settings icon
share icon
سوال

بائبل میں مذکوریشوع کون تھا ؟

جواب


یشوع موسیٰ کے نائب کے طور پر مشہور ہے جو موسیٰ کی وفات کے بعدموعود سر زمین کو فتح کرتا اور بنی اسرائیل کو موعودہ ملک میں لے کر جاتا ہے۔ یشوع کو موعودہ سرزمین پر سات سالہ فتح کی قیادت کرنے کے لیے بائبل کے سب سے بڑے جنگی رہنماؤں میں سے ایک سمجھا جاتا ہے اور اُسے اکثر قیادت کے لیے ایک نمونہ اور ایک مؤثر رہنما بننے کے عملی اطلاق کا ایک وسیلہ خیال کیا جاتا ہے ۔ آئیے اُس کی زندگی کو بائبل کے نقطہ نظر سے دیکھیں۔

ایک جنگی رہنما کے طور پر یشوع کو انسانی تاریخ کے عظیم ترین سپہ سالاروں میں سے ایک سمجھا جائے گا،لیکن اسرائیل کی فتح کا سہرا صرف اور صرف ایک جنگی سپہ سالار کے طور پر یشوع کی مہارت کے نام کرنا غلطی ہوگی۔ ہم یشوع کو پہلی بار عمالیقیوں کے خلاف جنگ لڑتے ہوئے خروج 17 باب میں دیکھتے ہیں۔ خروج 17باب 13آیت ہمیں بتاتی ہے کہ یشوع نے "عمالیق اور اُس کے لوگوں کو تلوار کی دھار سے شکست دی" اور اس لیے ہم یہ نتیجہ اخذ کرنے کا رجحان رکھتے ہیں کہ یشوع کی جنگی مہارت نے اُس دن اسرائیل کو سرخرو کیا تھا۔ لیکن اس حوالے سے ہم کچھ عجیب و غریب رونما ہوتا دیکھتے ہیں۔ 11 آیت میں ہم پڑھتے ہیں کہ "جب تک موسیٰ اپنے ہاتھ اُٹھائے رہتا تھا بنی اسرائیل غالب رہتے تھے اور جب وہ ہاتھ لٹکادیتا تھا تب عمالیق غالب ہوتے تھے "۔ آخر کارموسیٰ کے بازو اتنے تھک گئے کہ اُس کے بیٹھنے کے لیے ایک پتھر لانا پڑا اور ہارون اور حوؔر نے اُس کے ہاتھ اٹھا لیے۔ لہٰذا ہم اس مختصربیان میں دیکھتے ہیں کہ یشوع غالب آیا کیونکہ خدا نے اُسے جنگ میں فتح بخشی تھی۔

اور یہی بات وعدے کی سرزمین میں جنگی فتوحات کے بارے میں کہی جا سکتی ہے۔ خُداوند نے یقینی فتح کا وعدہ کیا تھا اوراُس نے زبردست انداز میں اُنہیں وہ فتح عطا کی۔ صرف عؔی کی جنگ میں ایسا نہیں ہوتا (یشوع 7باب )۔ اس واقعے کے بارے میں کئی باتیں قابل غور ہیں۔ اسرائیل نے"مخصوص کی ہوئی چیز " میں خدا کے ساتھ خیانت کی تھی (یشوع 7باب 1آیت )۔ خُدا نے بنی اسرائیلیوں کو ہر چیز تباہ کرنے کا حکم دیا تھا (یشوع 6باب 17آیت ) اور عکن نے یریحو کی جنگ میں سے کچھ لوٹ کو اپنے لیے رکھ لیا تھا۔ اِس کی وجہ سے خُدا نے اُنہیں عؔی میں فتح نہ دے کر اُن کی عدالت کی ۔ ایک غور طلب بات یہ بھی ہے کہ عؔی کے خلاف جنگ کرنے کا خدا کی طرف سے کوئی واضح حکم نہیں ہے۔ اِن دونوں جنگی بیانات کو ایک ساتھ پیش کرنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ جب خدا کوئی منصوبہ اور ایجنڈا طے کرتا ہے تو اُس صورت میں ہی اُس کا نتیجہ فتح مندی ہوتی ہے لیکن جب انسان کوئی منصوبہ اور ایجنڈا طے کرتا ہے تو پھر اُس کا انجام ناکامی ہوتی ہے۔ عؔی نہیں بلکہ یریحو خداوند کی جنگ تھی۔ خدا نے صورت حال کو بدتر ہونے سے بچا لیا اوراُنہیں اُس وقت تک فتح نہ بخشتی جب تک اُن کو عملی سبق نہ سکھایا ۔

یشوع کی قائدانہ خوبیوں کا مزید ثبوت خُدا پر اُس کےپختہ ایمان میں دیکھا جا سکتا ہے۔ جب بنی اسرائیل گنتی 13 باب میں موعودہ سرزمین کےدہانے پر تھے تو خدا نے موسیٰ کو حکم دیا کہ وہ اسرائیل کے ہر قبیلے میں سے ایک کو لیکر بارہ لوگوں کو اُس ملک کی جاسوسی کے لیے بھیجیں۔ اُن کی واپسی پر دس جاسوسوں نے اطلاع دی کہ اگرچہ خداوند کے کہے کے مطابق وہ زمین زرخیز اور پھلدار ہے لیکن اُس ملک پر بڑے بڑے اور قلعہ بند شہروں میں زبردست اور ظالم جنگجوؤں کا قبضہ ہے ۔ مزید برآں اُس ملک میں عناق (اسرائیلیوں کے نقطہ نظر سے دیو) بھی ہیں ۔ صرف یشوع اور کالب ہی دو شخص تھے جنہوں نے لوگوں کو زمین پر قابض ہونے کی ترغیب دی (گنتی 14باب 6-10آیات )۔ یہاں ہم ایک ایسی بات دیکھتے ہیں جو یشوع (اور کالب) کو باقی بنی اسرائیلیوں سے الگ کرتی ہے- وہ خدا کے وعدوں پر یقین رکھتے تھے۔ وہ جنگجوؤں کےقدو قامت قد یا شہروں کی طاقت سے خوفزدہ نہیں تھے۔ بلکہ وہ اپنے خُدا کو جانتے تھے اور اُنہیں یاد تھا کہ اُس نے اُس وقت زمین کی سب سے طاقتور قوم مصر کے ساتھ کیا سلوک کیا تھا۔ اگر خدا طاقتور مصری فوج سےنمٹ سکتا تھا تو وہ یقیناًمختلف کنعانی قبائل سے بھی نمٹ سکتا ہے۔ خُدا نے یشوع اور کالب کے ایمان کا بدلہ اُنہیں اسرائیلیوں کی اُس تمام نسل میں سے زندہ رکھنے کی صورت میں دیا جو بیابان میں ہلاک ہو جانے والی تھی۔

یشوع کی وفاداری کو ہم موعودہ سرزمین پر حملے سے پہلے اور عؔی میں شکست کے بعد لوگوں کو فرمانبرداری کے ساتھ پاک کرنے کے عمل میں دیکھتے ہیں۔ لیکن یشوع کی وفاداری اور کہیں بھی اتنی واضح طور پر دکھائی نہیں دیتی جتنی اُس کے نام سے کہلانے والی کتاب کے اختتام پر نظر آتی ہے جب وہ لوگوں کو آخری بار اکٹھا کرتا اور اُن کے سامنے خدا کے کاموں کا ذکر کرتا ہے۔ اُس خطاب کے بعد یشوع نے لوگوں کو تاکید کی کہ وہ اپنے بتوں کو ترک کریں اور اس عہد میں وفادار رہیں جو خُدا نے اُن کے ساتھ کوہِ سینا پر باندھا ہے اور اُن سے کہا "اگر خُداوند کی پرستِش تم کو بُری معلُوم ہوتی ہو تو آج ہی تُم اُسے جس کی پرستِش کرو گے چُن لو۔ خواہ وہ وُہی دیوتا ہوں جن کی پرستِش تمہارے باپ دادا بڑے دریا کے اُس پار کرتے تھے یا اموریوں کے دیوتا ہوں جِن کے مُلک میں تُم بسے ہو۔ اب رہی میری اور میرے گھرانے کی بات سو ہم تو خُداوند کی پرستِش کریں گے " (یشوع 24باب 15آیت )۔

لہذا ہم یشوع کی زندگی سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟ کیا ہم اُس کی زندگی سے قیادت کے اصول اخذ کر سکتے ہیں؟ یقیناً۔ اگرچہ خدا نے اُسے موعودہ سرزمین پر قابض ہونے میں فتح دی ہے لیکن یہ بات اُس کی جنگی قیادت اور سپہ سالاری کی نفی نہیں کرتی ۔ مزید برآں، وہ بنی اسرائیل کے لیے ایک قابل رہنما سے بڑھکر تھا لیکن اُس کی قائدانہ مہارت وہ بنیادی سبق نہیں ہے جو ہمیں یشوع کی زندگی سے حاصل کرنا چاہیے۔ یشوع کی وفاداری، وعدے کی سرزمین پر قابض ہونے میں حائل رکاوٹوں کے بارے میں تنقیدی اطلاعات لانے والے دس جاسوسوں کے خلاف اُس کا موقف اور خداکے ساتھ عہد کے حوالے سے لوگوں کی وفاداری کو یقینی بنانے میں اُس کی لگن ایک بہتر سبق ہوگا ۔ لیکن اُس کا ایمان بھی کامل نہیں تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ یریحو میں فتح مندی کے بارے میں خدا کی یقین دہانی کے باوجود یشوع نے وہاں جاسوس بھیجے اور پھر عؔی کی جنگ میں اُس نے حد سے زیادہ خود اعتمادی کا مظاہرہ کیا۔

یشوع کی زندگی سے حاصل ہونے والا بنیادی سبق یہ ہے کہ خُدا اپنے وعدوں میں وفادار ہے۔ خدا نے ابرہام سے وعدہ کیا کہ اُس کی اولاد اس ملک میں بسے گی اور خدا یشوع کے ماتحت لوگوں کو اُس ملک میں لے آیا جس کا اُس نے اُن سے وعدہ کیا تھا۔ اس عمل نے رہائی کےاُس مشن کو مکمل کیا جو خدا نے موسیٰ کے ساتھ اسرائیل کو مصر سے نکالنے کے وقت شروع کیا تھا۔ یہ چھٹکارے کی ایک ایسی قسم بھی ہے جو اُس حتمی چھٹکارے کی طرف اشارہ کرتی ہے جسے خداوند یسوع مسیح اپنے اوپر ایمان لانے والوں کو عطا کرتا ہے۔ موسیٰ کی طرح خداوند یسوع نے ہمیں گناہ کی قید اور غلامی سے نجات دلائی اور یشوع کی طرح خداوند یسوع ہمیں ابدی موعودہ سر زمین اور سبت کے دائمی آرام میں پہنچائے گا (عبرانیوں 4باب 8-10)۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

بائبل میں مذکوریشوع کون تھا ؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries