سوال
بائبل میں مذکور عزرا کون تھا؟
جواب
عزرا یروشلیم کی تعمیرِ نو کے لیے بابل کو چھوڑ کر آنے والے تین اہم رہنماؤں میں سے ایک تھا۔ زربابل نے ہیکل کی تعمیرِ نو کی (عزرا 3باب8 آیت)، نحمیاہ نے یروشلیم کی فصیل کی تعمیرِ نو کی (نحمیاہ 1-2 ابواب) اور عزرا نے عبادتی نظام کو بحال کیا۔ عزرا ایک فقہی اور کاہن تھا جسے شاہِ فارس ارتخششتانے مذہبی اور سیاسی اختیارات کے ساتھ بابل سے یروشلیم تک یہودی جلا وطنوں کے ایک گروہ کی قیادت کرنے کے لیے بھیجا تھا (عزرا 7باب 8، 12آیات)۔ عزرا نے مخلوط شادیوں کی مذمت کی اور یہودیوں کو ترغیب دی کہ وہ اپنی غیر یہودی بیویوں کو طلاق دیں اور اُنہیں اپنے پاس سے دور کریں۔ عزرا نے عیدوں کے منانے کی تجدید اور بحالی کی اور ہیکل کی مخصوصیت اور یروشلیم کی فصیل کی تعمیر کی حمایت کی۔ عزرا 7باب10 آیت تورات کی تعلیمات کے مطابق برادری کی تشکیل کو بیان کرتا ہے۔ عزرا کا مقصد تورات کی تعلیمات کو نافذ کرنا تھا اور اُس بے نقص کہانت اورفِقہ کی اسناد نے اُسے ایک مثالی قائد بنا دیا تھا۔
عزرا کی کتاب کا آغاز وہیں سے ہوتا ہے جہاں پر تواریخ کی دوسری کتاب کا اختتام ہوتا ہے۔ فارس کے بادشاہ خورس نے ایک فرمان جاری کیا جس میں اُس کی بادشاہت کے اندر موجود یہودیوں کو ستر سال کی اسیری کے بعد یروشلیم واپس چلے جانے کی اجازت دی گئی تھی۔ خُدا آفاقی طور پر خودمختار ہے اور وہ اپنے لوگوں کی رہائی کو ممکن بنانے کے لیے فارس کے ایک غیر ایماندار بادشاہ کو بھی استعمال کر سکتا ہے۔ اُس نے ایک اور فارسی بادشاہ ارتخششتا کو استعمال کیا کہ وہ اُس سارے سفر کے اخراجات اور عزرا کے ذریعے لوگوں کو شریعت کی تعلیم دینے کا انتظام کرے۔ اِسی بادشاہ نے نحمیاہ کی بھی مدد کی تھی کہ وہ خُدا کے شہرِ مقدس کے احترام کو کسی حد تک بحال کرے۔
عزرا کی موثر خدمت میں خُدا کے کلام کی تعلیم دینا، اصلاحات کا آغاز کرنا، عبادت کی بحالی اور یروشلیم میں رُوحانی احیاء کی قیادت کرنا شامل تھا۔ اِن اصلاحات نے قومی ساکھ اور عوامی تشخص کے لیے فکرمندی کو مزید بڑھا دیا ۔ خستہ حال فصیل والے شہر میں رہنے والے لوگوں کے بارے میں دُنیا کیا سوچتی ہوگی؟خُدا کے اُن لوگوں کا عام دُنیا کے لوگوں سے کیا فرق ہوگا جو خُدا کے ساتھ عہد میں نہ بندھے ہوئے غیر قوم کے لوگوں کے ساتھ شادیاں کرنے کے مرتکب تھے؟نحمیاہ اور عزرا اُس وقت خُدا کے لوگوں کی حوصلہ افزائی کر رہے تھے کہ وہ عبادت کو اوّلین ترجیح قراردیں ، خُدا کے کلام کو زندگی گزارنے کے لیے واحد مستند اصول کے طور پر استعمال کرنے کی ضرورت پر زور دیں اور اُس تصویر کے بار ےمیں فکرمند رہیں جو خُدا کے لوگوں کی دُنیا کو نظر آتی ہے۔
عزرا بابل کی اسیری سے اِس توقع کے ساتھ واپس آیا تھا کہ وہ خُوشی کے ساتھ خُدا کی خدمت کرنے والے لوگوں کو پائے گا لیکن جب وہ یروشلیم آیا تو اُسے صورتحال بالکل اِس کے برعکس ملی۔ وہ مایوس اور غمگین تھا۔ اُس کا دِل دُکھی تھا، لیکن اِس کے باوجود اُس نے خُداوند پر بھروسہ کیا۔ اُس نے اپنے آپ کو موردِ الزام ٹھہرایا کہ وہ لوگوں کے دِلوں کو تبدیل نہیں کر سکا تھا اور اُس نے خُدا سے التجا کی کہ وہ اُس ساری صورتحال کو تبدیل کر دے۔ وہ چاہتا تھا کہ لوگ جانیں کہ خُدا کا کلام کس قدر اہم اور ضروری ہے۔ کسی بھی چیز کی وجہ سے خُدا کی پرستش اور عبادت کو ختم نہیں ہونا چاہیے اور خُدا کے احکامات کی فرمانبرداری اختیاری نہیں ہے ۔ قادرِ مطلق خُدا اپنے بچّوں کی نگہبانی اور حفاظت کرتا ہے، ہمیشہ اپنے وعدوں کو پورا کرتا ہے اور جن لوگوں کو وہ بھیجتا ہے اُن کے ذریعے سے وہ اپنے لوگوں کی حوصلہ افزائی کرتا ہے (عزرا 5باب1-2 آیات)۔ یہاں تک کہ جب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اُس کے منصوبوں میں خلل پڑ گیا ہے تو بھی خُدا اپنے منصوبوں کو جاری رکھنے کے لیے مناسب وقت پر اقدامات کرتا ہے۔
خُدا ہماری زندگیوں میں اُتنا ہی قریب اور ملوث ہے جتنا کہ وہ عزرا کی زندگی میں تھا اور عزرا کی طرح ہم بھی بعض اوقات ناممکن کام کرنے کے قابل ہو جاتے ہیں۔ عزرا نے ناممکن کام کیا کیونکہ خُداوند اُسکے خُدا کا ہاتھ اُس پر تھا(عزرا 7باب9 آیت)۔ ہر ایک ایماندار ایک زندہ ہیکل ہے (1 کرنتھیوں 6باب19 آیت) جس میں رُوح القدس بسا ہوا ہے۔ عزرا کے دور میں مخالف قوتیں وہ لوگ تھے جن کے دِلوں میں بُرائی تھی۔ آج ہماری مسیحیوں زندگیوں میں مخالف قوت بُرائی کا سرچشمہ ابلیس، یعنی شیطان خود ہےجو ہمیں تباہ کرنےا ور اِس طرح سے خُدا کی ہیکل کو تباہ کرنے کے لیے آیا ہے (یوحنا 10باب10 آیت)۔ ہمارے مقاصد ہماری اپنی نظر میں اور خُدا کی نظر میں قابلِ قدر ہونے چاہییں۔ اگر خُدا وند کا ہاتھ ہم پر ہو تو ہمارے کل کے غم آج کی کامیابیاں بن سکتے ہیں۔ عزرا کا مقصد خُدا کی نظر میں قابلِ قدر تھا اور اُس نے واپس آنے والے یہودیوں کے غم اور دُکھ کو بڑے موثر طریقے سے شہر کی تعمیرِ نو اور عبادت کی بحالی کی کامیابی کے لیے استعمال کیا۔
English
بائبل میں مذکور عزرا کون تھا؟