settings icon
share icon
سوال

بائبل میں مذکور پولس رسول کون تھا؟

جواب


پولس رسول کی زندگی سے ہم بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔ پولس رسول کو خدا کی بادشاہی کے لیےمعمول سے بڑھ کر انتہائی غیر معمولی کام کرنے کا موقع دیا گیا۔ پولس رسول کی کہانی یسوع مسیح میں نجات کی کہانی اور اس بات کی گواہی ہے کہ کوئی بھی انسان خُداوند کے نجات بخش فضل سے باہر نہیں ہے۔ تاہم اُس کی ذات کا مکمل تجزیہ کرنے کے لیےہمیں اُس کی شخصیت کے تاریک پہلو کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ فضل کا رسول بننے سے پہلے وہ کس با ت کی علامت تھا ۔ پولس رسول کی ابتدائی زندگی مذہبی جوش، وحشیانہ تشدداور ابتدائی کلیسیا پر مسلسل ظلم و ستم سے بھری تھی۔ خوش قسمتی سے پولس رسول کی زندگی کے بعد کے سالوں میں نمایاں فرق نظر آتا ہے جب اُس نے اپنی زندگی مسیح اور اس کی بادشاہی کی وسعت کی خاطر بسر کی ۔


پولس رسول دراصل ساؤل کے طور پر پیدا ہوا تھا۔ وہ جدید دور ملک ترکی کے جنوب مشرقی کونے میں واقع ایک صوبے میں قریباً 1-5 بعد از مسیح میں کلِکیہ کے ترسس میں پیدا ہوا۔ وہ بنیمین کے قبیلے اور عبرانی خاندان سے تھا (فلپیوں 3باب 5-6آیات)۔ اُس کے والدین فریسی یعنی —پُرجوش قوم پرست یہودی جو موسوی شریعت کی سختی سے پیروی کرنے والے لوگ تھے جو اپنے بچّوں کو غیر قوموں کی"آلودگی" سے بچانے کی کوشش کرتے تھے۔ ساؤل کے گھرانے میں کسی بھی طرح کی یونانی چیز کو حقیر سمجھا جاتا تھا تاہم وہ یونانی اور مناسب حد تک لاطینی بول سکتا تھا۔ اُس کے گھر والے ارامی بولتے ہوں گے جو یہودیہ کی سرکاری زبان عبرانی سے ملتی جلتی تھی ۔ ساؤل کے گھرانے کے لوگ اگرچہ رومی شہری تھے لیکن وہ یروشلیم کو حقیقت میں پاک اور مقدس شہر کے طور پر دیکھتے تھے (اعمال 22باب22-29آیات)۔

تیرہ سال کی عمر میں ساؤل کو گملی ایل نامی ایک ربّی سے تعلیم حاصل کرنے کے لیے یہودیہ بھیج دیا گیاجس کے زیر ِسایہ ساؤل نے یہودی تاریخ، زبور اور نبیوں کے صحائف میں مہارت حاصل کی۔ اُس کی تعلیم پانچ یا چھ سال تک جاری رہی اور یوں ساؤل نے کلام مقدس کی تحقیق کرنے جیسی باتیں سیکھیں (اعمال 22باب 3آیت )۔ یہی وہ وقت تھا جب اُس نے تعلیم وتدریس کے اُس منطقی اسلوب میں ترقی کی جسے قدیم زمانے میںDiatribe )مخالفین پر شدید تنقید اور حملے کرنا( کہا جاتا تھا۔ اظہار بیان کے اس طریقے نے یہودی ربیوں کو شریعت کا دفاع یا اُس کی خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف مقدمہ چلانے کے لیے یہودی شریعت کے بنیادی نکات پر بحث کرنے میں مدد کی تھی ۔ ایک وکیل بننے کے لیے ساؤل ترقی کرتا گیا اور یہ تمام نشانیاں ساؤل کے سین ہیڈرن کا رکن بننے کی طرف اشارہ کرتی ہیں جو یہودی طرزِ زندگی اور مذہب پر حکمرانی کرنے والے 71 آدمیوں پر مشتمل یہودی صدرِ عدالت ہے ۔ ساؤل اپنے ایمان کے لیے پُرجوش تھا اور یہ ایمان اُسے سمجھوتے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ یہی وہ جوش تھا جس نے ساؤل کو مذہبی انتہا پسندی کی راہ پر گامزن کیا تھا ۔

اعمال 5باب 27-42آیات میں پطرس نے سین ہیڈرن کے سامنے انجیل اور خداوند یسوع کا دفاع کیا جسے ساؤل نے بھی سنا ہوگا۔ گملی ایل بھی وہاں موجود تھا اور اُس نے جماعت کو خاموش ہونے اور پطرس کو سنگسار کرنے سے روکنے کا پیغام دیا۔ ہو سکتا ہے کہ ساؤل ستفنس کے مقدمے کے وقت وہاں موجود تھا۔ وہ اُسکے سنگسار کئے جانے اور موت کے وقت وہاں موجود تھا؛ سنگسار کرنے والوں کے کپڑے اُس کے پاس تھے (اعمال 7باب 58 آیت )۔ ستفنس کی موت کے بعد"اُس کلِیسیا پر جو یرؔوشلِیم میں تھی بڑا ظُلم برپا ہُؤا " (اعمال 8باب 1آیت)۔ ساؤل مسیحیوں کو ختم کرنے کے لیے پُرعزم اور اپنی کوشش میں بے رحم تھا کیونکہ اُس کا ایمان تھا کہ وہ خدا کے نام پر کام کر رہا ہے۔ ممکنہ طور پر مذہبی دہشت گرد سے زیادہ خوفناک یا ظالم کوئی نہیں ہے خاص طور پراُس وقت جب اُسے یقین ہو کہ وہ بے گناہ لوگوں کو مار کر خداوند کی مرضی پوری کر رہا ہے۔ ترسس کا ساؤل بالکل ایک ایسا ہی مذہبی دہشت گرد تھا ۔ اعمال 8باب 3آیت بیان کرتی ہے " ساؤُ ل کلِیسیا کو اِس طرح تباہ کرتا رہا کہ گھر گھر گُھس کر اور مَردوں اور عَورتوں کو گھسیٹ کر قَید کراتاتھا "۔

اعمال 9باب 1-22آیات پولس رسول کی کہانی کا مرکزی حوالہ ہے جو یروشلیم سے دمشق کے راستے پر جاتے ہوئے جوکہ تقریباً 150 میل کا سفر ہے پولس رسول کی یسوع مسیح کے ساتھ ملاقات کا ذکر کرتا ہے۔ ساؤل جو کچھ دیکھ چکا تھا اُس کے باعث وہ شدید غصے اور مسیحیوں کو قتل کرنے کےلیے طیش سے بھر اہوا تھا ۔ اپنے سفر پر روانہ ہونے سے پہلے ساؤل نے سردار کاہن سے دمشق کے عبادت خانوں کے لیے خطوط مانگے جن میں اُس نے کسی بھی مسیحی ("اِس طریق" کے پیروکاروں ،کیونکہ وہ ایسے ہی جانے جاتے تھے ) کو قید کر کے یروشلیم لانے کی اجازت مانگی تھی۔ راستے میں ساؤل پر آسمان سے ایک نور چمکا جس کی وجہ سے وہ زمین پر گر پڑا۔ اور اُس نے یہ الفاظ سنے" اَے ساؤُؔل اَے ساؤُ ل! تُو مُجھے کیوں ستاتا ہے؟ " اُس نے پوچھا کہ "اے خداوند ! تُو کون ہے ؟" یسوع نے براہ راست اور واضح طور پر جواب دیا کہ "مَیں یسوع ہوں جسے تُو ستاتا ہے " (آیات 4-5آیات)۔ جیسا کہ اِس حوالے سے کچھ عالمین کا خیال ہے کہ یسوع کے ساتھ ساؤل کی یہ پہلی ملاقات نہیں تھی نوجوان ساؤل کو ممکنہ طور پریسوع کے بارے میں معلوم تھا اور اُس نے حقیقتاً یسوع کی موت کا مشاہدہ کیا تھا ۔

اِس لمحے کے بعد سے ساؤل کی زندگی یکسر بدل گئی۔ خداوند کے نور نے اُسے اندھا کر دیااور سفر کے دوران اُسے اپنے ساتھیوں پر انحصار کرنا پڑا۔ خداوند یسوع کی ہدایت کے مطابق ساؤل نے حننیاہ نامی ایک آدمی سے ملنے کے لیے دمشق کی جانب اپنے سفر کوجاری رکھا جو پہلے پہل ساؤل سے ملنے سے ہچکچایا کیونکہ وہ کلیسیا کو ستانے والے کے طور پر ساؤل کی شہرت سے واقف تھا ۔ لیکن خُداوند نے حننیاہ کو بتایا کہ ساؤل غیر قوموں، بادشاہوں اور بنی اسرائیل پر اُسے کے نام کو ظاہر کرنے والا اُس کا "چُنا ہوا وسیلہ " ہے (اعمال 9باب 15آیت ) اور ایسا کرتے ہوئے وہ بڑا دُکھ اُٹھاے گا (اعمال 9 باب 16ایت )۔ حننیاہ نے خُداوند کی ہدایات پر عمل کیا اور ساؤل سے جا ملا ، جس پر اُس نے ہاتھ رکھے اور اُسے یسوع مسیح کے متعلق اپنی رویا کے بارے میں بتایا۔ دُعا کے وسیلہ سے ساؤل نے رُوح القدس پایا (اعمال 9باب 17آیت )، اُس کی بینائی پھر سے بحال ہو گئی اور اُس نے بپتسمہ لیا (اعمال 9باب 18آیت )۔ ساؤل فوراً عبادت خانوں میں گیا اور خُداوند یسوع کی خدا کے بیٹے کے طور پر منادی کرنے لگا (اعمال 9باب 20آیت)۔ لوگ حیران اور شک میں مبتلا تھے کیونکہ وہ ساؤل کی شہرت سے اچھی طرح واقف تھے۔ یہودیوں کا خیال تھا کہ وہ مسیحیوں کو لے جانے کے لیے آیا ہے (اعمال 9باب 21آیت ) لیکن حقیقت میں وہ اُن میں شامل ہو گیا ۔ جب دمشق میں رہنے والے یہودی یسوع کو مسیح ثابت کرنے والے ساؤل کے دلائل سے حیران ہونے لگے تو ساؤل کی دلیری میں اور بھی اضافہ ہوا (اعمال 9باب 22آیت )۔

ساؤل نے عرب، دمشق، یروشلیم، سوریہ اور اپنے آبائی علاقے کلکیہ میں وقت گزارااور برنباس نے انطاکیہ کی کلیسیا میں لوگوں کو تعلیم دینے کے لیے اُس کی مدد لی (اعمال 11باب 25آیت )۔ دلچسپ بات یہ ہے اِس کثیر النسلی کلیسیا کی بنیاد اُن مسیحیوں نے رکھی جو ستفنس کی موت کے بعد واقع ہونے والی ایذار سانی کے باعث یہودیہ سے نکالے گئے تھے (اعمال 11باب 19-21آیات)۔

ساؤل نے اپنا پہلا مشنری سفر 40 بعد از مسیح کے آخر میں کیا۔ جب وہ زیادہ وقت غیر قوموں کے علاقوں میں گزارنے لگا تو وہ اپنے رومی نام پولس سے مشہور ہو گیا (اعمال 13باب 9آیت )۔ پولس رسول نے نئے عہد نامے کی بہت سی کتب قلمبند کیں ۔ پیشتر ماہرین علم ِ الہیات اس بات پر متفق ہیں کہ اس نے رومیوں، 1 اور 2 کرنتھیوں، گلتیوں، فلپیوں، 1 اور 2تھسلنیکیوں ، فلیمون، افسیوں، کلیسوں ، 1 اور 2 تیمتھیس اور طِطُس کو قلمبند کیا تھا ۔ یہ تیرہ "خطوط" پولس رسول کی تصانیف کہلاتی ہیں اور اُس کے علم ِ الہیات کا بنیادی ماخذ ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے اعمال کی کتاب ہمارے سامنے پولس رسول کی زندگی اور اُسکے دَورکا ایک تاریخی جائزہ پیش کرتی ہے۔ پولس رسول نے اپنی زندگی تمام رومی علاقے میں جی اُٹھے مسیح یسوع کی منادی کرنے میں صرف کی تھی اور اِس دوران اُسے بڑے بڑے خطرات کا سامنا کرنا پڑا تھا (2 کرنتھیوں 11باب 24-27آیات )۔ خیال کیا جاتا ہے کہ پولس رسول کی موت 60 بعد از مسیح کی دہائی کے وسط میں یا پھر آخر میں روم میں ہوئی تھی۔

پس ہم پولس رسول کی زندگی سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ سب سے پہلے، ہم یہ سیکھتے ہیں کہ خدا کسی بھی انسان کو نجات دے سکتا ہے۔ پولس رسول کی غیرمعمولی کہانی ہر روز اُس وقت خود کو دہراتی ہے جب پوری دنیا میں گنہگار، شکستہ لوگ یسوع مسیح میں خُدا کے نجات بخش فضل سے تبدیل ہوتے ہیں۔ اُن میں سے کچھ لوگوں نے دوسرے انسانوں کے ساتھ قابلِ نفرت کام کیے ہیں جب کہ کچھ لوگ صرف اس سوچ کے ساتھ اخلاقی زندگی گزارنے کی کوشش کرتے ہیں کہ قیامت کے دن خدا اُن سے خوش ہوگا۔ جب ہم پولس رسول کی کہانی پڑھتے ہیں تو ہم حیران رہ جاتے ہیں کہ خدا ایک ایسے مذہبی انتہا پسند کو فردوس میں جانے دے گا جس نے بے قصور عورتوں اور بچّوں کو قتل کیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ آج ہم دہشت گردوں یا دیگر مجرموں کو نجات کے قابل نہ سمجھیں کیونکہ انسانیت کے خلاف اُن کے جرائم بہت بڑے ہیں۔ پولس رسول کی کہانی ایک ایسی کہانی ہے جو آج سُنائی جا سکتی ہے - ہماری نظر میں وہ دوسرے موقع کے لائق نہیں ہے پھر بھی خُدا نے اُس پر رحم کیا تھا ۔ سچ تو یہ ہے کہ "اچھے، مہذب"، اوسط سے لے کر "بدکار، شریر " بگڑے ہوئے انسان تک ہر شخص خدا کے لیے اہمیت رکھتا ہے ۔" صرف خدا ہی کسی جان کو جہنم سے بچا سکتا ہے۔

دوسرے نمبر پر ہم پولس رسول کی زندگی سے سیکھتے ہیں کہ کوئی بھی انسان کمزور ہونے کے باوجود یسوع مسیح کے لیے ایک طاقتور گواہ ہو سکتا ہے۔ یسوع مسیح کی خوشخبری کی منادی کرتے ہوئے بائبل میں غالباً کسی بھی اور انسانی شخصیت نے اتنی زیادہ عاجزی کا مظاہرہ نہیں کیا جتنا پولس رسول نے کیا ہے ۔ اعمال 20باب 19آیت میں پولس خود بیان کرتا ہے کہ مَیں " کمال فروتنی سے اور آنسُو بہا بہا کر اور اُن آزمایشوں میں جو یہُودِیوں کی سازِش کے سبب سے مجھ پر واقِع ہُوئیں خُداوند کی خِدمت کرتا رہا " اعمال 28باب 31آیت میں پولس یسوع مسیح کی خوشخبری بانٹا ہے وہ :"کمال دِلیری سے بغیر روک ٹوک کے خُدا کی بادشاہی کی مُنادی کرتا اور خُداوند یِسُوع مسیح کی باتیں سکھاتا رہا۔" پولس رسول دوسروں کو یہ بتانے سے نہیں ڈرتا تھا کہ خُداوند نے اُس کے لیے کیا کِیا ہے ۔ پولس نے مسیح کو قبول کرنے سے لے کر شہادت تک کے اپنے تمام ایام خدا کی بادشاہی کے لیے انتھک محنت کرتے ہوئے گزارے تھے ۔

آخر میں ہم سیکھتے ہیں کہ کوئی بھی انسان پوری طرح خدا کے تابع ہو سکتا ہے۔ پولس رسول مکمل طور پر خُدا کے لیے وقف تھا۔ فلپیوں 1باب 12-14 آیات میں پولس رسول نے قید کے دوران لکھا کہ " مَیں چاہتا ہُوں تم جان لو کہ جو مجھ پر گذرا وہ خوشخبری کی ترقّی ہی کا باعث ہُؤا۔یہاں تک کہ قیصری سِپاہیوں کی ساری پلٹن اور باقی سب لوگوں میں مشہور ہو گیا کہ مَیں مسیح کے واسطے قَید ہُوں۔اور جو خُداوند میں بھائی ہیں اُن میں سے اکثر میرے قَید ہونے کے سبب سے دِلیر ہو کر بے خَوف خُدا کا کلام سُنانے کی زِیادہ جُرأت کرتے ہیں " ۔ اپنے حالات کے باوجود پولس رسول نے خُدا کی تعریف کی اور مسلسل خوشخبری سناتا رہا (اعمال 16باب 22-25آیات اور فلپیوں 4باب 11-14آیات بھی دیکھیں)۔ اپنی مشکلات اور مصائب کے دوران پولس رسول مسیح کے لیے زندگی بسر کرنے کے نتائج کو جانتا تھا۔ اُس نے ہر بات کے لیے خدا پر بھروسہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کو مکمل طور پر اُس کے سپرد کر دیا تھا۔ اُس نے لکھا کہ "زِندہ رہنا میرے لئے مسیح ہے اور مَرنا نفع "(فلپیوں 1باب 21آیت)۔ کیا ہم بھی ایسا دعویٰ کر سکتے ہیں؟

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

بائبل میں مذکور پولس رسول کون تھا؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries