settings icon
share icon
سوال

بائبل میں مذکور ساؤل کون تھا؟

جواب


ساؤل نے بہت اچھی شروعات کی جو اُس کی طرف سے اسرائیل قوم پر ایک شاندار اور خُدا کے نام کو جلال دینے والی حکمرانی ہو سکتی تھی ، لیکن بعد میں اُس کے نافرمانی کے کچھ اقدامات نے اُسے پٹڑی سے اُتار دیا ۔ شروع میں خُدا کے اِس قدر زیادہ قریب شخص خُدا کی رفاقت سے باہر اور بے اختیار کیسے ہو سکتا ہے؟اِس بات کو سمجھنے کے لیے کہ ساؤل کی زندگی میں ساری چیزیں اِس قدر گڈ مڈ کیوں ہو گئیں، ہمیں اُس شخص کی اپنی ذات کے بارے میں کچھ جاننے کی ضرورت ہے۔ ساؤل بادشاہ کون تھا اور ہم اُس کی زندگی سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟

"ساؤل" نام کا عبرانی تلفظ "شاؤل"(شاہ- اوول) ہے جس کے معنی ہیں "مانگا ہوا"۔ ساؤل بنیمین کے قبیلے سے تعلق رکھنے والے ایک شخص قیس کا بیٹا تھا۔ ساؤل ایک امیر گھرانے سے تعلق رکھتا تھا (1 سموئیل 9باب1 آیت)۔ وہ بہت زیادہ خوبصورت اور قد آور شخص تھا۔ کلامِ مُقدس میں لکھا ہے کہ "بنی اِسرائیل کے درمِیان اُس سے خُوب صُورت کوئی شخص نہ تھا ۔ وہ اَیسا قدآور تھا کہ لوگ اُس کے کندھے تک آتے تھے" (1 سموئیل 9باب2 آیت)۔ وہ اسرائیل کی بکھری ہوئی قوم کی قیادت کرنے کے لیے خُدا کا چُنا ہوا ذریعہ تھا۔ اُس وقت قوم کا خُدا کے علاوہ زمین پر کوئی مرکزی رہنما نہیں تھا اور اُن کی کوئی باضابطہ حکومت بھی نہیں تھی۔ اُن کی مصیبت کے دوران کئی ایک رہنما پیدا ہوتے رہے تھے لیکن وہ پورے بارہ قبائل کی طاقت کو کبھی بھی ایک قوم کے طور پر مستحکم نہیں کر پائے تھے۔ ساؤل کے دورِ حکومت سے کئی سال پہلے سموئیل نبی اسرائیل کا رہنما تھا لیکن وہ اُن کا بادشاہ نہیں تھا۔ درحقیقت اسرائیل پر اُن قاضیوں نے بہت ڈھیلے ڈھالے انداز سے حکمرانی کی تھی جو اُن کے قبائلی اور علاقائی جھگڑوں کو نپٹاتے تھے (1 سموئیل 8 باب)۔ تاہم وہ جنگی حالات کے اندر قوم کی قیادت کرنے کے لیے پوری طرح سے لیس نہیں تھے۔ یہ کہنا مبالغہ آرائی نہیں ہوگی کہ سموئیل اور ساؤل نے ایک بہت ہی پُر آشوب دور میں زندگی گزاری تھی۔ فلستی اسرائیل کے شدید ترین دشمن تھے اور دونوں کے درمیان کافی دفعہ باقاعدہ طور پر جنگ چھڑ چکی تھی (1 سموئیل 4باب)۔ جنگ کے منڈلاتے ہوئے مسلسل خطرے اور آس پاس کی قوموں جیسا بننے کی خواہش کی وجہ سے لوگوں ے سموئیل پر دباؤ ڈالا کہ وہ اُن پر حکومت کرنے کے لیے ایک بادشاہ مقرر کرے (1 سموئیل 8باب5 آیت)۔

اگرچہ سموئیل بذاتِ خود لوگوں کی طرف سے بادشاہ کی درخواست پر ناخوش تھا لیکن خُدا نے اُسے ایسا کرنے کا حکم دیا۔ لوگوں نے خُدا کو بطورِ بادشاہ رَد کیا تھا اور اُنہوں نے خُدا کے ہوتے ہوئے بھی دوسرے دیوتاؤں کی پرستش کی تھی (1 سموئیل 8باب6-8 آیات)۔ خُدا نے سموئیل سے کہا کہ وہ لوگوں کی درخواست کے مطابق ایک بادشاہ کو مسح کرے اور اُسے مزید کہا کہ "اُن کو خُوب جتا دے اور اُن کو بتا بھی دے کہ جو بادشاہ اُن پر سلطنت کرے گا اُس کا طرِیقہ کَیسا ہو گا" (1 سموئیل 8باب9 آیت)۔ اِس طرح سموئیل کو یہ ذمہ داری مل گئی کہ وہ لوگوں میں سے ایک بادشاہ مسح کرے ۔ ساؤل کو تمام لوگوں کے سامنے قرعہ کے ذریعے سے بادشاہ منتخب کرنے (1 سموئیل 10باب17-24 آیات) سے پہلے اسرائیل کے تمام قبائل کا بادشاہ بننے کے لیے خفیہ طو ر پر مسح کیا گیا تھا (1 سموئیل 10باب1 آیت)۔

اسرائیل پر ساؤل کا دورِ حکومت 1050 قبل از مسیح کے آس پاس پُر امن طو پر شروع ہوا، لیکن اُس کا امن مسلسل طور پر قائم نہ رہ سکا۔ ساؤل کی زندگی کے سب سے مشہور ترین واقعات میں سے ایک ایلہ کی وادی میں فلستیوں کے خلاف صف آرائی تھی۔ یہاں پر جاتی جولیت نامی ایک دیو قامت فلستی نے اسرائیلیوں کو 40 دِن تک مسلسل للکارا، جب تک کہ داؤد نامی ایک چرواہے نے اُس کا سر قلم نہ کر دیا (1 سموئیل 17باب)۔ بے یقینی اور خوف کے اِس واقعے کے علاوہ ساؤل ایک قابل فوجی رہنما تھا۔ وہ اِس قدر اچھا تھا کہ یبیس جلعاد کے مقام پر اُس کی فتح کی بدولت اُس کی حکمرانی کی بنیاد رکھی گئی ۔ اور پھر اُسے جلجال میں باقاعدہ طور پر بادشاہ بنایا گیا (1 سموئیل 11باب1-15 آیات)۔ اُس کی مقبولیت عروج پر پہنچ چکی تھی اور اُس نے کئی ایک اور فوجی فتوحات کے ذریعے سے قوم کی قیادت کی تھی۔ تاہم ساؤل کی طرف سے انتہائی سنگین غلطیوں کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا جس کا آغاز ایک ایسی قربانی گزارنے سے ہوا جس کا وہ مجاز نہیں تھا (1 سموئیل 13باب9-14 آیات)، اور اِس سے ساؤل کی بادشاہت کا زوال شروع ہو گیا۔ ساؤل کا پستی کی طرف آنا مسلسل طور پر جاری رہا کیونکہ وہ عمالیقیوں کو اُن کے سارے مال و مویشیوں کے ساتھ مکمل طور پر ختم کرنے میں ناکام رہا تھا (1 سموئیل 15باب3 آیت)۔ اُس نے خُدا کی طرف سے ملنے والے براہِ راست حکم کو نظر انداز کرتے ہوئے کچھ اچھے اور پسندیدہ مال مویشیوں کو اور اُن کے بادشاہ اجاج کو زندہ رکھنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اُس نے سموئیل کے سامنے اور اصل میں خُدا کے سامنے جھوٹ بولتے ہوئے اپنی اُس خطا کی پردہ پوشی کرنے کی کوشش کی (1 سموئیل 15باب)۔ یہ حکم عدولی ایک طرح سے آخری تنکا تھا جس کے ٹوٹ جانے کے بعد خُدا کی رُوح ساؤل سے جُدا ہو گئی (1 سموئیل 16باب14 آیت)۔ خُدا اور ساؤل کے درمیان جُدائی بلاشبہ کلام میں سب سے زیادہ افسوسناک واقعات میں سے ایک ہے۔

اگرچہ ساؤل کو اُس کی بقیہ زندگی کے دوران بادشاہ کی حیثیت سے حکمرانی کرنے کی اجازت دی گئی ، لیکن ایک بُری رُوح اُسے مسلسل طور پر ستانے لگی جس کی وجہ سے وہ سخت اذیت اور ایک طرح سے پاگل پن جیسی حالت پیدا کر دیتی تھی (1 سموئیل 16باب14-23 آیات)۔ ساؤل کی زندگی کے آخری سال بہت زیادہ افسوسناک تھے کیونکہ اُن کے دوران اُس نےجنونی افسردگی کے گہرے ادوار کا سامنا کیا۔ تاہم محل میں لایا گیا داؤد نامی ایک نوجوان بربط بجا کر اُس پریشان حال بادشاہ کو کچھ ذہنی سکون دیتا تھا جس کی وجہ سے عارضی طو پر بادشاہ کو راحت مل جاتی تھی اور اُس کا ذہنی توازن بحال ہو جاتا تھا۔ ساؤل نے داؤد کو ایک طرح سے اپنے خاندان کے فرد کے طور پر قبول کیا، لیکن سب کچھ اُس وقت تبدیل ہو گیا جب داؤد بذاتِ خود ایک بہت ہی عمدہ اور جنگجو سپاہی بن گیا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس دور کا ایک بہت ہی مشہور گانا یہ تھا کہ "ساؤُؔل نے تو ہزاروں کو پر داؤُؔد نے لاکھوں کو مارا" (1 سموئیل 18باب7 آیت)۔ جب ساؤل کو اِس بات کا احساس ہوا کہ خُدا داؤد کے ساتھ تھا تو پھر اُس نے داؤد کو قتل کرنے کا ہر ایک موقع ڈھونڈا۔ داؤد اپنی جان پر کئے جانے والے بے شمار حملوں سے بادشاہ کے بیٹے یونتن اور اُس کی بیٹی میکل کی مدد سے بار بار بچنے میں کامیاب رہا۔

ساؤل کی زندگی کے آخری ایام کے دوران اُس کی طرف سے قوم کی خدمت اور اُس کی اپنی زندگی میں بہت ساری چیزوں کی کمی آ گئی تھی ۔ اُس نے اپنی سابقہ فتوحات کی طرز پر کام کرتے ہوئے ملک کو مستحکم کرنے کی بجائے اپنے سارے وقت، توانائی اور مال و دولت کو داؤد کو قتل کرنے کی کوشش میں خرچ کرنا شروع کر دیا تھا۔ اِس وجہ سے فلستیوں نے اسرائیلیوں پر ایک بہت بڑی فتح کی راہ کو ہموار ہوتے ہوئے دیکھا۔ سموئیل کی وفات کے بعد فلستی فوج ایک بار پھر اسرائیل کے خلاف جمع ہو گئی۔ ساؤل بہت زیادہ خوفزدہ ہو گیا، اُس نے خُدا کی مرضی کو جاننے کی کوشش کی، لیکن یوریم یا انبیاء زادوں کے ذریعے سے اُسے کوئی بھی جواب نہ ملا۔ اگرچہ اُس نے اپنے ملک سے افسوں گروں اور جنات کے یاروں کو نکال باہر کیا تھا، لیکن اُس وقت ساؤل نے بھیس بدل کر جنات کی یار ایک عورت کے ذریعے سے سموئیل کی رُوح سے رابطہ کرنے کی کوشش کی۔ ایسا لگتا ہے کہ یہاں پر خُدا نے مداخلت کی اور اُس پر سموئیل کو ظاہر کر دیا۔ سموئیل نے ساؤل کو اپنی وہ پیشین گوئی یاد دلائی جس میں اُس نے کہا تھا کہ بادشاہت اُس سے چھن چکی ہے۔ اُس نے ساؤل کو مزید بتایا کہ فلستی اسرائیل کے خلاف جنگ میں فتح یاب ہونگے اور ساؤل او ر اُس کے بیٹے مارے جائیں گے (1 سموئیل 28باب)۔ فلستیوں نے واقعی ہی اسرائیل کے خلاف جنگ میں فتح پائی اور ساؤل کے بیٹے بشمول یونتن اُس جنگ میں مارے گئے۔ ساؤل بہت بُری طرح زخمی ہو گیا تھا اِس لیے اُس نے اپنے سلاح بردار سے کہا کہ وہ اُسے قتل کر دے تاکہ فلستی اُسے پکڑ کر تشدد اور بُرا سلو ک نہ کریں۔ ساؤل کے سلاح بردار نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا تو ساؤل خود اپنی ہی تلوار پر گر پڑا اور اِس کے بعد اُس کے سلاح بردار نے بھی ایسا ہی کیا اور وہ مر گئے۔

ساؤل بادشاہ کی زندگی سے ہم تین سبق سیکھ سکتے ہیں۔ اوّل یہ کہ خُدا کی اطاعت کریں اور حتی الامکان اُس کی مرضی کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ اپنی سلطنت کے آغاز سے ہی ساؤل کو موقع ملا کہ وہ ایک ایسا معیار بن جائے جس کے ذریعے سے مستقبل کے تمام بادشاہوں کا قد کاٹھ ماپا جا سکے۔ اُسے صرف یہ کرنا تھا کہ اپنے دِل سے خُدا کی تلاش کرتا، خُدا کے احکام کی تعمیل کرتا اور اپنی مرضی کو خُدا کی مرضی سے ہم آہنگ کرتا اوراِس طرح سے حکمرانی کرتا جس سے خُدا کے نام کو جلال ملتا۔ تاہم بہت سے دوسرے لوگوں کی طرح ساؤل نے بھی ایک مختلف راستہ اختیار کیا اور بھٹک کر خُدا سے دور چلا گیا۔ ہمیں اُس واقعے میں اُس کی نافرمانی کی بہترین مثال ملتی ہے جس میں خُدا نے اُسے حکم دیا کہ وہ عمالیقیوں کو مکمل طور پر ختم کر دے لیکن ساؤل نے بہت سارے مال اسباب کو اپنے لیے بچائے رکھا۔ ہامان ہمداتا جس نے بعد میں تمام یہودیوں کوقتل کرنے کی کوشش کی اِسی اجاج بادشاہ کی نسل سے تھا (دیکھیں آستر کی کتاب) جسے ساؤل نے زندہ چھوڑ دیا تھا۔ ساؤل نے اِس واقعے کے بار ےمیں سموئیل سے جھوٹ بول کر اپنی پریشانی کو مزید بڑھا لیا۔ اُس نے کہا کہ سپاہیوں نے بہترین جانوروں کو خُدا کی قربانی کے لیے بچا لیا تھا (1 سموئیل 15باب)۔ اِس عمل کے علاوہ اُس کی حکومت کے دوران دوسرے بہت سارے لوگوں نے اِس حقیقت پر زور دیا کہ اُس پر خُدا کی مرضی کا آلہ کار ہونے کے لیے بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔

دوسرا سبق جو ہم اِس سے سیکھتے ہیں یہ ہے کہ ہمیں جو طاقت دی گئی ہے ہم اُس کا غلط استعمال نہ کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ ساؤل بادشاہ نے اپنے آپ کو دی گئی طاقت اور اختیار کا غلط استعمال کیا تھا۔ جس وقت لوگ ہماری خدمت اور عزت کر رہے ہوتے ہیں تو تکبر ہمارے دِلوں میں گھس سکتا ہے۔ اُس وقت لوگوں کی طرف سے کسی بڑے "ستارے" جیسا سلوک کئے جانے کی وجہ سے ہمیں شاید اِس بات کا یقین ہو جاتا ہے کہ ہم واقعی ہی خاص ہیں اور ہر طرح کی تعریف کے لائق ہیں۔ جب ایسا ہوتا ہے تو ہم بھول جاتے ہیں کہ خُدا ہی کی ذات دراصل ہر ایک چیز پر مکمل اختیار رکھتی ہے اور وہ اکیلا ہی حقیقی حکمران ہے۔ خُدا نے ساؤل کا انتخاب اِس لیے کیا کہ وہ بہت حلیم اور عاجز تھا۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُس کے تباہ کن تکبر اور خود غرضی نے اُس کی حلیمی کی جگہ لے لی جس کی وہ سے اُس کی بادشاہت تباہ ہو گئی۔

ہمارے لیے ایک اور سبق یہ ہے کہ ہمیں اُس طرح سے قیادت کرنی چاہیے جس طرح خُدا چاہتا ہے کہ ہم قیادت کریں۔ پہلا پطرس 5باب2-10 آیات ایسے لوگوں کی قیادت کرنے کے لیے حتمی رہنما اصول فراہم کرتی ہیں جن کی رہنمائی کرنے کی ذمہ داری خُدا نے ہمیں دے رکھی ہے :"خُدا کے اُس گلّہ کی گلّہ بانی کرو جو تم میں ہے ۔ لاچاری سے نگہبانی نہ کرو بلکہ خُدا کی مرضی کے مُوافق خُوشی سے اور ناجائِز نفع کے لئے نہیں بلکہ دِلی شَوق سے۔اور جو لوگ تمہارے سپُرد ہیں اُن پر حکومت نہ جتاؤ بلکہ گلّہ کے لئے نمُونہ بنو۔اور جب سردار گلّہ بان ظاہِر ہو گا تو تم کو جلال کا اَیسا سِہرا مِلے گا جو مُرجھانے کا نہیں۔اَے جوانو! تم بھی بزُرگوں کے تابع رہو بلکہ سب کے سب ایک دُوسرے کی خدمت کے لئے فروتنی سے کمربستہ رہو اِس لئے کہ خُدا مغرُوروں کا مُقابلہ کرتا ہے مگر فروتنوں کو تَوفِیق بخشتا ہے۔پس خُدا کے قَوی ہاتھ کے نیچے فروتنی سے رہو تاکہ وہ تمہیں وقت پر سر بُلند کرے۔اور اپنی ساری فِکر اُسی پر ڈال دو کیونکہ اُس کو تمہاری فِکرہے۔تم ہوشیار اور بیدار رہو ۔ تمہارا مُخالِف اِبلیس گرجنے والے شیرِ بَبر کی طرح ڈُھونڈتا پِھرتا ہے کہ کس کو پھاڑ کھائے۔تم اِیمان میں مضبُوط ہو کر اور یہ جان کر اُس کا مُقابلہ کرو کہ تمہارے بھائی جو دُنیا میں ہیں اَیسے ہی دُکھ اُٹھا رہے ہیں۔اب خُدا جو ہر طرح کے فضل کا چشمہ ہے ۔ جِس نے تم کو مسیح میں اپنے ابدی جلال کے لئے بُلایا تمہارے تھوڑی مُدّت تک دُکھ اُٹھانے کے بعد آپ ہی تمہیں کامِل اور قائِم اور مضبُوط کرے گا۔"اگر ساؤل اِن اصولوں پر عمل پیرا ہوتا تو اُس کی زندگی کس قدر مختلف ہوتی۔ ساؤل کے پاس دانشمندانہ صلاح کی کوئی کمی نہیں تھی۔ خُدا اور اُس کی طرف سے پُر حکمت صلاح کو نظر انداز کر کے ساؤل نے اپنے لوگوں کی رُوحانی صحت کو مزید خراب ہونے دیا اور اُنہیں خُدا سے دور کر دیا۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

بائبل میں مذکور ساؤل کون تھا؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries