ہے۔" دوسر ے الفاظ میں اس بات سے قطع ِ نظر کہ کوئی شخص کس زمانہ میں موجود ہے اُن کی نجات کا انحصار بنیادی طور پر مسیح کے کفارہ بخش کام اور خدا پرا یمان رکھنے پر ہے لیکن خدا کے منصوبے کی خصوصیات سے متعلق کسی شخص کے علم میں اضافہ خدا کےاُس بتدریج الہام کے وسیلہ سے ہوا ہے ۔ جو مختلف زمانوں کے دوران عیاں ہوتا رہا ہے ۔
پرانے عہد نامے کے مقدسین کے بارےمیں نارمن گائزلر مندرجہ ذیل باتوں کو پیش کر تا ہے : " مختصر اًیہ واضح ہے کہ پرانے عہد نامے میں نجات سے متعلق ( واضح عقائد کے لحاظ سے) معیاری تقاضوں میں (1) خدا کی واحدنیت پر ایمان ، (2) انسان کی گناہ آلودہ حالت کا اعتراف، (3) خدا کے ضروری فضل پریقین اور ممکنہ طور پر (4) یہ تصور شامل ہیں کہ ایک مسیحا آنے والا ہے۔"
کیا گائزلر کے دعوئے کی حمایت کے لیے کوئی بائبلی ثبوت موجود ہے ؟ لوقا کی انجیل میں مندرج اس حوالہ پر غور کریں جو پہلے تین تقاضوں پر بات کرتا ہے:
"دو شخص ہیکل میں دُعا کرنے گئے۔ ایک فریسی۔ دُوسرا محصول لینے والا۔ فریسی کھڑا ہو کر اپنے جی میں یوں دُعا کرنے لگا کہ اَے خُدا! مَیں تیرا شکر کرتا ہُوں کہ باقی آدمیوں کی طرح ظالم بے اِنصاف زِنا کار یا اِس محصول لینے والے کی مانند نہیں ہوں۔ مَیں ہفتہ میں دو بار روزہ رکھتا اور اپنی ساری آمدنی پر دَہ یکی دیتا ہُوں۔ لیکن محصُول لینے والے نے دُور کھڑے ہو کر اِتنا بھی نہ چاہا کہ آسمان کی طرف آنکھ اُٹھائے بلکہ چھاتی پِیٹ پِیٹ کر کہا اَے خُدا! مجھ گنہگار پر رحم کر۔ مَیں تم سے کہتا ہوں کہ یہ شخص دُوسرے کی نسبت راست باز ٹھہر کر اپنے گھر گیا کیونکہ جو کوئی اپنے آپ کو بڑا بنائے گا وہ چھوٹا کِیا جائے گا اور جو اپنے آپ کو چھوٹا بنائے گا وہ بڑا کِیا جائے گا" ( لوقا 18باب 10-14آیات)۔
یہ واقعہ مسیح کی موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے سے پہلے پیش آیا تھا پس بے شک اس واقعے میں ایک ایسا شخص پایا جاتا ہے جسے نئے عہد نامے کے انجیل کے پیغام کا کوئی علم نہیں ہے جیسا آج کل بیان کیا جاتا ہے ۔ محصول لینے والے کے اس سادہ بیان ( " اَے خُدا! مجھ گنہگار پر رحم کر") میں ہم ( 1) خدا پر ایمان ، (2) گناہ کا اعتراف اور (3) رحم پر یقین پاتے ہیں ۔ اس کے بعد یسوع ایک دلچسپ بیان دیتا ہے : کہ وہ شخص " راستباز" ٹھہر کر گھر گیا۔ یہ بالکل وہی اصطلا ح ہے جو پولس رسول کی طرف سے نئے عہد نامے کے اُن مقدسین کے مقام کو بیان کرنے کےلیے استعمال کی گئی ہے جو انجیل کے پیغام پر ایمان لائے اور جنہوں نے مسیح پر بھروسہ کیا ہے :"پس جب ہم اِیمان سے راست باز ٹھہرے تو خُدا کے ساتھ اپنے خُداوند یسوع مسیح کے وسیلہ سے صلح رکھیں" (رومیوں 5باب 1آیت) ۔
گائزلر کی فہرست کا چوتھا نقطہ-مسیحا کی آمد کا شعور- لوقا کے بیان میں موجود نہیں ہے ۔ تاہم نئے عہد نامے کے دوسرے حوالہ جات یہ ثابت کرتے ہیں کہ ممکنہ طور پر یہ ایک عام تعلیم تھی۔ مثال کے طور پر کنویں پر موجود سامری عورت اور یسوع کے بارےمیں یوحنا کے بیان میں عورت کہتی ہے کہ "مَیں جانتی ہوں کہ مسیح جو خرستُس کہلاتا ہے آنے والا ہے۔ جب وہ آئے گا تو ہمیں سب باتیں بتا دے گا" ( یوحنا 4باب 25آیت)۔ تاہم گائزلر نے خود تسلیم کیا ہے کہ پرانے عہد نامے میں نجات کے تعلق سے مسیحا پر ایمان رکھنا ایک " لازمی" تقاضا نہیں تھا ۔
بتدریج الہام – بائبل مقدس سے مزید شواہد
کلامِ مقدس کا فوری مطالعہ پرانے اور نئے دونوں عہد ناموں میں اس حقیقت کی تائید کرنے والی درج ذیل آیات کو واضح کرتا ہے کہ خدا پر ایمان ہمیشہ سے نجات کی راہ رہا ہے :
• " اور وہ خُداوند پر اِیمان لایا اور اِسے اُس نے اُس کے حق میں راست بازی شمار کِیا" ( پیدایش 15باب 6آیت) ۔
• "اور جو کوئی خُداوند کا نام لے گا نجات پائے گا کیونکہ کوہِ صیون اور یروشلیم میں جیسا خُداوند نے فرمایا ہے بچ نکلنے والے ہوں گے اور باقی لوگوں میں وہ جن کو خُداوند بُلاتا ہے"( یوایل 2باب 32آیت)۔
• "کیونکہ ممکن نہیں کہ بَیلوں اور بکروں کا خون گناہوں کو دُور کرے"(عبرانیوں 10باب 4آیت)
• "اب اِیمان اُمّید کی ہُوئی چیزوں کا اِعتماد اور اَن دیکھی چیزوں کا ثبوت ہے۔ کیونکہ اُسی کی بابت بزُرگوں کے حق میں اچھّی گواہی دی گئی۔" (عبرانیوں 11باب 1-2آیات)۔
• "اور بغیر اِیمان کے اُس کو پسند آنا ناممکن ہے۔ اِس لئے کہ خُدا کے پاس آنے والے کو اِیمان لانا چاہیے کہ وہ موجود ہے اور اپنے طالبوں کو بدلہ دیتا ہے"(عبرانیوں 11باب 6آیت)۔
بائبل صاف طور پر بیان کرتی ہے کہ تما م تاریخ کے دوران ایمان ہی سب لوگوں کےلیے نجات کی کلید رہا ہے لیکن خدا اُن لوگوں کو نجات کیسے دے سکتا تھا جو مسیح کی اُس قربانی سے لا علم تھے جو اُن کی خا طر دی جانے والی تھی ؟ اس کا جواب یہ ہے کہ خدا نے اُنہیں اُس علم کے نتیجہ میں نجات دی تھی جو وہ رکھتے تھے ۔ وہ ایمان کے وسیلہ سے اُن چیزوں کو دیکھ رہے تھے جن کو وہ عام طور پر دیکھ نہیں سکتے تھے ۔ جبکہ آج ایماندار اُن واقعات پر غور کرتے ہیں جن کو وہ دیکھ سکتے ہیں ۔ مندرجہ ذیل خاکہ اس تفہیم کو پیش کرتا ہے :
کلامِ مقدس سکھاتا ہے کہ ایمان پر عمل کرنے کےلیے خدا نے ہمیشہ لوگوں کو کافی الہام دیا ہے ۔ اب جب مسیح کا نجات کا کام مکمل ہو چکا ہے تو ایمان کا تقاضا بھی بد ل چکا ہے ؛ جہالت کا زمانہ اب ختم ہو گیا :
• " اُس نے اگلے زمانہ میں سب قوموں کو اپنی اپنی راہ چلنے دِیا۔ تو بھی اُس نے اپنے آپ کو بے گواہ نہ چھوڑا " ( اعمال 14باب 16آیت)۔
• " پس خُدا جہالت کے وقتوں سے چشم پوشی کر کے اب سب آدمیوں کو ہر جگہ حکم دیتا ہے کہ توبہ کریں" ( اعمال 17باب 30آیت)۔
• " اِس لئے کہ سب نےگناہ کِیا اور خُدا کے جلال سے محروم ہیں۔ مگر اُس کے فضل کے سبب سے اُس مخلصی کے وسیلہ سے جو مسیح یسوع میں ہے مفت راست باز ٹھہرائے جاتے ہیں۔ اُسے خُدا نے اُس کے خون کے باعث ایک اَیسا کفارہ ٹھہرایا جو اِیمان لانے سے فائدہ مند ہو تاکہ جو گناہ پیشتر ہو چکے تھے اور جن سے خُدا نے تحمل کر کے طرح دی تھی اُن کے بارے میں وہ اپنی راست بازی ظاہر کرے۔ بلکہ اِسی وقت اُس کی راست بازی ظاہر ہو تاکہ وہ خود بھی عادِل رہے اور جو یسوع پر اِیمان لائے اُس کو بھی راست باز ٹھہرانے والا ہو" ( رومیوں 3باب23-26آیات )۔
مسیح کے آنے سے پہلے خدا قربانی کے نظام اور اس بات کو سمجھنے کی تربیت کے وسیلہ سے مسیح کی موت کی نشاندہی کر رہا تھا کہ گناہ موت کا باعث بنتا ہے۔ شریعت ایک استاد کے طور پر دی گئی تھی جس نے لوگوں کو یہ شعور عطا کیا تھا کہ وہ گنہگار ہیں اور اُن کو خدا کے فضل کی ضرورت ہے ( گلتیوں 3 باب 24آیت)۔ مگر شریعت نے ابرہا م کے ساتھ باندھے اُس پہلے عہد کو منسوخ نہیں کیا تھا جو ایمان پر مبنی تھا ؛ یہ ابر ہام کے ساتھ باندھا گیا عہد ہی ہے جو آج بھی نجات کا طریقہ کار ہے ( رومیوں 4باب )۔ لیکن جیسا کہ رائری نے اوپر بیان کیا ہے کہ ہمارے ایمان کے تفصیلی مشمولات یعنی الہام کی عطا کر دہ مقدار نے گزشتہ طویل عرصہ کے دوران کافی ترقی کی ہے اور اسی وجہ سے موجودہ زمانے کے لوگ خدا کے اُس تقاضے کی براہ راست سمجھ رکھتے ہیں جو خدا اُن سے چاہتا ہے ۔
بتدریج الہام - نتائج
خدا کے بتدریج الہام کا ذکر کرتے ہوئے جان کیلون لکھتا ہے کہ "اپنے رحم کے عہد کے انتظام کےلیے خدا وند خُدا اس منظم منصوبے پر عمل پیرا تھا : وقت گزرنے کے ساتھ مکمل الہام کا دن جیسے جیسے قریب آتا گیا تو خدا ہر دن کے ساتھ درجہ بدرجہ اس کے ظہور کی روشنی میں اضافہ کر تا گیا ۔چنانچہ شروعات میں جب آدم کے ساتھ نجات کا پہلا عہد باندھا گیا ( پیدایش 3باب 15آیت) تو یہ ایک مدہم شعلے کی طرح جلتا تھا ۔ پھر جب اس میں اضافہ کیا گیا تو روشنی تیزی سے بڑھتی اور اپنی کرنوں کو پھیلاتی ہوئی مکمل طور پر روشن ہو گئی۔ آخر میں جب تمام بادل چھٹ گئے تو آفتابِ صداقت مسیح نے تمام دنیا کو پوری طرح منور کر دیا "(Institutes, 2.10.20)۔
بتدریج الہام کا یہ مطلب نہیں ہے کہ پرانے عہد نامے میں خدا کے لوگ ہر طرح کے الہام اور فہم کے بغیر تھے ۔ کیلون بیان کرتا ہے کہ مسیح سے پہلے زندگی بسر کرنے والے لوگ نجات اور ابدی زندگی کی امید پر مشتمل منادی کے بغیر نہیں تھا بلکہ ۔۔۔۔۔ اُنہوں نے دُور سے محض اس دھندلے سے خاکے کی جھلک دیکھی تھی جو ہم پر آج روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔
(Institutes, 2.7.16; 2.9.1; commentary on Galatians 3:23)۔
کلام ِ مقدس میں یہ حقیقت واضح طور پر بیان کی گئی ہے کہ کوئی بھی انسان مسیح کی موت اور مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے بغیر نجات نہیں پاسکتا ( یوحنا 14باب 6آیت)۔ مسیح کی صلیب نجات کی بنیادرہی ہے اور ہمیشہ رہے گی اور خدا پر ایمان ہمیشہ سے نجات کا وسیلہ رہا ہے ۔ تاہم کسی شخص کے ایمان کے حجم کا انحصار ہمیشہ ہی ا لہام کی اُس مقدار پر ہوتا ہے جو خدا ایک خاص زمانے یا دَور میں ظاہر کرنا چاہتا تھا ۔
English
نجات کے تعلق سے بتدریج الہام کیا ہے؟