سوال
بائبل میں مذکور نحمیاہ کون تھا ؟
جواب
عزرا اور نحمیاہ ہم عصر تھے اور اُن دونوں نے یروشلیم کی اُس تعمیر نو کے بارے میں لکھا ہے جو بابلیوں کے بادشاہ نبوکدنضر کی طرف سے یروشلیم شہر کو تباہ کرنے کے تقریباً ستر سال بعد کی گئی تھی ۔ عزرا نے زربابل کےما تحت ہیکل کی دوبارہ تعمیر کے بارے میں تفصیلات کو قلمبند کیا جبکہ نحمیاہ نے یروشلیم کی فصیل کی تعمیر نو کے تعلق سے لکھا ۔ قدیم زمانوں کے دوران مشرق وسطیٰ میں واقع شہروں کی فصلیں اور پھاٹک ہوا کرتے تھے جن کی شہریوں کی حفاظت کے پیش نظر نگرانی کی جاتی تھی ۔ ہر شہر کے اہم لوگ پھاٹکوں پر جمع ہوتے تھے جہاں وہ شہر کے معاملات طے کرتے، اہم معلومات کو بانٹتے یا محض ایک دوسرے کے ساتھ وقت گزارتے تھے۔
نحمیاہ کا بیان 445 قبل از مسیح میں شروع ہوتا ہے اور یہ تاریخ اس لحاظ سے اہم ہے کیونکہ عزرا اور نحمیاہ کے ہم عصر نبی دانی ایل نے ایک بہت ہی مخصوص تاریخ - 15 مارچ 445 قبلاز مسیح پر مبنی "سالوں کے 70 ہفتے" کی پیشین گوئی (دانی ایل 9باب 24-27آیات ) قلمبند کی تھی ۔ یہ تاریخ پیشین گوئی کے آغاز کے لیے بہت اہم ہے کیونکہ یہ اُس نبوتی تسلسل کو شروع کرتی ہے جو یسوع مسیح کی دوسری آمد کے ساتھ ختم ہوتا ہے۔ یہ پیشین گوئی خداوند یسوع کی پہلی آمد سے بہت پہلے قلمبند کی گئی تھی لیکن یہ اُن سالوں کے دوران بھی جاری رہتی ہے جب اُسے "قتل " کیا جاتاہے۔ یہ مخالفِ مسیح کے بارے میں تفصیلات مہیا کرتی ہےکہ وہ کس طرح منظر ِ عام پر آئے گا اور وہ اسرائیل کے خلاف خدا اور اس کے لوگوں پر اپنے آخری حملے میں کیسے آگے بڑھے گا۔ فی الحال ہم انہترویں اور سترویں ہفتے کے درمیان زندگی بسر کر رہے ہیں۔
دانی ایل نبی کی پیشین گوئی دانی ایل 9باب 25آیت میں پائی جاتی ہے: "پس تُو معلُوم کر اور سمجھ لے کہ یرؔوشلِیم کی بحالی اور تعمِیر کا حکم صادِر ہونے سے ممسُوح فرمانروا تک سات ہفتے اور باسٹھ ہفتے ہوں گے ۔ تب پِھر بازار تعمیر کئے جائیں گے اور فصیل بنائی جائے گی مگر مصیبت کے ایّام میں"۔ نحمیاہ کو معلوم نہیں تھا کہ وہ دانی ایل نبی کی طرف سے قلمبند کی گئی پیشین گوئی کو پورا کر رہا ہے۔نحمیاہ نے جو اُس وقت بابل میں اسیر بھی تھا اپنی تحریروں کا آغاز بالکل اُسے طرح سے اپنے لوگوں یعنی اسرائیل کے لیے شفاعتی دعا کے ساتھ کیا جیسے دانی ایل خدا سے اسرائیلیوں پر رحم کرنے اور انہیں اُن کے وطن واپس پہنچانے کی التجا کرتے ہوئے مسلسل اُن کی خاطر دعا کرتا تھا ۔نحمیاہ نے رُوح القدس کے الہام سے مخصوص تاریخیں درج کیں تاکہ یروشلیم کی تعمیر نو کے فرمان کے صادر ہونے کے بارے میں تحریری ریکارڈ موجود ہو۔
اس سے پہلے کہ وہ یروشلیم کی فصیل کی تعمیر نو کے لیے بادشاہ سے اجازت حاصل کرتا نحمیاہ نے دعا کی اور خدا نے اُس کی درخواست منظور کر لی۔ جب وہ بابل سے نکل رہا تھا تو اُس کی کچھ عرب مردوں سے ملاقات ہوئی جنہوں نے اُس کا مذاق اڑایا کہ وہ کیا کرنے والا تھا۔ نحمیاہ 2باب 20آیت میں اپنا بیان درج کرتا ہے جو آج بھی اس بات کے ثبوت کے طور پر قائم ہے کہ یروشلیم کے نام سے مشہور شہر پر کس کا حق ہے: " تب مَیں نے جواب دے کر اُن سے کہا آسمان کا خُدا وُہی ہم کو کامیاب کرے گا ۔ اِسی سبب سے ہم جو اُس کے بندے ہیں اُٹھ کر تعمیر کریں گے لیکن یروشلیم میں تمہارا نہ تو کوئی حصّہ نہ حق نہ یادگار ہے۔"
نحمیاہ نے یروشلیم کی تعمیر نو کی کوشش جاری رکھی۔ خدا نے تمام ضروری کارکن فراہم کئے اور تعمیر شروع ہو گئی ۔ تاہم وہ دشمنوں کے بغیر نہیں تھے - جو تعمیر نو کو روکنا چاہتے تھے۔ لیکن خدا نے مداخلت کی جیسا کہ اُس نے موسیٰ کے ساتھ کیا تھا (خروج 14باب 14آیت )۔ نحمیاہ 4باب 20آیت میں درج کرتا ہے " سو جدھر سے نرسِنگا تم کو سُنائی دے اُدھر ہی تم ہمارے پاس چلے آنا ۔ ہمارا خُدا ہمارے لئے لڑے گا "۔ یہ خُدا کا پہلے سے طے شدہ منصوبہ تھا کہ اپنے لوگوں کو غلامی سے نکال کر اُنہیں اُن کے ملک میں واپس لائے تاکہ وہ پھر سے ہیکل میں عبادت کر سکیں ۔
ہم نحمیاہ کی زندگی سے خدا کے ساتھ رشتہ بحال کرنے اور اُسے برقرار رکھنے کے حوالے سے قیمتی سبق سیکھ سکتے ہیں۔ جیسے ہی لوگ دوبارہ تعمیر شدہ شہر میں واپس آئے تو پہلا لائحہ عمل اس بات کو یقینی بنانا تھا کہ وہ موسیٰ کی شریعت کو سمجھتے ہیں۔ لہٰذا عزرا کاہن نے اس بات کو یقینی بنانے کے لیے کہ لوگ سمجھیں کہ خدا کیا چاہتا ہے جماعت کے سامنے شریعت کو پڑھنے میں کئی گھنٹے گزارے۔ نحمیاہ 8باب 18آیت درج کرتی ہے کہ خُدا کے کلام کا روزانہ مطالعہ کرنا ہر ایماندار کی زندگی کا حصہ ہونا چاہیے : " پہلے دِن سے آخِری دِن تک روز بروز اُس نے خُداکی شرِیعت کی کِتاب پڑھی اور اُنہوں نے سات دِن عِیدمنائی اور آٹھویں دِن دستُور کے مُوافِق مُقدّس مجمع فراہم ہُؤا "۔
نحمیاہ وفاداری اور ثابت قدمی کا ثبوت ہے۔ گوکہ وہ اپنے گھر سے بہت دور رہتا تھا مگر اُس نے اپنے ملک واپس آنے کی اُمید کبھی نہیں چھوڑی تھی ۔ اُس نے اپنی زندگی کا زیادہ تر حصہ ایک بُت پرستانہ سرزمین میں جلاوطنی میں گزارا لیکن وہ ابرہام ، اضحاق اور یعقوب کے خدا پر اپنے ایمان اور اعتقاد میں کبھی نہ لڑکھڑایا تھا ۔ وہ دُعا میں سب کچھ خداوند کے حضور رکھنے اور اپنے لوگوں کی خاطر شفاعت کرنے والا دعائیہ جنگجو تھا، اور اُسے اُس کی جانفشانی اور ثابت قدمی کا صلہ ملا تھا۔ نحمیاہ کو اپنے لوگوں کی اس قدر فکر تھی کہ اُس نے اپنے لوگوں کی نہ صرف اُن کے وطن میں بلکہ اُس خدا کی رفاقت میں بحال ہونے کی امید کبھی نہیں چھوڑی تھی جس نے سب سے پہلے اُن کے جد امجد ابرہام کو اُسی علاقے سے بلایا اور اُس کے ساتھ وہ عہد باندھاتھا جس کے بارے میں نحمیاہ کا ایمان تھا کہ ہمیشہ قائم رہے گا۔
English
بائبل میں مذکور نحمیاہ کون تھا ؟