settings icon
share icon
سوال

کیا مثبت سوچ میں کوئی قوت ہے ؟

جواب


مثبت سوچ کی ایک تعریف کچھ یوں کی جاتی ہے کہ "ایک ایسا طریقہ کار جس میں سوچ کے اُن حصوں کی نشاندہی کرنے کی خاطر سوچنے کے عمل کا جائزہ لیا جاتا ہے جنہیں بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور پھر مناسب ہدایات کو استعمال کرتے ہوئے اُن سوچوں کو مثبت بنانا اوراِس انداز سے تبدیل کرنا ہوتا ہے جس سے سوچ کے ذریعے اہداف کا حصول ممکن بن سکے۔" یقیناً مثبت سوچنا غلط نہیں ہے ۔ لیکن " مثبت سوچ" کے ساتھ جڑے ہوئے اِس تاثر کو ماننے میں مسئلہ ہے کہ مثبت سوچ میں کسی طرح کی کوئی مافوق الفطرت قوت پائی جاتی ہے ۔ جھوٹے عقائد اور ملاوٹ شدہ علم ِ الہیات سے بھرے دور میں مثبت سوچ کی قوت زیادہ مشہور غلطیوں میں سے ایک کے طور پر ظاہر ہوئی ہے ۔ جھوٹے عقائد اس لحاظ سے ایک جیسے ہیں کہ یہ سچائی کے بہروپ میں انسانی خیالات ہی ہیں ۔ مثبت سوچ کی طاقت ایسا ہی ایک انسانی خیال ہے ۔

مثبت سوچ کی قو ت کے تصور کو ڈاکٹر نارمن ونسنٹ پیئل کی کتاب دا پاور آف پوزیٹو تھنکنگ ( 1952) کی طرف سے پذیرائی ملی تھی۔ پیئل کےمطابق لوگ مستقبل کے نتائج اور واقعات کو " سوچ" کر وجود میں لانے /تخلیق کرنےکے وسیلہ سے تبدیل کر سکتے ہیں ۔ مثبت سوچ خود اعتمادی اور خود پر بھروسے کو فروغ دیتی ہے ؛یہ قدرتی طور پر " کشش کے اصول " میں غلط عقیدے کی جانب رہنمائی کرتا ہے جیسا کہ پیئل نے لکھا ہے کہ "جب آپ بہترین کی توقع کرتے ہیں تو آپ ایک مقنا طیسی قوت خارج کرتے ہیں جو کشش کے اصول کے وسیلہ سے آپ کے لیے بہتر ین کو برپا کرنے کا رجحان رکھتی ہے "۔ یقیناً کسی شخص کے ذہن کےکسی ایسی " مقناطیسی قوت" کو خارج کرنے کے بارے میں کوئی بھی بائبلی تعلیم موجود نہیں ہے جو اپنے مدار میں اچھی باتوں کو کھینچ لاتی ہے ۔ ہاں البتہ اس طرح کے نظریے کے بارے میں بہت زیادہ غیر بائبلی باتیں ضرور موجود ہیں۔

ایمان اور اُمید کے ایک ورژن کو ترقی دینے کےلیے پیئل نے مثبت سوچ کی قوت میں ناقص مذہبی تصورات اور نسبتیت پر مبنی نفسیاتی نظریات کا استعمال کیا تھا ۔ اُس کا تصور " ذاتی مدد" کی تحریک کا حصہ ہے جس کے وسیلہ سے کوئی شخص انسانی کوشش، مناسب ذہنی تصاویر اور قوت ِ ارادی کے ساتھ اپنی حقیقت خود تشکیل دینے کی کوشش کرتا ہے ۔ لیکن اصل حقیقت سچائی ہے اور سچائی بائبل میں پائی جاتی ہے ۔ لوگ تخیلاتی کاوشوں کے وسیلے یا سوچ کرکچھ وجود میں لانے کے وسیلہ سے اپنی حقیقت کو خود تشکیل نہیں دے سکتے ہیں ۔ پیئل کا نظریہ ناقص ہے کیونکہ اُس نے اِس کی بنیاد سچائی پر نہیں رکھی۔

مثبت سوچ کی قوت کے حامیوں کا دعویٰ ہے کہ اُن کی تحقیق اس نظریے کی درستگی کی حمایت کرتی ہے۔ تاہم اعداد و شما ر کو بڑے پیمانے پر بحث کا سامنا ہے ۔ کچھ تحقیقات سے پتہ چلتا ہے کہ مثبت نقطہ نظر اور کارکردگی کے درمیان ایک مثبت باہمی تعلق ہے لیکن یہ نتائج کے حامل مثبت خیالات سے بہت زیادہ مختلف ہے ۔ تحقیق سے ظاہر ہوتاہے کہ جو لوگ مثبت رویہ رکھتے ہیں وہ اُن لوگوں کے مقابلے میں زیادہ خود اعتمادی اور بہتر تجربات کا سامنا کرتے ہیں جو مایوس کن نظریات رکھتے ہیں۔ دوسری طرف ، اس تصور کی حمایت کے لیے کوئی ٹھوس ثبوت موجود نہیں ہے کہ خیالات نتائج کو قابو کر سکتے ہیں۔ مستقبل کو بدلنے کے لیے مثبت سوچ میں کوئی فطری قوت نہیں پائی جاتی۔

ہر اچھی بخشش مثبت سوچ کی قوت سے نہیں بلکہ اوپر سے خدا کی طرف سے ہے ( یعقوب 1باب 17آیت)۔ سب سے بہتر ین نعمت ہماری زندگیوں میں بسنے والا رُوح القدس ہے ( لوقا 11باب 13آیت)۔ بائبل بیان کرتی ہے کہ انسان اپنی قوت سے "اچھا/نیک /راستباز" نہیں ہو سکتا ( یسعیاہ 64باب 6آیت)۔ ہمارے اندر موجود اچھائی صرف یسوع مسیح کی اُس راستبازی سے آتی ہے جو ہمارے حق میں شمار ہوتی ہے ( افسیوں 2باب 1-5 آیات؛ فلپیوں 3باب 9آیت)۔ جب رُوح القدس ہماری زندگی میں آتا ہے تو تقدیس کا عمل شروع کرتا ہے جس میں رُوح القدس کی تبدیل کرنے والی قوت ہمیں مزید مسیح کی مانند بناتی جاتی ہے۔

اگر ہم خود کو بہتر بنانا اور اپنے اندرمثبت تبدیلیاں لانا چاہتے ہیں تو ہمیں ایسی چیز کی ضرورت ہے جو مثبت سوچ سے بھی بڑھکر ہے۔ حقیقی رُوحانیت ہمیشہ مسیح کے ساتھ ہمارے تعلقات سے شروع ہوتی ہے اور تعلقات پر ہی ختم ہوگی ۔ یہ رُوح القدس ہے جو کسی شخص کی زندگی کو تبدیل کرنے کی کلید ہے نہ کہ ہمارے خیالات اور نہ ہی ہماری کوششیں۔ جب ہم مستعدی سے رُوح القدس کے تابع ہو جائیں گے تو وہ ہمیں اپنی مرضی کے مطابق نعمتیں عطا کرے گا۔ نفسیاتی اصطلاحات ، جعلی مذہبی کتابوں ، یا مثبت سوچ کی خود پیدا کردہ قوت سے مدد لینے کی بجائے ، ہمیں اُن چیزوں پر بھروسہ کرنا چاہیے جو خدا نے ہمیں پہلے ہی اپنے رُوح کے وسیلہ سے بخشی ہیں: " ہم میں مسیح کی عقل ہے " (1 کرنتھیوں 2باب 16آیت)۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

کیا مثبت سوچ میں کوئی قوت ہے ؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries