سوال
اِس سے کیا مُراد ہے کہ یسوع خُدا کا اکلوتا بیٹا ہے؟
جواب
اکلوتے بیٹے کی اصطلاح کا استعمال یوحنا 3 باب 16آیت میں ملتا ہے جہاں پر مرقوم ہے کہ " کیونکہ خُدا نے دُنیا سے ایسی محبت رکھی کہ اُس نے اپنا اِکلوتا بیٹا بخش دِیا تاکہ جو کوئی اُس پر اِیمان لائے ہلاک نہ ہو بلکہ ہمیشہ کی زِندگی پائے۔"اکلوتے بیٹے کی اصطلاح دراصل یونانی متن کے اندر لفظ مونوگینیس Monogenes ہے ۔ اِس لفظ کا انگریزی میں بہت دفعہ ترجمہ "اکلوتا"، "واحد" اور" اکلوتا بیٹا/اکلوتی اولاد " کیا گیا ہے۔
انگریزی کے مختلف تراجم میں اِس اصطلاح "اکلوتا بیٹا only begotten " کا یہاں پر جو استعمال کیا گیا ہے اِس کی وجہ سے اکثر کئی لوگوں کی طرف سے مسائل پیدا کئے جاتے ہیں۔ بہت سارے جھوٹے اُستاداکثر اِس اصطلاح پر پَل پڑتے ہیں اور اِس جھوٹی تعلیم کا پرچار کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ یسوع خُدا نہیں ہے، مثال کے طور پر یسوع اپنے جوہر کے لحاظ سے خُدا باپ کے برابر نہیں ہے ، اور یوں وہ پاک تثلیث کا دوسرااقنوم بھی نہیں ہے۔ وہ لفظ begotten بمعنی واحد یا اکلوتی اولاد کو دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ کیونکہ یسوع کو یہاں پر اولاد کہا گیا ہے اِس لیے وہ ایک مخلوق ہے اور ابدی ذات نہیں ہے۔ یہاں پر جس بات پر دھیان دینے کا خیال وہ بھول جاتے ہیں وہ یہ ہے کہ لفظ begotten دراصل ایک یونانی لفظ کا انگریزی ترجمہ ہے۔ پس اِس حوالے سے ہمیں یونانی کے اصل لفظ کا مطلب دیکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ انگریزی زبان کے اندر اِس لفظ کی ترجمہ ضیعف ہے۔
پس یونانی لفظ مونو گینیس کے کیا معنی ہیں؟ Greek-English Lexicon of the New Testament and Other Early Christian Literature (BAGD, 3rd Edition) کے مطابق مونوگینس کے دو بنیادی مطلب ہیں۔ اِس کے پہلے معنی ہیں کہ "کسی مخصوص رشتے یا تعلق میں اپنی قسم کا واحد /اکیلا ہونا۔"اِس کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے عبرانیوں 11 باب 17آیت کو دیکھا جا سکتا ہے جہاں پر اضحاق کو ابرہام کے اکلوتے کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ ابرہام کے اضحاق کے علاوہ بھی بیٹے تھے، لیکن اضحاق اُس کاوہ واحد اور اکلوتا بیٹا تھا جو اُسکی بیوی سارہ سے پیدا ہوا تھا اور وہ واحد بیٹا تھا جو وعدے کا فرزند تھا۔ اِس لیے اِس سیاق و سباق میں اضحاق کے لیے مونوگینیس کی اصطلاح کا استعمال اُس کی انفرادیت کی وجہ سے کیا گیا ہے۔
اِس اصطلاح کی دوسری تعریف یہ کی جاتی ہے کہ "اپنی نوعیت کا واحد ہونا، اپنی انفرادیت میں واحد، اکیلا یا اکلوتا ہونا۔" یہ وہ معنی ہے جس کا اطلاق یوحنا 3 باب 16 آیت پر ہوتا ہے (دیکھئے یوحنا 1 باب 14، 18آیات؛ 3 باب 18آیت؛ 1 یوحنا 4 باب 9آیت)۔ یوحنا کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ وہ اِس بات کو بیان کرے کہ یسوع خُدا کا بیٹا ہے (یوحنا 20 باب 31آیات) اور وہ اُس کو بیان کرنے کے لیے مونوگینیس جیسی یونانی اصطلاح کا استعمال کرتا ہے تاکہ وہ یسوع مسیح کی انفرادیت کو بیان کر سکے کہ وہ – الٰہی فطرت رکھنے والا خُدا کا بیٹا ہے – نہ کہ لے پالک بیٹوں یا بیٹیوں جیسا بیٹا (افسیوں 1 باب 5آیت)۔ یسوع ہی خُدا کا واحد" اکلوتا بیٹا" ہے۔
آخری بات یہ ہے کہ خُدا باپ اور یسوع مسیح کے لیے استعمال ہونے والی باپ اور بیٹے کی اصطلاحات دراصل انسانی زبان میں ایک تعلق کو بیان کرنے کے لیے استعمال کی گئی ہیں تاکہ ہم پاک تثلیث کے اندر دو اقنوم کے درمیان پائے جانے والے فرق کو بہتر طور پر سمجھ سکیں۔ اگر آپ انسانی نقطہ نظر سے باپ اور بیٹے کے درمیان پائے جانے والے تعلق کو سمجھ سکتے ہیں تو پھر آپ کسی حد تک پاک تثلیث کے اندر پہلے اور دوسرے اقنوم میں پائے جانے والے تعلق کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ اگر آپ اِس تعلق کی مشابہت کو بہت آگے لیکر جانے کی کوشش کرتے ہیں جیسا کہ مسیحیت کے اندر پائی جانے والی کچھ بدعات کرتی ہیں (جیسے کہ یہواہ کے گواہ) تو اُس صورت میں معاملہ خراب ہوتا ہے اور اِس مشابہت سے غلط معنی نکالے جاتے ہیں۔ کیونکہ وہ اکلوتے بیٹے/اکلوتی اولاد سے یہ معنی نکالتے ہیں کہ یسوع مسیح ابدی نہیں بلکہ وہ ایک مخلوق ہے جسے تخلیق کیا گیا تھا۔
English
اِس سے کیا مُراد ہے کہ یسوع خُدا کا اکلوتا بیٹا ہے؟