سوال
بائبل میں مذکور ابرہام کون ہے؟
جواب
موسیٰ کے علاوہ پرانے عہد نامے کے کسی کردار کا نئے عہد نامے میں ابرہام سے زیادہ دفعہ ذکر نہیں کیا گیا ہے۔ یعقوب نے ابرہام کو "خُدا کا دوست" کہا ہے (یعقوب 2باب23 آیت،یہ ایک ایسا لقب ہے جسے کلامِ مُقدس کے اندر کسی بھی اور شخص کے لیے نہیں استعمال کیا گیا۔ ہر دور کے ایمانداروں کو "ابرہام کی اولاد" (گلتیوں 3باب7 آیت) کہا گیا ہے۔ تاریخ میں ابرہام کی اہمیت اور اثر و رسوخ کو واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔
پیدایش 11باب 26 آیت میں ابرہام کے پہلی دفعہ کئے جانے والے ذکر سے لیکر پیدایش 25باب8 آیت میں اُس کی وفات تک کا بیان پیدایش کی کتاب کے ایک اچھے خاصے حصے پر محیط ہے۔ لیکن ہم ابرہام کی پیدایش اور اُس کی ابتدائی زندگی کے بارے میں بہت کم جانتے ہیں۔ جب ہم پہلی بار ابرہام سے ملتے ہیں تو اُس کی عمر 75 ساتھ ہو چکی تھی۔ پیدایش 11باب28 آیت میں درج ہے کہ ابرہام کا باپ تارحؔ میسوپتامیہ کے ایک بااثر شہر اُر میں رہتا تھا جو دریائے فرات پر خلیج فارس کے دہانے اور موجودہ شہر بغداد کےقریباً آدھے راستے کے درمیان میں واقع تھا ۔ ہم یہ بھی سیکھتے ہیں کہ تارحؔ نے کنعان میں جانے کے لیے اُر شہر کو چھوڑ دیا تھا لیکن کنعان کی سر زمین میں جانے کی بجائے وہ راستے میں شمالی میسوپتامیہ کے شہر حاران میں آباد ہو گیا تھا (جو کہ قدیم بابل سے نینوہ اور دمشق کے درمیان آدھے راستے پر تجارتی شاہراہ تھا)
ابرہام کی کہانی پیدایش 12 باب کے آغاز میں واقعی دلچسپ ہو جاتی ہے۔ پہلی تین آیتوں کے اندر ہم خُدا کی طرف سے ابرہام کی بلاہٹ کو دیکھتے ہیں جہاں پر خُداوندنے ابرہام سے کہا کہ " تُو اپنے وطن اور اپنے ناتے داروں کے بیچ سے اور اپنے باپ کے گھر سے نِکل کر اُس مُلک میں جا جو مَیں تجھے دِکھاؤں گا۔اور مَیں تجھے ایک بڑی قَوم بناؤں گا اور برکت دُوں گا اور تیرا نام سرفراز کرُوں گا ۔ سو تُو باعِث ِبرکت ہو!۔جو تجھے مُبارک کہیں اُن کو مَیں برکت دُوں گا اور جو تجھ پر لعنت کرے اُس پر مَیں لعنت کرُوں گا اور زمین کے سب قبیلے تیرے وسیلہ سے برکت پائیں گے " (پیدایش 12باب1-3 آیات)۔
پھر خُدا ابرہام کو حاران میں سے بلاتا ہے اور کہتا ہے کہ وہ اُس سر زمین میں جائے جو خُدا اُسے دکھائے گا۔ اور خُدا اُس وقت ابرہام سے تین وعدے بھی کرتا ہے : (1)اُس کی اپنی سرزمین کا وعدہ ؛ (2) اُسے ایک عظیم قوم بنانے کا وعدہ؛ (3) اُسے برکت دینے کا وعدہ ۔ یہ وعدے اُس عہد کی بنیاد ہیں جسے بعد میں ابراہیمی عہد کہا گیا (یہ عہد پیدایش 15باب میں قائم کیا گیا اور 17باب میں اُس کی توثیق کی گئی )۔ جو چیز حقیقت میں ابرہام کو خاص بناتی ہے وہ اُس کی طرف سے خُدا کے حکم کی فرمانبرداری ہے۔ پیدایش 12باب4 آیت میں درج ہے کہ جب خُدا نے ابرہام کو اُس کے وطن میں سے بلایا تو "ابراؔم خُداوند کے کہنے کے مطابق چل پڑا " عبرانیوں کا مصنف کئی بار ابرہام کو ایمان کی مثال کے طور پر استعمال کرتا ہے اور خاص طور پر اِس متاثر کن عمل کی طرف اشارہ کرتا ہے: "اِیمان ہی کے سبب سے ابرہا ؔم جب بُلایا گیا تو حکم مان کر اُس جگہ چلا گیا جسے مِیراث میں لینے والا تھا اور اگرچہ جانتا نہ تھا کہ مَیں کہاں جاتا ہُوں تَو بھی روانہ ہو گیا "(عبرانیوں 11باب8 آیت)۔
ہم میں سے کتنے لوگ ہر اُس چیز کو پیچھے چھوڑ جائیں گے جسے ہم جانتے ہیں اوراپنی منزل کے بارے میں کچھ بھی جانے بغیر چلتے جائیں گے؟ابرہام کے دور میں جینے والے کسی بھی شخص کے لیے خاندان کا تصور ہی سب کچھ تھا۔ اُس دور میں خاندانی اکائیاں باہمی طور پر مضبوطی کے ساتھ بُنی ہوئی تھیں، اور اُس دور میں خاندان کے کچھ افراد کا باقی خاندان کو چھوڑ کر سینکڑوں میل دور چلے جانا بہت ہی غیر معمولی بات تھی۔ اِس کے علاوہ ہمیں ابرہام اور اُس کے خاندان کی مذہبی زندگی کے بارے میں اُس کی بلاہٹ سے پہلے کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ اُر اور حاران کے لوگ بابلی دیوتاؤں کے کئی گروہوں کی پوجا کرتے تھے، خاص طور پر چاند دیوتا نانار/سِن کی۔ چنانچہ خُدا نے ابرہام کو ایک بُت پرست معاشرے میں سے بلایا۔ ابرہام یہواہ خُدا کی بلاہٹ کو جانتا اور پہچانتا تھا، اور اُس نے ہچکچاتے ہوئے نہیں بلکہ خوشی کے ساتھ اُس کی فرمانبرداری کی۔
ابرہام کی ایماندارانہ زندگی کی ایک اور مثال اُس کے بیٹے اضحاق کی پیدایش میں نظر آتی ہے۔ ابرہام اور سارہ بے اولاد تھے (اُس ثقافت میں بے اولاد ہونا بہت زیادہ شرمندگی کی بات تھی۔ لیکن خُدا نے وعدہ کیا کہ وہ ابرہام کو اولاد عطا کرے گا (پیدایش 15باب4 آیت)۔ابرہام کا یہ بیٹا اُس کی وسیع و عریض ملکیت اور مال و دولت کا جس سے خُدا نے اُسے نوازا تھا وارث ہوگا اور سیؔت کی خُدا پرست نسل کا تسلسل ہوگا۔ ابرہام خُدا کے وعدے پر ایمان لایا اور اُس کے ایمان کو اُس کے حق میں راستبازی شمار کیا گیا (پیدایش 15باب6 آیت)۔ خُدا نے ابرہام سے اپنے عہد کی دہرائی پیدایش 17 باب کے اندر کی اور اُس کے ایمان کو پیدایش 21 باب میں اضحاق کی پیدایش کے وسیلے سے نوازا گیا تھا۔
ابرہام کے ایمان کو اُس کے بیٹے اضحاق کے ذریعے سے آزمایا گیا ۔ پیدایش 22 باب کے اندر خُدا نے ابرہام کو حکم دیا کہ وہ کوہِ موریاہ پر اپنے بیٹے اضحاق کو قربان کر دے۔ ہم نہیں جانتے کہ باطنی طور پر ابرہام نے اِس حکم پر کیا رَد عمل ظاہر کیا۔ ہم تو صرف یہ دیکھتے ہیں کہ ابرہام اُس خُدا کی وفاداری سے تابعداری کر رہا تھا جو اُس کی سِپر تھا (پیدایش 15باب1 آیت)، اور جو اُس مقام تک اُس کے ساتھ غیر معمولی حد تک مہربان اور بھلا تھا۔ ابرہام نے یہاں پر بھی خُدا کے حکم کی اُسی طرح تابعداری کی جیسے کہ اُس نے پہلے اپنے گھر بار اور ناطے داروں کو چھوڑنے کے حوالے سے خُدا کے حکم کی تابعداری کی تھی (پیدایش 22باب3 آیت)۔ ہم جانتے ہیں کہ کہانی کا اختتام خُدا کی طرف سے ابرہام کو اضحاق کی قربانی دینے سے روکنے کے ساتھ ہوا، لیکن تصور کریں کہ اُس سارے عمل کے دوران ابرہام کے احساسات کیسے ہونگے۔ اُس نے اپنے اُس بیٹے کے لیے دہائیوں تک انتظار کیا تھا اور اب جب کہ خُدا نے اُسے وہ بیٹا دیا تھا تو خُدا خود ہی اُسے واپس لے رہا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ ابرہام کا خُدا پر ایمان اُس کی اپنے بیٹے کے لیے محبت سے زیادہ تھا۔ اور اُس نے اِس با ت پر بھروسہ کیا کہ اگر اُس نے خُدا کے لیے اضحاق کو قربان کر بھی دیا تو بھی خُدا اُسے مُردوں میں سے واپس لانے پر قادر ہے (عبرانیوں 11باب17-19 آیات)۔
یقینی طور پر ابرہام کی زندگی میں ناکامی اور گناہ جیسے بھی لمحات تھے (جیسے کہ ہم سب کی زندگی میں ہوتے ہیں، اور بائبل اُنہیں بیان کرنے سے کبھی بھی نہیں ہچکچاتی ۔ ہم کم از کم دو ایسے مواقع کے بارے میں جانتے ہیں جن میں ابرہام نے سارہ کے ساتھ اپنے تعلق کے حوالے سے جھوٹ بولاتاکہ ممکنہ طور پردشمن کی سرزمین میں اپنے آپ کو محفوظ رکھ سکے (پیدایش 12باب10-20 آیات؛ 20باب1-18 آیات)۔ اِن دونوں واقعات کے اندر خُدا نے ابرہام کے ایمان کی کمی کے باوجود اُس کی حفاظت کی اور اُسے برکت دی۔ ہم یہ بھی جانتے ہیں کہ بچّہ نہ ہونے کی مایوسی ابرہام اور سارہ پر غالب آ جاتی ہے۔ سارہ نے ابرہام کو مشورہ دیا کہ وہ اُس کی لونڈی سارہ کے پاس جائے اور اُس سے اولاد پیدا کرے۔ابرہام نے سارہ کی بات مانی (پیدایش 16 باب 1-15 آیات)۔ اسمٰعیل کی پیدایش نہ صرف ابرہام کی طرف سے حماقت اور ایمان کی کمی کا اظہار کرتی ہے ، لیکن یہ اِس کے ساتھ ساتھ(اسمٰعیل کی پیدایش کو ممکن بنانے اور اُسے برکت دینے میں ) خُدا کے فضل کا بھی اظہار کرتی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اُس وقت تک ابرہام اور سارہ ، ابرام اور ساری کہلاتے تھے۔ لیکن جب اسمٰعیل کی عمر تیرہ سال ہوئی تو خُدا نے ابرام کو ختنے کے عہد کے ساتھ ایک نیا نام دیا اورساری کے ذریعے سے جسے خُدا نے ابرہام کی طرح ایک نیا نام دیا تھااُسے ایک بیٹا دینے کے وعدے کی تجدید کی (پیدایش 17باب)۔ ابرام بمعنی "بلند درجہ باپ" کو تبدیل کر کے اُس کانام "ابرہام" رکھا گیا جس کے معنی ہیں "جتھوں یا ہجوموں کا باپ"۔ یقینی طور پر ابرہام کی اور بھی کئی جسمانی اولادیں تھیں اور یسوع مسیح کے وسیلے خُدا پر ایمان لانے والے سب ابرہام کے رُوحانی وارث شمار کئے جاتے ہیں (گلتیوں 3باب29 آیت)۔ اِس "ایمانداروں کے باپ" کی زندگی میں بھی شک اور تشویش کے اوقات کار تھے، لیکن اب بھی وہ انسانوں کے اندر سربلند اور ایماندار زندگی کی ایک اعلیٰ مثال ہے۔
ابرہام کی زندگی سے ایک بہت ہی واضح سبق جو ہم سیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ہمیں ایمان سے بھرپور زندگی گزارنی چاہیے۔ ابرہام اپنے بیٹے اضحاق کو کوہِ موریاہ پر اِ س لیے لے جا سکا کیونکہ وہ جانتا تھا کہ خُدا اپنے وعدے پورے کرنے میں وفادار ہے۔ ابرہام کا ایمان اندھا ایمان نہیں تھا۔ اُس کا ایمان ایک ایسی ذات پر طے شُدہ یقین دہانی اور بھروسہ تھا جس نے خود کو وفادار اور سچا ثابت کیا تھا۔ اگر ہم اپنی زندگیوں پر نظر ڈالیں تو ہم اِس کے ہر ایک حصے میں واضح طور پر خُدا کی دستگیری کو دیکھ سکتے ہیں۔ خُدا کو ہمار ی زندگیوں میں فعال ہونے کے لیے ہمارے پاس فرشتوں کے ساتھ آنے، کسی جلتی ہوئی جھاڑی سے ہمارے ساتھ کلام کرنے یا سمندر کو دو حصوں میں تقسیم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ خُدا ہماری زندگی کی نگرانی اور منصوبہ بندی کرتا ہے۔ بعض دفعہ ہمیں ایسا نہیں لگتا لیکن ابرہام کی زندگی اِس بات کا ثبوت ہے کہ ہماری زندگیوں میں خُدا کی موجودگی حقیقی ہے۔ یہاں تک کہ ابرہام کی ناکامیاں بھی اِس بات کا اظہار کرتی ہیں کہ خُدا ہمیں ہمارے گناہوں کے واضح نتائج سے محفوظ نہ رکھتے ہوئے بھی ہمارے اندر اور ہمارے ذریعے سے اپنی مرضی سے کام کرتا ہے ، اور ہماری طرف سے کیا گیا کوئی بھی کام اُس کے منصوبوں کو ناکام نہیں بنا سکتا۔
ابرہام کی زندگی ہمیں سادہ تابعداری کی برکت کو بھی دکھاتی ہے۔ جب ابرہام سے کہا گیا کہ وہ اپنے خاندان اور رشتے داروں میں سے نکل جائے تو ابرہام نے خُدا کے حکم کی تعمیل کی ۔ جب اُسے خُدا کی طرف سے اضحاق کو قربان کرنے کو کہا گیا تو وہ "اگلی صبح سویرے اُٹھا" تاکہ ایسا کر سکے۔ بائبل مُقدس کے بیان سے ہم جو کچھ سیکھ سکتے ہیں اُس سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ابرہام کی طرف سے خُدا کے حکم کی تابعداری کرنے میں کوئی بھی ہچکچاہٹ نہیں ہوئی تھی۔ ہم میں سے اکثر لوگوں کی طرح ابرہام نے بھی اُن فیصلوں پر تکلیف کا اظہار کیا ہوگا، لیکن جب عمل کرنے کا وقت آیاتو اُس نے عمل کیا۔ جب ہم خُداوند کی طرف سے سچی بلاہٹ پاتے ہیں یا اُس کی کسی ہدایت کو اُس کے کلام میں پڑھتے ہیں تو ہمیں اُس پر ضرور عمل کرنا چاہیے۔ جب خُدا کسی چیز کا حکم دیتا ہے تو اُس کی تابعداری کرنا اختیاری معاملہ نہیں رہتا۔
ابرہام کی زندگی سےہمیں یہ بھی دیکھنے کو ملتا ہے کہ خُدا کے ساتھ ایک فعال تعلق کیسا لگتا ہے۔ اگرچہ ابرہام نے خُدا کے حکم کی فوری تابعداری کی لیکن اُس نے خُدا سے سوال پوچھنے سے گریز نہیں کیا تھا۔ ابرہام اِس بات پر ایمان لایا کہ خُدا اُسے اور سارہ کو ایک بیٹا دے گا لیکن وہ اِس بات پر حیران تھا کہ یہ سب کس طرح ہو سکتا ہے (پیدایش 17باب17-23 آیات)۔ پیدایش 18 باب کے اندر ہم ابرہام کی طرف سے سدوم اور عمورہ کے لیے خُدا سے شفاعت کا احوال پڑھتے ہیں۔ ابرہام نے اِس بات کا اقرار کیا کہ خُدا پاک اور انصاف کرنے والا ہے اور ابرہام نہیں سمجھتا تھا کہ خُدا ناراستوں کے ساتھ راست بازوں کو بھی ہلاک کر دے گا۔ اُس نے خُدا سے التجا کی کہ وہ پچاس راستبازوں کی خاطر اُن گناہ آلود شہروں کو تباہ نہ کرے، اور پھر وہ کہتے کہتے دس راستبازوں کی تعدار تک آ گیا ۔ بالآخر دیکھا گیا کہ سدوم میں دس راستباز بھی نہیں تھے، لیکن خُدا نے ابرہام کے بھتیجے لوط اور اُس کے خاندان کو بچا لیا۔ (پیدایش 19 باب)۔ یہ بھی دلچسپ بات ہے کہ خُدا ابرہام کے سامنے اپنے منصوبوں کو منکشف کرتا ہے اور وہ ابرہام کی طرف سے پوچھے جانے والے سوالات سے حیران بھی نہیں ہوتا۔ ابرہام کی مثال یہاں پر ہمیں دکھاتی ہے کہ خُدا کے ساتھ اُس کے منصوبوں کے بارے میں بات چیت کرنا، دوسروں کے لیے شفاعت کرنا، خُدا کے عدل و انصاف پر بھروسہ کرنا اور اُس کی مرضی کے تابع ہونا کیسا ہوتا ہے۔
ابرہام کی طرف سے ایما ن کے تعلق سے کوتاہیاں ، خاص طور پر ابرہام کے ہاجرہ اوراسمٰعیل کے ساتھ معاملات کے حوالے سے ہم پر اِس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ معاملات کواپنے ہاتھوں میں لینے کی حماقت کیسی ہوتی ہے۔ خُدا نے وعدہ کیا تھا کہ وہ سارہ کے ذریعے سے اُسے ایک بیٹا بخشے گا لیکن اُن کی طرف سےابرہام کے لیے وارث پیدا کرنے کی بے صبری اُنہی کے لیے نقصان کا سبب بنی۔ سب سے پہلے تو سارہ اور ہاجرہ کے درمیان تنازعے نے جنم لیا اور بعد میں اسمٰعیل اور اضحاق کے درمیان تنازعہ پیدا ہوا۔ اسمٰعیل کی اولاد خُدا کے لوگوں کے لیے بہت سخت دشمن بن گئی ، جیسا کہ ہم بعد میں پرانے عہد نامے کے بیان میں پڑھتے ہیں۔ اور اِسی طرح اسرائیل اور اُس کے عرب ہمسایوں کے درمیان تنازعات آج کے دن تک جاری ہیں۔ ہم اپنی طاقت سے خُدا کی مرضی کو پورا نہیں کر سکتے، خُدا کے بغیر مسائل کو حل کرنے کی ہماری کوششیں اُنہیں حل کرنے کی بجائے مزید بگاڑ دیتی ہیں۔ اِس سبق کا اطلاق ہماری زندگیوں میں بہت زیادہ وسیع پیمانے پر ہوتا ہے۔ اگر خُدا نے کچھ کرنے کا وعدہ کیا ہے تو ہمیں وفاداری کے ساتھ صبر کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور خُدا کے مقررہ وقت پر اُس کام کے پورا ہونے کا اانتظار کرنا چاہیے۔
علمِ الٰہیات کی رُو سے دیکھا جائے تو ابرہام کی زندگی "صرف ایمان/Sola Fide" کی ایک زندہ مثال ہے۔ پولس رسول دو بار ابرہام کی ذات کو اِس اہم عقیدے کی تعلیم دینے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ رومیوں کے نام خط کے اندر پورے چوتھے باب میں ابرہام کی زندگی کی تصویر کشی کی مدد سے ایمان کے وسیلے راستباز ٹھہرائے جانے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اِسی طرح کی دلیل گلتیوں کے نام خط کے اندر بھی دی گئی ہے جہاں پر پولس ابرہام کی زندگی سے اِس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ غیر اقوام بھی یہودیوں کے ساتھ ایمان کے وسیلے سے ابرہام کی برکت کی وارث ہیں (گلتیوں 3باب6-9، 14، 16،18، 29 آیات)۔ اور یہ سب کچھ پیدایش 15باب6 آیت کے ساتھ جُڑا ہوا ہے جہاں پر مرقوم ہے کہ "اور وہ خُداوند پر اِیمان لایا اور اِسے اُس نے اُس کے حق میں راست بازی شُمار کِیا۔ " خُدا کی نظر میں اُس کے وعدوں پر ابرہام کا ایمان ہی اِس بات کے لیے کافی تھا کہ وہ اُسے راستباز قرار دے اور یوں رومیوں 3باب28 آیت میں بیان کردہ اصول کو ثابت کرے۔ ابرہام نے راستبازی کمانے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا تھا، اُس کے لیے خُدا پر اُس کا بھروسہ ہی کافی تھا۔
ہم پرانے عہد نامے کے آغاز میں خُدا کے فضل کے کاموں کو دیکھتے ہیں۔ انجیل خُداوند یسوع کی زندگی اور موت سے شروع نہیں ہوتی، بلکہ یہ پیدایش کی کتاب سے شروع ہوتی ہے۔ پیدایش 3باب15 آیت میں خُدا نے وعدہ کیا تھا کہ "عورت کی نسل" سے آنے والاسانپ کے سر کو کچلے ۔ ماہرینِ الٰہیات کا خیال ہے کہ بائبل میں یہ انجیل کا پہلا بیان ہے۔ پرانے عہد نامے کے باقی حصوں کی تاریخ سیؔت (پیدایش 4باب26 آیت) سے شروع ہونے والی وعدے کی نسل کے ذریعے سے فضل کی انجیل کا پیغام باقی دُنیا کے اندر پھیلتا ہے ۔ ابرہام کی بلاہٹ نجات کی کہانی کا ایک اور ٹکڑا تھا۔ پولس رسول ہمیں بتاتا ہے کہ اور کِتابِ مُقدّس نے پیشتر سے یہ جان کر کہ خُدا غیر قَوموں کو اِیمان سے راست باز ٹھہرائے گا پہلے ہی سے ابرہا ؔم کو یہ خُوشخبری سُنادی کہ تیرے باعث سب قَومیں برکت پائیں گی" (گلتیوں 3باب8 آیت)۔
ایک اور چیز جو ہم ابرہام کی زندگی سے سیکھتے ہیں وہ یہ ہے کہ ایمان کوئی موروثی چیز نہیں ہے۔ متی 3باب9 آیت، لوقا 3باب8 آیت اور یوحنا 8باب39 آیت میں ہم سیکھتے ہیں کہ نجات پانے کے لیے محض جسمانی طور پر ابرہام کی نسل سے ہوناکافی نہیں ہے۔ ہمارے لیے اِس کا اطلاق یہ ہے کہ محض مسیحی گھرانے میں پیدا ہونا اور پرورش پانا ہی کافی نہیں ہے۔ ہم کسی اور شخص کے ایمان کی بنیاد پر خُدا کے ساتھ رفاقت اور اُس کی بادشاہی میں داخلہ حاصل نہیں کر سکتے۔ خُداہمیں اِس لیے نجات دینے پر پابند نہیں کہ ہم کسی بے عیب مسیحی نسل سے تعلق رکھتے ہیں ۔ پولس اِس بات کی تصویر کشی کرنے کے لیے رومیوں 9باب میں ابرہام کی ذات کو استعمال کرتا ہے جہاں پر وہ کہتا ہے کہ وہ سبھی جو ابرہام کی نسل سے ہیں اُن کا نجات کے لیے چناؤ نہیں ہوا تھا۔ بلکہ نجات اُس ایمان کی بنیاد پر حاصل ہوتی ہے جو ایمان ابرہام رکھتا تھا۔
آخر میں ہم دیکھتے ہیں کہ یعقوب ابرہام کی زندگی کو ایک تمثیل کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کہتا ہے کہ ایمان بغیر اعمال کے مُردہ ہے (یعقوب 2باب21 آیت)۔ اور اِس بات کو سمجھانے کے لیے وہ جس مثال کو استعمال کرتا ہے وہ موریاہ کے پہاڑ پر ابرہام اور اضحاق کی کہانی ہے۔ انجیل کی سچائیوں پر محض رضامندی کو ظاہر کرنا ہمیں نجات دینے کے لیے کافی نہیں ہے۔ ایمان کے نتیجے میں تابعداری کے اچھے کام ہونے چاہییں جو زندہ ایمان کا اظہار کرتے ہیں۔ وہ ایمان جو ابرہام کے خُدا کے نزدیک راستباز ٹھہرائے جانے کے لیے کافی تھا (پیدایش 15باب ) دراصل وہی ایمان تھا جس نے اُسے تحریک بخشی کہ وہ خُدا کے حکم کی تعمیل کرنے کے لیے اپنے بیٹےاضحاق کو قربان کرے ۔ ابرہام کو اُس کے ایمان نے راستباز ٹھہرایا اور اُسکے کاموں نے اُس کے ایمان کا ثبوت دیا۔
آخری تجزیے میں ہم دیکھتے ہیں کہ ابرہام کی ذات ایک مثالی شخصیت تھی ، اُس کی پاکبازی یا کامل زندگی کی بدولت نہیں (جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے کہ اُس کی ذات میں بھی کئی کمزوریاں تھیں)، بلکہ اِس لحاظ سے کہ اُس کی زندگی مسیحی زندگی کی بہت سی سچائیوں کو واضح کرتی ہے۔ خُدا نے ابرہام کو زمین کے کروڑوں لوگوں کے لیے اپنی برکت کا ذریعہ قرار دیا۔ خُدا نے نجات کی اُس کہانی کی تکمیل کے اندرابرہام کو ایک اہم کردار ادا کرنے کے لیے استعمال کیا جس کا اختتام خُداوند یسوع کی پیدایش پر ہوا۔ ابرہام خُدا کے وعدوں پر ایمان اور اُمیدکی ایک زندہ مثال ہے (عبرانیوں 11باب8-10 آیات)۔ ہماری زندگیا ں اِس طرح سے گزرنی چاہییں کہ جب ہم اپنی زندگیوں کے اختتام پر پہنچیں تو ابرہام کی طرح ہمارا ایمان بھی دوسروں کے لیے ایک پائیدار میراث کے طور پر قائم رہے۔
English
بائبل میں مذکور ابرہام کون ہے؟