settings icon
share icon
سوال

رُوح القدس کی ظاہری موجودگی اور خدا کی ہمہ گیر موجود گی میں کیا فرق ہے ؟

جواب


خدا کا بیک وقت ہر جگہ حاضرو ناظر ہونا اُس کی صفت ہے۔ یہاں تک کہ جب ہم اُس کی موجودگی کا تجربہ نہیں بھی کرتے ہیں وہ ہمہ گیر/ہر جگہ حاضر و ناظر ہے ؛ چاہے ہم اُسے محسوس نہیں کرتےتو بھی وہ یہاں پر موجود ہے ۔ خُدا کی ظاہری موجودگی یقیناً اُس کی موجودگی کا واضح ظہور ہے- یعنی یہ حقیقت واضح اور ہمیں اپنی سچائی کا قائل کرنی والی ہے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے۔

خُدا کی ہمہ گیرموجودگی کا اطلا ق تثلیث کے ہر اقنوم : باپ (یسعیاہ 66باب 1آیت)، بیٹا (یوحنا 1باب 48آیت)اور رُوح القدس (139زبور 7-8آیات ) پرہوتا ہے۔ خدا ہر جگہ حاضر و ناظر ہے یہ حقیقت ہو سکتا ہے کہ ہمارے لیے کسی خاص تجربے کا باعث ہو یا نہ ہو ۔ تاہم خُدا کی ظاہری موجودگی ہمارے ساتھ اُس کے کھلے عام اور صریحاً برتاؤ کا نتیجہ ہے۔ یہی وہ حالت ہے جب ہم خدا کا تجربہ کرتے ہیں۔

بائبل قلمبند کرتی ہے کہ تثلیث کے ہر اقنوم نے خود کو بعض افراد کی زندگیوں میں واضح طور پر ظاہر کیا ہے۔ خُدا باپ خروج 3 باب میں جلتی ہوئی جھاڑی میں سے موسیٰ سے ہمکلام ہوا ۔ خُدا ہر وقت موسیٰ کے ساتھ تھا لیکن پھر" بیابان کی پرلی طرف " حورب پہاڑ کے نزدیک (خروج 3باب 1آیت) خُدا نے خود کو اُس پر ظاہر کرنے کا فیصلہ کیا۔ خدا بیٹے نے خود کو تجسم کے ذریعے ظاہر کیا جیسا کہ یوحنا 1باب 14آیت بیان کرتی ہے کہ "کلام مُجسّم ہُوا اور فضل اور سچّائی سے معمُور ہو کر ہمارے درمیان رہا اور ہم نے اُس کا اَیسا جلال دیکھا جیسا باپ کے اِکلَوتے کا جلال"۔ عیدِ پنتیکُست کے دن رُوح القدس بالائی منزل پر ایمانداروں پر ظاہر ہوا: "یکایک آسمان سے اَیسی آواز آئی جَیسے زور کی آندھی کا سنّاٹا ہوتا ہے اور اُس سے سارا گھر جہاں وہ بیٹھے تھے گُونج گیا۔ اور اُنہیں آگ کے شُعلہ کی سی پھٹتی ہُوئی زُبانیں دِکھائی دِیں اور اُن میں سے ہر ایک پر آ ٹھہرِیں۔ اور وہ سب رُوح القُدس سے بھر گئے اور غیر زُبانیں بولنے لگے جس طرح رُوح نے اُنہیں بولنے کی طاقت بخشی"۔ شاگردوں کی زندگیوں میں خُدا کی ظاہری موجودگی کا نتیجہ یہ نکلاکہ دنیا اُلٹ پُلٹ ہو گئی (دیکھیں اعمال 17باب 6آیت)۔

علم ِ الہیات کے لحاظ سے ہم سمجھتے ہیں کہ خدا ہر جگہ حاضر و ناظر ہے لیکن یہ حقیقت حواس کی مدد سے فوراً محسوس نہیں ہوتی ۔ یہ ایک حقیقت ہےلیکن ہو سکتا ہے کہ یہ حقیقت کرہ ارض پر لوگوں کی اُس بڑی تعداد کے لیے بامقصد نہ ہو جسے اُس کی موجودگی کا کوئی احساس نہیں ہے۔ وہ محسوس کرتے ہیں کہ خُدا قریب نہیں بلکہ دور ہے اور یہ احساس اُن کی ممکنہ حقیقت بن جاتا ہے۔

خدا کی ظاہری موجودگی کو ہم تجرباتی طور پر جانتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ رُوح القدس کی ظاہری موجودگی مرئی یا سمعی نہ ہو یا جسمانی طور پر محسوس کرنے کے قابل نہ ہولیکن اس کے باوجود اُس کی موجودگی کا تجربہ کیا جاتا ہے۔ اپنی مرضی کے اوقات میں رُوح القدس اپنی موجودگی کا اظہار کرتا ہے اور ہمارا الہیاتی علم تجرباتی شعور میں بدل جاتا ہے۔ عقائدی معلومات مشتاق شناسائی بن جاتی ہیں۔

71زبور میں داؤد اپنی مصیبت کے دوران اپنے محبت کرنے والے، مہربان اور راستباز خُدا سے التجا کرتا ہے۔ داؤد سمجھتا ہے کہ خدا اُس کے ساتھ ہےاور اسی وجہ سے وہ دعا کرتا ہے۔ دعا کے اختتام کے قریب داؤد بیان کرتا ہے کہ "تُو جس نے ہم کو بہت اور سخت تکلیفیں دِکھائی ہیں پِھر ہم کو زِندہ کرے گا اور زمین کے اسفل سے ہمیں پھر اُوپر لے آئے گا۔ تُو میری عظمت کو بڑھا اور پِھر کر مُجھے تسلّی دے"(20-21آیات)۔ داؤد کی زندگی میں کچھ وقت کے لیے خُدا کی موجودگی پوشیدہ تھی اور اُس وقت میں " بہت اور سخت تکلیفیں " تھی ؛ لیکن خدا کی ظاہری موجودگی کو جاننے کے لیے داؤد نے ایک بار پھر بھروسہ کیا اور یہ اُس کے لیے اطمینان کا وقت تھا۔

خدا نے سدرک، میسک اور عبدنجو کا ساتھ کبھی نہیں چھوڑا تھا۔ تاہم ایک وقت کے لیے ایسا لگتا کہ اُس وقت صرف نبوکد نضربادشاہ ہی کی حکمرانی ہے جو تینوں عبرانی مَردوں کو موت کے گھاٹ اُتارنے کی حد تک غصب ناک تھا۔ خدا کی ہمہ گیر موجود گی سے بے خبر اس بادشاہ نے تینوں مَردوں کو جلتی ہوئی بھٹی میں پھینک دیا۔ اور یہ وہ وقت تھا جب خُدا نے اپنی موجودگی کا اظہار کیا: "تب نبُوکدنضر بادشاہ سراسیمہ ہو کر جلد اُٹھا اور ارکانِ دَولت سے مخاطِب ہو کر کہنے لگا کیا ہم نے تین شخصوں کو بندھوا کر آگ میں نہیں ڈِلوایا؟ اُنہوں نے جواب دِیا کہ بادشاہ نے سچ فرمایا ہے۔ اُس نے کہا دیکھو مَیں چار شخص آگ میں کُھلے پِھرتے دیکھتا ہُوں اور اُن کو کچھ ضرر نہیں پہنچا اور چوتھے کی صورت اِلٰہ زادہ کی سی ہے"(دانی ایل 3باب 24-25آیات)۔ حتی ٰ کہ خُدا کی موجودگی کی حقیقت بُت پرست بادشاہ کے لیے بھی قابلِ شناخت بن گئی۔ یہ خُدا کی ظاہری موجودگی تھی۔

حقیقت میں ہم خدا کی موجودگی کو کبھی کھو نہیں سکتے لیکن ہم اُس کی موجودگی کے احساس سے محروم ہو سکتے ہیں۔ ایسا وقت کبھی بھی نہیں آتا جب خدا ہمارے ساتھ نہیں ہو تا لیکن زندگی میں ایسے اوقات آتے ہیں جب خدا ظاہر اًہمارے ساتھ نہیں ہوتا۔ بعض اوقات اُس کی موجودگی انسانی آنکھ یا انسانی رُوح پر عیاں یا واضح نہیں ہوتی۔ یہی ایک وجہ ہے کہ ہمیں کیوں " اِیمان پر " چلنے کےلیے بُلایا جاتا ہے " نہ کہ آنکھوں دیکھے پر۔ " (2کرنتھیوں 5باب 7 آیت)۔ خدا کی ہمہ گیر موجود گی ہماری آگاہی کے بغیر بھی ہوسکتی ہے ؛مگر خدا کی ظاہری موجودگی ہماری آگاہی کے بغیر نہیں ہو سکتی۔ خدا کی ظاہری موجودگی کا مجموعی نقطہ یہ ہے کہ ہمارا شعور اس کے بارے میں بیدار ہو جاتا ہے۔

ایمانداروں کے پاس رُوح القدس ہے جو ہمیشہ اُن کے ساتھ ساتھ رہتا ہے۔ بائبل رُوح القدس کے ایماندار کی زندگی میں بسے رہنے کی تعلیم دیتی ہے: "کیا تم نہیں جانتے کہ تُمہارا بدن رُوح القُدس کا مَقدِس ہے جو تم میں بسا ہُوا ہے اور تم کو خُدا کی طرف سے مِلا ہے؟ "(1کرنتھیوں 6باب 19آیت)۔ رُوح القدس ہم سے واپس نہیں لیا جائے گا۔یسوع کی دوسری آمد تک وہ ہمارا تسلی دینے والا، ہمارا مددگار، ہمارا پیراکلیٹ ہے (یوحنا 14باب 16 آیت)۔ اُس وقت یسوع خود ظاہری طور پر ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا ۔

لیکن رُوح کا ایماندار کی زندگی میں بسنارُوح کی ظاہری موجودگی کی مانند نہیں ہے۔ ہر ایماندار ایسے اوقات میں سے گزرتا ہے جب وہ نجات یافتہ "محسوس" نہیں کرتا یا ایسے دنوں کا سامنا کرتا ہے جب وہ اپنے اندر رُوح کی موجودگی سے بے خبر اپنی سرگرمیوں سے گزرتا ہے۔ لیکن پھر ایسے مواقع بھی آتے ہیں جب وہی بسنے والا رُوح ایماندار پر ایک خاص اور واضح انداز میں ظاہر ہوتا ہے۔ یہ کوئی گیت ہو سکتا ہے جو رُوح ذہن میں لاتا ہے؛ یہ کسی دوست کے ساتھ اتفاقی ملاقات ہو سکتی ہے؛ یہ دعا کے لیے ترغیب ، کلام کا مطالعہ کرنے کی خواہش یا اطمینان کا ناقابلِ بیان احساس ہو سکتا ہے-رُوح القدس اس اعتبار سے لامحدود ہے کہ وہ خود کو کیسے عیاں کرتا ہے۔ اصل نقطہ یہ ہے کہ وہ خود کو ظاہر کرتا ہے۔ وہ ہمارا تسلی دینے والا ہے۔ اُسی کے وسیلہ سے " ہم خُدا کو ابّا یعنی اَے باپ کہہ کر پُکارتے ہیں۔ رُوح خُود ہماری رُوح کے ساتھ مِل کر گواہی دیتا ہے کہ ہم خُدا کے فرزند ہیں"(رومیوں 8باب 15-16آیات)۔

حتیٰ کہ جب ہم محسوس کرتے ہی کہ وہ ہمارے ساتھ نہیں ہے تو کیا تب بھی ہمیں خُدا کی ہمہ گیر موجودگی پر ایمان رکھنا چاہیے ؟ بالکل، ہمیں ایمان رکھنا چاہیے ۔ خداجو جھوٹ نہیں بول سکتا ، فرماتا ہے کہ وہ ہم سے کبھی دست بردار نہ ہو گا اور ہمیں کبھی نہیں چھوڑے گا (عبرانیوں 13باب 5 آیت)۔ کیا ہمیں بھی خدا کی ظاہری موجودگی کی تلاش کرنی چاہیے ؟ یقیناً۔ ایسا نہیں ہے کہ ہم احساسات پر بھروسہ کرتے یا یہ کہ ہم کسی نشان کی تلاش کرتے ہیں لیکن ہم امید کرتے ہیں کہ تسلی دینے والا اپنی تسلی ہمیں دے - اور ہم خوشی سے تسلیم کرتے ہیں کہ ہمیں اس کی تسلی کی ضرورت ہے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

رُوح القدس کی ظاہری موجودگی اور خدا کی ہمہ گیر موجود گی میں کیا فرق ہے ؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries