سوال
کیا مسیحیوں پر ملک کے قوانین کی پابند ی کرنا لازم ہے؟
جواب
رومیوں 13باب 1- 7آیات بیان کرتی ہیں "ہر شخص اعلیٰ حکومتوں کا تابِع دار رہے کیونکہ کوئی حکومت اَیسی نہیں جو خُدا کی طرف سے نہ ہو اور جو حکومتیں موجود ہیں وہ خُدا کی طرف سے مُقرر ہیں۔ پس جو کوئی حکومت کا سامنا کرتا ہے وہ خُدا کے اِنتظام کا مُخالف ہے اور جو مُخالف ہیں وہ سزا پائیں گے۔ کیونکہ نیکوکار کو حاکموں سے خوف نہیں بلکہ بدکار کو ہے ۔ پس اگر تُو حاکم سے نڈر رہنا چاہتا ہے تو نیکی کر ۔ اُس کی طرف سے تیری تعرِیف ہو گی۔ کیونکہ وہ تیری بہتری کے لئے خُدا کا خادِم ہے لیکن اگر تُو بدی کرے تو ڈر کیونکہ وہ تلوار بے فائدہ لئے ہُوئے نہیں اور خُدا کا خادِم ہے کہ اُس کے غضب کے مُوافق بدکار کو سزا دیتا ہے۔ پس تابِع دار رہنا نہ صرف غضب کے ڈر سے ضرور ہے بلکہ دِل بھی یہی گواہی دیتا ہے۔ تُم اِسی لئے خراج بھی دیتے ہو کہ وہ خُدا کے خادِم ہیں اور اِس خاص کام میں ہمیشہ مشغول رہتے ہیں۔ سب کا حق ادا کرو ۔جس کو خراج چاہئے خِراج دو۔ جس کو محصول چاہئے محصول ۔ جس سے ڈرنا چاہئے اُس سے ڈرو ۔ جس کی عزّت کرنا چاہئے اُس کی عزّت کرو"۔
یہ آیات مکمل طور پر واضح کرتی ہیں کہ خدا نے جس حکومت کو ہم پر مقرر کیا ہے ہمیں اُس کے احکام کی پیروی کرنی چاہیے ۔ خدا نے ترتیب کو قائم رکھنے ، بدکار کو سزا دینے اور انصاف کے فروغ کے لیے حکو مت کے انتظام کو مقرر کیا تھا ( پیدایش 9باب 6آیت؛ 1کرنتھیوں 14باب 33آیت؛ رومیوں 12باب 8آیت)۔ ہمیں ٹیکس ادا کرنے ، اصولوں و قوانین پر عمل کر نے اور اُن کے احترام کا اظہار کرنے کے ہر معاملہ میں حکومت کے تابع رہنا ہے ۔ اگر ہم حکومت کی تابعدار ی نہیں کرتے تو اصل میں ہم خدا کے حکم کااحترام نہیں کرتے کیونکہ حکومت کو اُسی نے ہم پر مقرر کیا ہے ۔ جب پو لس رسول نے روم کی کلیسیا کے نام یہ خط لکھا تھا اُس وقت روم پر شہنشاہ نیرو حکومت کر رہا تھا جو روم کے قریباً سبھی شہنشاہوں میں سب سے زیادہ بُرا تھااور پولس خود بھی رُومی حکومت کے ماتحت تھا۔ اِس کے باوجود پولس رسول نے اپنے اُوپر لاگو رومی حکومت کو تسلیم کیا ،تو ہم کیوں نہیں کر سکتے ؟
دوسرا سوال یہ ہے کہ " کیا کوئی ایسا وقت بھی ہو سکتا ہے جب ہمیں دانستہ طور پر ملک کے قوانین کی پیروی نہیں کرنی چاہے ؟" شاید اِس سوال کا جواب اعمال 5باب 27- 29آیات میں موجود ہے "پھر اُنہیں لا کر عدالت میں کھڑا کر دِیا اور سردار کاہن نے اُن سے یہ کہا۔ کہ ہم نے تو تُمہیں سخت تاکید کی تھی کہ یہ نام لے کر تعلیم نہ دینا مگر دیکھو تُم نے تمام یروشلیم میں اپنی تعلیم پھیلا دی اور اُس شخص کا خُون ہماری گردن پر رکھنا چاہتے ہو۔ پطر س اور رسُولوں نے جواب میں کہا کہ ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خُدا کا حکم ماننا زیادہ فرض ہے"۔ اِ س حوالہ سے پوری طرح ظاہر ہو جاتا ہے کہ جب تک ملک کا قانون خدا کے قانون کی مخالفت نہیں کرتا ہم مُلک کے قانون پر عمل کرنے کے پابند ہیں۔ مگر جب مُلک کا قانون خدا کے قانون کی مخالفت کرتا ہے تو ہم اُس کی نا فرمانی کرنے اور خدا کے قانون پر عمل کرنے کے پابند ہیں ۔ بہرحا ل اِس حالت میں بھی ہمیں اپنے اُوپر حکومت کے اختیار کو تسلیم کرنا ہے ۔ اس بات کی وضاحت اِس حقیقت سے ہوتی ہے کہ جب پطر س اور یوحنا کو پٹوایا گیا تو اُنہوں نے احتجاج نہیں کیا تھا بلکہ وہ اس بات سے خوش ہوئے تھے کہ اُن کو خدا کی فرمانبرداری کےلیے مصیبت اُٹھانا پڑی ہے (اعمال 5باب 40-42آیات)۔
English
کیا مسیحیوں پر ملک کے قوانین کی پابند ی کرنا لازم ہے؟