settings icon
share icon
سوال

کیا انسان خُدا کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟

جواب


گوکہ صدیوں سے بے دین اور لا ادریت کے نظریے کو ماننے والے/ملحدین یہ دعویٰ کرتے آ رہے ہیں کہ انسان خدا کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے مگر حقیقت اس کے برعکس ہے اور انسان خُدا کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔ خُدا کو تسلیم کئے بغیر انسان فانی زندگی تو گزار سکتا ہے لیکن خُدا کی حقیقت کے بغیر زندہ نہیں رہ سکتا۔

خُدا نے خالق کی حیثیت سے انسانی زندگی کی ابتداکی ہے۔

ابھی یہ کہنا کہ انسان خُدا کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے دراصل یہ دعویٰ کرنا ہے کہ ایک گھڑی ساز کے بغیر بھی گھڑی وجود میں آ سکتی ہے یا ایک کہانی سُنانے والے کے بغیر بھی کہانی وجود میں آ سکتی ہے۔ ہم اپنے وجود کے لئے خُدا کے مقروض ہیں جس کی صورت و شبیہ پر ہم بنائے گئے (پیدایش 1باب 27آیت)۔ہم اِس بات کو تسلیم کریں یا نہ کریں لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے وجود کا انحصار خُدا پر ہے ۔

پرودگار کے طور پر خُدا زندگی کو مسلسل قائم رکھتا ہے (104زبور 10-32آیات)

وہ زندگی ہے (یوحنا 14باب 6آیت )اور ساری تخلیق یسوع کی قدرت سے باہمی طور پر قائم ہے (کلسیوں1باب 17)۔ حتیٰ کہ وہ لوگ جو یسوع کو ردّ کرتے ہیں وہ بھی اُس کے رحم و کرم پر ہیں۔ "تاکہ تم اپنے باپ کے جو آسمان پر ہے بیٹے ٹھہرو کیونکہ وہ اپنے سورج کو بدوں اور نیکوں دونوں پر چمکاتا ہے اور راست بازوں اور ناراستوں دونوں پر مینہ برساتا ہے" (متی 5باب 45آیت )۔ یہ خیال کرنا کہ انسان خُدا کے بغیر رہ سکتا ہے یہ فرض کرنے کے مترادف ہو گا کہ سورج مکھی پھول روشنی کے بغیر یا گلاب کا پھول پانی کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے۔

نجات دہندہ کے طور پر خُدا اُن لوگوں کو ابدی زندگی بخشتا ہے جو اُس پر ایمان لاتے ہیں۔

مسیح یسوع میں زندگی ہے جو آدمیوں کے لئے نور ہے (یوحنا1باب 4آیت )۔ یسوع اِس لئے دنیا میں آیا ہے کہ ہم زندگی پائیں "اور کثرت سے پائیں" (یوحنا 10 باب

10آیت )۔ جتنے لوگ اُس پر ایمان لاتے ہیں اُن سب کے ساتھ ابدی زندگی کا وعدہ کیا گیا ہے (یوحنا3باب 15- 16آیات)۔ اگر انسان واقعی زندہ رہنا چاہتا ہے تو اُس کےلیےیسوع کو جاننا بہت ضروری ہے (یوحنا 17باب 3)۔

خُدا کے بغیر انسان صرف جسمانی زندگی بسر کر سکتا ہے۔

خُدا نے آدم اور حوا کو خبردار کیا کہ جس دن اُنہوں نے خُدا کو چھوڑا وہ "مر" جائیں گے (پیدایش 2باب 17آیت )۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ انہوں نے نافرمانی کی لیکن وہ اُس دن جسمانی طور پر نہیں مرے بلکہ وہ رُوحانی طور پر مر گئے تھے۔ اُن کے اندر سے رُوحانی زندگی ، خُدا کے ساتھ رفاقت، اُس کے ساتھ رفاقت کی آزادی ا ور اُن کی رُوحوں کی معصومیت اور پاکیزگی سب کچھ ختم ہو گئی تھیں۔

آدم جسے خُدا کی رفاقت میں رہنے کے لئے تخلیق کیا گیا تھاصرف جسمانی زندگی گزارنے کی لعنت کا شکار ہوا۔ جس خاک کو خُدا نے جلال دینے کا ارادہ کیا تھا اب وہ خاک دوبارہ خاک میں مل گئی تھی۔ خُدا کے بغیر آج بھی انسان آدم کی طرح محض زمینی زندگی جیتا ہے ۔ ممکن ہے کہ ایسا شخص خوش دکھائی دےکیونکہ وہ اِس زندگی میں خوش وخرم رہ کر لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ لیکن یہ لطف اندوزی اور خوشیاں خُدا کی رفاقت کے بغیر مکمل طور پر حاصل نہیں ہو سکتیں ۔

بعض لوگ جو خُدا کو ردّ کرتے ہیں وہ ایمان سے منحرف ہو کر عیش و عشرت کی زندگی گزارتے ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ اُن کی جسمانی تفریحات کے پیش ِ نظر اُن کی زندگی فکروں سے آزاد اور بڑی مطمئن ہے۔ مگر بائبل بیان کرتی ہے کہ گناہ آلودہ زندگی کا لطف چند روزہ ہے (عبرانیوں11باب 25)۔ مسئلہ یہ ہے کہ ایسی خوشی مستقل نہیں ہوتی کیونکہ اِس دُنیا کی زندگی بہت مختصر اور تھوڑی ہے (90زبور 3-12آیت)۔ تمثیل میں موجود مُسرف بیٹے کی طرح لذت پسند شخص کو جلد ہی معلوم ہو جاتا ہے کہ دُنیاوی لطف غیر مستحکم ہے (لوقا 15باب 13- 15آیات)۔

تاہم خُدا کو ردّ کرنے والا ہر شخص زندگی میں محض عیش و عشرت کا متلاشی نہیں ہوتا ۔ بہت سے ایسے غیر نجات یافتہ لوگ بھی ہیں جو منظم ،سنجیدہ ، خوش اور بھرپور زندگی گزارتے ہیں۔ بائبل کچھ خاص اخلاقی اصول پیش کرتی ہے جو دنیا میں موجود ہر شخص کو فائدہ پہنچاسکتے ہیں ان میں وفاداری، ایمانداری اور ضبط ِ نفس وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ایک بار پھر کہنا پڑتا ہے کہ خُدا کے بغیر انسان کے پاس صرف یہی دُنیا ہے ۔ اِس دُنیا میں پُر آسائش اور آرام دہ زندگی گزارنا ا ِس بات کی ضمانت نہیں ہے کہ ہم آئندہ زندگی کے لئے بھی تیار ہیں۔ لوقا 12باب 16-21آیات میں درج اُس ا میر شخص کی زندگی پر غور کریں جس کی بڑی فصل ہوئی تھی اور اس کے ساتھ متی19باب 16-23آیات میں موجود امیر ( بڑے اخلاقی )شخص کی زندگی پربھی غور کریں۔

خُدا کے بغیر انسان اپنی فانی زندگی میں بھی ادھورا ہے۔

انسان اپنےساتھی انسان کے ساتھ مطمئن نہیں کیونکہ وہ بذات خود مطمئن نہیں ۔ انسان اپنے آپ میں بے قرار ہے کیونکہ وہ خُدا کی رفاقت میں نہیں ۔ خوشی کی خاطر خوشی کی تلاش کرنا اِس بات کی علامت ہے کہ انسان اندرونی شکست و ریخت کا شکار ہے۔ تاریخ اِس بات کی گواہ ہے کہ خوشی کے متلاشی لوگوں کو بار بار اِس حقیقت کا سامنا کرنا پڑا ہے کہ زندگی کی عارضی خوشی گہری مایوسی کا باعث بنتی ہے ۔ "کچھ تو غلط ہے" کے پریشان کن احساس کو ختم کرنا بہت زیادہ مشکل ہے ۔ سلیمان بادشاہ نے خود کو اِس دُنیا کی ہر خوشی سے لطف اندوز کرنے کی کوشش کی اور اِس کوشش کے نتیجے میں حاصل ہونے والے علم کو اُس نے واعظ کی کتاب میں قلمبند کیا ہے۔

سلیمان نے جانا کہ علم بذات خود لاحاصل ہے اور دُکھ کی فراوانی کا باعث بنتا ہے (واعظ 1باب 12-18آیات)۔ اُسے معلوم ہوا کہ خوشی اور دولت بطلان (واعظ 2باب 1-11آیات )، مادہ پرستی بیوقوفی (واعظ 2باب 12-23آیات) اور دولت عارضی ہے (6باب )۔ سلیمان نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ زندگی خُدا کی نعمت ہے(3باب 12-13آیات) اور زندگی گزارنے کا بہتر ترین طریقہ خدا کا خوف ماننا ہے "اب سب کچھ سُنایا گیا۔ حاصل کلام یہ ہے ۔ خُدا سے ڈر اور اُس کے حکموں کو مان کہ انسان کا فرضِ کُلی یہی ہے۔ کیونکہ خُدا ہر ایک فعل کو ہر ایک پوشیدہ چیز کے ساتھ خواہ بھلی ہو خواہ بُری عدالت میں لائے گا" (واعظ 12باب 13-14آیات)۔

دوسرے الفاظ میں کہیں تو ابدی زندگی زمینی زندگی سے زیادہ اہم ہے۔ یسوع اس نکتے پر اِن الفاظ میں زور دیتا ہے "آدمی صرف روٹی سے ہی جیتا نہیں رہے گا بلکہ ہر اُس بات سے جو خُد اکے منہ سے نکلتی ہے" (متی 4باب 4آیت )۔ جسمانی روٹی کی بجائے یہ خُدا کا کلام (روحانی روٹی) ہے جو ہمیں زندہ رکھتا ہے۔ اپنی تمام مصیبتوں کا علاج اپنی ذات میں تلاش کرنا ہمارے لیے بے سُود ہے۔ انسان زندگی اور اطمینان صرف اُس وقت پا سکتا ہے جب وہ خُدا کو تسلیم کرتا ہے۔

خُدا کے بغیر انسان کی منزل جہنم ہے۔

خُدا کے بغیر انسان روحانی لحاظ سے مُردہ ہے؛جب اُس کی جسمانی زندگی کا اختتام ہوتا ہے تو وہ ابدی طور پر خدا سے جُدا ہو جاتا ہے۔ امیر شخص اور غریب لعزر کے بارے میں یسوع کی تمثیل میں دیکھا جائے تو امیر شخص خُدا کے بغیر خوشگوار زندگی گزارتا ہے جبکہ لعزر اپنی دُکھ بھری زندگی کے باوجود خُدا سے واقف ہے۔ لیکن جب وہ مر تے ہیں تو اُس وقت اُن دونوں کو زمینی زندگی میں کیے گے فیصلوں کی اہمیت کا حقیقی احساس ہوتا ہے ۔ امیر شخص کو اس بات کا احساس ہونے میں بہت دیر ہو چکی تھی کہ دولت کے حصول کے مقابلے میں ہمیشہ کی زندگی زیادہ اہم ہے۔ اِسی طرح لعزر کو فردوس میں آرام کی جگہ میسر ہوتی ہے ۔ دونوں اشخاص کے لئے اُن کی رُوحوں کے ابدی مستقبل کے مقابلے میں اُن کی مختصر زمینی زندگی کی کچھ اہمیت نہیں رہی ۔

انسان خدا کی ایک منفرد اور بے مثال تخلیق ہے۔ خُدا نے ہمارے دلوں میں ابدیت کا احساس قائم کیا ہوا ہے (واعظ 3باب 11آیت )۔وقت کی قید سے آزاد اور لازوال منزل کا شعور صرف خدا کی ذات میں ہی اپنی تکمیل پا سکتا ہے ۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

کیا انسان خُدا کے بغیر زندہ رہ سکتا ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries