settings icon
share icon
سوال

کیا ایک ہی چیز کے لیے بار بار دُعا مانگنا قابلِ قبول ہے یا پھر ہمیں کسی چیز کے لیے صرف ایک بار دُعا مانگنی چاہیے ؟

جواب


لوقا 18باب 1-7 آیات میں خُداوند یسوع نے دُعا میں استقلال اور ثابت قدمی/مستقل مزاجی کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے ایک تمثیل پیش کی ہے۔ وہ ایک بیوہ کی کہانی سناتا ہے جو ایک بے انصاف قاضی کے پاس آکر اپنے مدعی کے خلاف انصاف کا تقاضا کرتی تھی۔ اُس بیوہ کی قاضی کے سامنے عرض میں استقلال اور ثابت قدمی / مستقل مزاجی کی وجہ سے وہ بے انصاف قاضی بھی پسیج گیا اور اُس نے اُس بیوہ کا انصاف کیا۔ یہ کہانی بیان کرنے میں یسوع جس نکتے پر روشنی ڈالنے کی کوشش کرتا ہے وہ یہ ہے کہ اگر ایک بیوہ کی فریاد کرنے میں مستقل مزاجی اور ثابت قدمی کی وجہ سے ایک بے انصاف قاضی اُس کی فریاد سُن کر اُس کا انصاف کرتا ہے تو پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ خُدا باپ جو ہم سے محبت رکھتا ہے – "اپنے برگزیدوں"(آیت 7) – کی فریاد سُن کر اُن کو جواب نہ دے گا۔ابھی یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ یہ تمثیل وہ سب نہیں سکھاتی جو اکثر اِس سے مطلب لے لیا جاتا ہے کہ اگر ہم کسی چیز کے لیے بار بار دُعا کرتے ہیں تو پھر یہ خُدا کی ذمہ داری یا مجبوری بن جاتی ہے کہ وہ لازمی طور پر ہمیں وہ سب عطا کرےجو ہم مانگ رہے ہوتے ہیں۔ اِس کے برعکس خُدا اپنے پیاروں کا بدلہ خُود لیتا ہے، اُنہیں سنبھالتا اور الزامات سے بری کرتا ہے، اُن کے ساتھ ہوئی بے انصافیوں اور غلطیوں کو سُدھارتا ہے، اُن کا انصاف کرتا اور اُن کی مشکلات میں سے اُنہیں نکالتا ہے۔

خُداوند یسوع دُعا کے حوالے سے لوقا 11 باب 5-12 آیات میں ایک اور مثال پیش کرتا ہے ۔ یہاں پر خُداوند یسوع اُس بے انصاف قاضی کی کہانی جیسی ہی ایک بات بیان کرتا ہے۔ اور اپنی اِس مثال میں یسوع کا پیغام یہ ہے کہ اگر کوئی شخص بے آرام ہو کر بھی اپنے کسی ضرورت مند دوست کی مدد کرتا ہے تو اُس سے کس قدر بڑھ کر خُدا ہماری ضروریات پوری کرتا ہے کیونکہ ہماری کوئی بھی درخواست ہمارے خُدا باپ کو بے آرام نہیں کرتی۔ ایک بار پھر یہاں پر یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ اِس بات کا بھی ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہم جو مرضی خُدا سے مانگ لیں اور جب ہم بار بار اُس سے مانگتے رہیں گے وہ ہمیں ضرور ہی وہ سب مہیاکرے گا۔ خُدا کا اپنے بچّوں کے ساتھ وعدہ ہے کہ وہ اُن کی ضروریات کو پورا کرے گا نہ کہ اُن کی ہر طرح کی خواہشات کو۔ اور وہ ہماری ضروریات کو ہم سب سے زیادہ بہتر طور پر جانتا ہے۔ اِس وعدے کی دہرائی ہمیں متی 7 باب 7-11 آیات اور لوقا 11باب13 آیت میں بھی ملتی ہے جہاں پر اچھی چیز یا اچھے تحفے کو رُوح القدس کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔

یہ دونوں حوالہ جات ہماری دُعا کرنے اور پھر مستقل مزاجی کے ساتھ دُعا کرنے کے بارے میں حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔ ایک ہی چیز یا بات کے لیے خُدا سے بار بار دُعا کرنے میں کچھ بھی بُرا نہیں۔ بس اِس بات کا خیال رکھنے کی ضرورت ہے کہ جو کچھ آپ خُدا سے مانگ رہے ہیں وہ خُدا کی پاک مرضی کے مطابق ہے یا نہیں (1 یوحنا 5باب 14- 15 آیات)۔ اُس وقت تک دُعا کرتے رہیں جب تک خُدا آپ کی اُس ضرورت یا درخواست کو پورا نہ کردے یا پھر جب تک وہ اُسے آپ کے دل و دماغ سے نکال نہ دے۔ بعض اوقات خُدا ہمیں صبر اور مستقل مزاجی ، ثابت قدمی کے بارے میں سکھانے کے لیے کئی ایک درخواستوں کے جواب دینے میں انتظار کرواتا ہے۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کچھ ایسی چیزوں یا باتوں کے لیے دُعا کر رہے ہوتے ہیں جو ہماری زندگیوں میں اُس خاص وقت پر نہیں دی جا سکتیں کیونکہ ابھی اُن کے دئیے جانے کا وقت نہیں ہوتا۔ بعض دفعہ ایسا بھی ہوتا ہے کہ ہم کچھ ایسی چیزوں کے لیے دُعا کرتے ہیں جو ہماری زندگیوں کے لیے خُدا کی پاک مرضی کے خلاف ہوتی ہیں اور اُس درخواست کے جواب میں خُدا ہمیں "نہیں" کہہ رہا ہوتا ہے۔ دُعا حقیقت میں ہماری طرف سے خُدا کے سامنے اپنی درخواست رکھنا ہی نہیں بلکہ یہ ایک ایسا وسیلہ بھی ہے جس کے ذریعے سے خُدا ہمارے دِلوں کے سامنے اپنے پاک مرضی رکھتا ہے۔ مانگتے رہیں، کھٹکھٹاتے رہیں، ڈھونڈتے رہیں جب تک خُدا آپ کی درخواست کو سُن کر اُسے قبول کرتے ہوئے آپ کو وہ سب عطا نہ کرے جو آپ مانگ رہے ہیں یا پھر جب تک خُدا آپ کو اِس بات پر قائل نہ کر لے کہ جو کچھ آپ مانگ رہے ہیں وہ آپکی زندگی کے لیے اُسکی پاک مرضی نہیں ہے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

کیا ایک ہی چیز کے لیے بار بار دُعا مانگنا قابلِ قبول ہے یا پھر ہمیں کسی چیز کے لیے صرف ایک بار دُعا مانگنی چاہیے ؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries