settings icon
share icon
سوال

بائبل میں مذکور یرمیاہ کون تھا؟

جواب


یرمیاہ نبی جنوبی سلطنت یہوداہ کی زوال پذیر ی کے آخری ایام میں آیاتھا۔ دیکھا جائے تو وہ ایک طور پروہ آخری نبی تھا جسے خُدا نےیہوداہ اور بنیمین کے قبائل پر مشتمل جنوبی سلطنت میں منادی کرنے کے لیے بھیجا تھا۔ خُدا نے اسرائیل قوم کو با ر بار تنبیہ کی کہ وہ اپنی بُت پرستانہ رَوشوں سے باز آئیں لیکن اُنہوں نے خُدا کی بات کو نہ سُنا ، چنانچہ بارہ قبیلے دو حصوں میں بٹ گئے اور دو بادشاہتیں قائم ہو گئیں، اور 10 قبیلوں کو خُدا نے اُن کی بداعمالیوں کی وجہ سے اسوریوں کے ہاتھوں اسیر کروا دیا تھا۔ پھر خُدا نے یرمیاہ کو بھیجا کہ وہ یہوداہ کو آخری بار تنبیہ کرے ، اِس سے پہلے کہ وہ اُنہیں بھی ملک بدر کرے، اُنکی قوم کو ہلاک کرے اور اُنہیں بابل کی غیر ایماندار بادشاہت کے ہاتھوں اسیری میں بھیج دے۔ پس یرمیاہ نامی ایک ایماندار اور خُدا سے ڈرنے والے شخص کو یہوداہ کی سلطنت کو یہ بتانے کے لیے بلایا گیا کہ اُن کے ایسے گناہوں کی بدولت جن سے اُنہوں نے توبہ نہیں کی خُدا اُن کا مخالف ہو گیا ہےاور اب وہ اُنہیں ایک غیر ایماندار بادشاہ کے ذریعے سے اُن کے ملک سے نکال باہر کرنے کو ہے۔

اِس میں کوئی شک نہیں ہے کہ یرمیاہ جو اپنی بلاہٹ کے وقت صرف 17 سال کا تھا اپنے لوگوں کی قسمت کے فیصلے کے حوالے سے اندرونی طور پر شدید دُکھ اورجذباتی کشمکش کا شکار تھا، اور اُس نے لوگوں سے عاجزانہ درخواست کی کہ وہ اُس کی بات کو سُنیں۔ اُسے "رونے والا نبی" بھی کہا جاتا ہے کیونکہ وہ دُکھی ہو کرآنسو بہاتا تھا ، جو کچھ ہونے والا تھا صرف اُس کی وجہ سے نہیں بلکہ اِس لیے بھی کہ اُس نے جتنی بھی کوشش کی اُس کے لوگ اُس کی بات سُننے کے لیے تیار نہیں تھے۔ مزید برآں اُسے بطورِ انسان کوئی سکون نہیں ملا تھا۔ خُدا نے اُسے شادی کرنے اور اولاد پیدا کرنے سے منع کر دیا تھا (یرمیاہ 16باب2 آیت) اور اُس کے دوستوں نے اُس سے منہ موڑ لیا تھا۔ چنانچہ آنے والی عدالت کے علم کے بوجھ کے ساتھ ساتھ وہ بڑے پیمانے پر تنہائی کا بھی شکار تھا۔خُدا جانتا تھا کہ یرمیاہ کے لیے بہترین راستہ کون سا تھا، کیونکہ اُس نے اُسے بتایا تھا کہ تھوڑے ہی عرصے میں کس قدر خوفناک حالات ہونگے، نوزائید، شیر خوار بچّے ، نوجوان اور بڑے کیسی بُری اور خوفناک موت مریں گے، اُن کی لاشیں بھی دفن نہ کی جائیں گی اور اُن کا گوشت پرندے کھائیں گے (یرمیاہ 16باب3-4 آیات)۔

ظاہر ہوتا ہے کہ اسرائیل کے لوگ اپنےگناہوں کی بے شمار تعداد کی وجہ سے بے حِس ہو چکے تھے اور اب وہ خُدا پر ایمان نہیں رکھتے تھے اور نہ ہی اُس سے ڈرتے تھے۔یرمیاہ نے چالیس سالوں تک منادی کی اور ایک بھی بار اُسے اپنے ہٹ دھرم، سرکش اور بُت پرست لوگوں کے دِل و دماغ کو تبدیل کرنے یا نرم کرنے میں کوئی حقیقی کامیابی نظر نہیں آئی۔ اسرائیل کے دیگر نبیوں نے اپنی خدمت کے دوران کم از کم کچھ عرصے تک کوئی نہ کوئی کامیابی ضرور حاصل کی تھی لیکن یرمیاہ نے ایسی کوئی کامیابی حاصل نہیں کی تھی۔ اُسے خدمت کرتے ہوئے گویا ایسا ہی محسوس ہوتا ہو گا جیسے کہ وہ اینٹوں کی کسی دیوار سے بات کر رہا تھا۔ بہرحال اُس کی باتیں ضائع نہ ہوئی تھیں۔ وہ ایسے ہی تھیں جیسے سؤروں کے آگے موتی ڈالے جاتے ہیں اور وہ ہر اُس شخص کو مجرم ٹھہرا رہی تھیں جس نے اُنہیں سُنا اور اُس تنبیہ پر توجہ دینے سے انکار کر دیا تھا۔

یرمیاہ نے لوگوں کو یہ بات سمجھانے کی کوشش کی کہ اُن کا مسئلہ خُدا پر یقین، اعتمام اور ایمان کا فقدان ہے، اور اِس کے ساتھ ساتھ اُن میں خُدا کے خوف کی عدم موجودگی بھی ہے جس کی وجہ سے وہ اُسے معمولی سمجھتے ہیں۔جس وقت انسان کی توجہ خُدا پر نہیں ہوتی تو اُس وقت اُس کے لیے اپنے تحفظ کے جھوٹے احساس میں مبتلا ہونا بہت زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔ آج کل کی بہت ساری دیگر قوموں کی طرح اسرائیل نے بھی خُدا کو اوّل درجہ دینا چھوڑ دیا تھا اور اُس کی جگہ دوسرے جھوٹے دیوتاؤں کو اپنا لیا تھا جو گناہ کی بدولت ملامت کا احساس نہیں ہونے دیتے تھے اور نہ ہی اُنہیں مجرم ٹھہراتے تھے۔خُدا نے اپنے لوگوں کو مصر کی غلامی سے آزاد کروایا تھا، اُن کے سامنے بہت سارے معجزات کئے تھے اور حتیٰ کہ اُ ن کے گزرنے کے لیے سمندر کے پانی کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا تھا۔ خُدا کی قدرت کے اِن تمام مظاہر کے باوجود، وہ مصر میں سیکھے ہوئے اپنے جھوٹے طور طریقوں کی طرف پلٹ گئے تھے،حتیٰ کہ وہ جھوٹے دیوتاؤں جیسے کہ "آسمان کی ملکہ " کے لیے بخور جلاتے اور تپاون تپاتے تھے اور اِس کے ساتھ ساتھ و ہ مصری ثقافت اور مذہب سے منسلک رسومات میں حصہ لیتے تھے۔ خُدا نے بالآخر انہیں اُن کی بُت پرستی کے حوالے کر دیا اور کہا کہ "پس اب تُم اپنی نذروں کو قائِم رکھّو اور ادا کرو " (یرمیاہ 44باب25 آیت) ۔

اِس وجہ سے یرمیاہ کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑا اور اُسکی بہت زیاہ حوصہ شکنی ہوئی۔ اُسے لگا جیسے کہ وہ ایک دِلدل میں ڈوب رہا تھا جہاں پر بہت سارے ایمانداراُس وقت دھنستے نظر آتے ہیں جب وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اُن کی کوششوں سے کوئی فرق نہیں پڑ رہا اور وقت بالکل ختم ہوتا چلا جا رہا ہے۔ یرمیاہ جذباتی لحاظ سے خرچ ہو چکا تھا ، یہاں تک کہ وہ خُدا پر شک کرنے کی حد تک پہنچ گیا (یرمیاہ 15باب18 آیت)، لیکن یرمیاہ کے ذریعے سے خُدا کو مقصود مشن ابھی پورا نہیں ہوا تھا۔ یرمیاہ 15باب19 آیت میں ہر ایک ایماندار کے لیے اُس وقت یاد رکھنے کے لیے ایک سبق موجود ہے جب وہ تنہا، بیکار اور پست حوصلہ محسوس کرے اور جب اُس کا ایمان متزلزل ہو: "اِس لئے خُداوند یُوں فرماتا ہے کہ اگر تُو باز آئے تو مَیں تجھے پھیر لاؤُں گا اور تُو میرے حضُور کھڑا ہو گا اور اگر تُو لطِیف کو کثیف سے جُدا کرے تو تُو میرے مُنہ کی مانِند ہو گا ۔ وہ تیری طرف پِھریں لیکن تُو اُن کی طرف نہ پِھرنا۔" خُدا یرمیاہ سے کہہ رہا تھا کہ میرے پاس واپس آؤ اور مَیں تمہاری نجات کی خوشی کو بحال کر دونگا ۔ اِسی طرح کے الفاظ کو داؤد نے اُس وقت قلمبند کیا تھا جب اُس نے بَت سبع کے ساتھ کئے گئے اپنے گناہ سے توبہ کی تھی (51 زبور 12 آیت)۔

یرمیاہ کی زندگی سے جو کچھ ہم سیکھتے ہیں وہ یہ جاننے کا سکون ہے کہ کسی بھی ایماندار کی طرح حتیٰ کہ خُدا کے عظیم پیغمبر بھی خُدا کی حضوری میں چلتے ہوئے رَد کئے جانے، افسردگی اور حوصلہ شکنی کا تجربہ کر سکتے ہیں۔ یہ رُوحانی طور پر ترقی کرنے کا ایک عام حصہ ہےکیونکہ ہمار ی گناہ آلود انسانی فطرت ہماری اُس نئی فطرت کے خلاف جنگ کی حالت میں ہوتی ہے جسے رُوح القدس پیدا کرتا ہے ۔ گلتیوں 5باب17 آیت کے مطابق: "کیونکہ جسم رُوح کے خلاف خواہش کرتا ہے اور رُوح جسم کے خِلاف اور یہ ایک دُوسرے کے مُخالِف ہیں تاکہ جو تُم چاہتے ہو وہ نہ کرو" لیکن جس طرح یرمیاہ کو معلوم ہوا، ہم بھی یہ جان سکتے ہیں کہ ہمارے خُدا کی وفا داری لا محدود ہے،یہاں تک کہ جب ہم اُس سے بے وفائی کرتے ہیں تب بھی وہ ثابت قدم ہی رہتا ہے(2 تیمتھیس 1باب 13 آیت)۔

یہواہ خُدا نے یرمیا ہ کو ایک غیر مقبول اور دوسروں کو مجرم ٹھہرانے کا پیغام پہنچانے کا کام دیا جس کی وجہ سے اُسے شدید قسم کی ذہنی تکلیف کا سامنا کرنا پڑا اور اُسے اپنی قوم کی نظروں میں بھی حقیر جانا گیا۔ خدا فرماتا ہے کہ اُس کی سچائی نجات نہ پانے والے لوگوں کے لیے "بیوقوفی" کی بات ہوتی ہے، لیکن نجات پانے والوں کے لیے یہ زندگی کا کلام ہے (1 کرنتھیوں 1باب18 آیت)۔ اِس کے ساتھ ساتھ وہ یہ بھی کہتا ہے کہ ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب لوگ سچائی کی برداشت نہ کریں گے (2 تیمتھیس 4باب3-4 آیات)۔ اُس وقت یہوداہ کے اندر رہنے والے لوگ یرمیاہ کی بات کو نہیں سُننا چاہتے تھے اور خُدا کی عدالت کے بارے میں اُس کا پیغام اُنکی ناراضگی کا سب بنتا تھا۔ آج کے دور میں بھی یہ بات اُس وقت درست ہوتی ہے جب وہ ایماندار جو خُدا کی ہدایات پر عمل کر رہے ہیں کھوئی اور گناہ میں دھنسی ہوئی دُنیا کو جلد واقع ہونے والی عدالت کے بارے میں خبردار کرتے ہیں (مکاشفہ 3باب10 آیت)۔ اگر چہ زیادہ تر لوگ سُن نہیں رہے، لیکن پھر بھی ہمیں سچائی کی منادی کرنے میں ثابت قدم رہنا چاہیے تاکہ کچھ کو اُس خوفناک عدالت سے بچایا جا سکے جو لازمی طور پر آنے والی ہے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

بائبل میں مذکور یرمیاہ کون تھا؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries