settings icon
share icon
سوال

اِس کا کیا مطلب ہے کہ یسوع نے شر یعت کو منسوخ نہیں کیا بلکہ پورا کر دیا ہے؟

جواب


یسوع مسیح نے فرمایا ہے کہ "یہ نہ سمجھو کہ مَیں توریت یا نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے آیا ہوں ۔ منسوخ کرنے نہیں بلکہ پُورا کرنے آیا ہوں۔ کیونکہ مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک آسمان اور زمین ٹل نہ جائیں ایک نقطہ یا ایک شوشہ توریت سے ہرگز نہ ٹلے گا جب تک سب کچھ پُورا نہ ہو جائے" (متی5 باب 17-18 آیات)۔ ہمارے خُداوند کی طرف سے دیا گیا یہ بہت ہی اہم بیان اُس کے زمینی مشن کے بارے میں اور خُدا کے کلام کی خاصیت کے بارے میں ہمیں گہرافہم عطا کرتا ہے۔

خُداوند یسوع نے یہ اعلان کیا کہ وہ "توریت اور نبیوں کی کتابوں" کو کو منسوخ کرنے نہیں آیا، اور اُس کے اِس اعلان میں ایک کی بجائے دو بیانات پائے جاتے ہیں۔ یسوع کا یہ اعلان ظاہر کرتا ہے کہ اُس نے "کچھ کیا ہے" اور "کچھ نہیں کیاہے"۔ اِس کے ساتھ ساتھ یسوع نے خُدا کے کلام کی ابدی خاصیت پر بھی زور دیا ہے۔

یہاں پر یسوع ایک طرح سے اپنے عام معمولات سے ہٹ کر شریعت کے اختیار کو ثابت کرنے کے لیے کچھ کر رہا ہے۔ اِس کے باوجود کہ فریسی اُس پر کس کس طرح کے الزامات لگا رہے تھے وہ شریعت کو منسوخ کرنے نہیں آیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یسوع نے اپنے بیان کو جاری رکھتے ہوئے اُن لوگوں کو سراہا جو شریعت کی درست تعلیم دیتے ہیں اور اِس کا احترام کرتے ہیں: "پس جو کوئی اِن چھوٹے سے چھوٹے حکموں میں سے بھی کسی کو توڑے گا اور یہی آدمیوں کو سکھائے گاوہ آسمان کی بادشاہی میں سب سے چھوٹا کہلائے گالیکن جو اُن پر عمل کرے گااور اُن کی تعلیم دے گا وہ آسمان کی بادشاہی میں بڑا کہلائے گا۔" (متی 5 باب 19آیت)

اُن خصوصیات پر غور کریں جو خُداوند یسوع خُدا کے کلام کے ساتھ منسوب کرتا ہےجن کو اِس حوالے میں "توریت اور نبیوں کی کتابوں" کے طور پر بیان کیا گیا ہے:

‌أ. خُدا کا کلام ابدی ہے؛ یہ فطری دُنیا کے تباہ و برباد ہو جانے کے بعد بھی قائم رہے گا۔

‌ب. کلام کسی وجہ سے لکھا گیا اور اِس کا پورا ہونا لازمی ہے۔

‌ج. کلام لا محدود اختیار کا حامل ہے اور اِس کا کوئی نقطہ یا شوشہ بھی نہیں ٹلے گا۔

‌د. خُدا کا کلام پاک اور قابلِ اعتبار ہے اور یہ "جو بھی بات" کرتا ہے وہ ضرور پوری ہوگی۔

جس وقت یسوع پہاڑی وعظ دے رہا تھا اُس وقت کوئی بھی انسان یسوع کے خُدا کے کلام کے لیے جذبات اور خلوص پر سوال نہیں اُٹھا سکتا تھا۔

اِس بات پر غور کریں کہ یسوع نے اپنی خدمت کے دوران کیا نہیں کیا۔ متی 5 باب 17 آیت میں یسوع کہتا ہے کہ وہ توریت اور نبیوں کی کتابوں کو منسوخ کرنے نہیں آیا۔ دوسرے الفاظ میں یسوع کا یہ قطعی مقصد نہیں تھا کہ وہ کلام کو ختم کرے، اُسے منسوخ کرے یا اُسے کالعدم قرار دے کر رد کر دے۔ نبیوں نے جو کچھ بھی کہا وہ پورا ہوگا اور شریعت جس مقصد کے لیے دی گئی تھی وہ اُسے پورا کرنا جاری رکھے گی (یسعیاہ 55 باب 10-11 آیات)۔

اِس کے بعد غور کریں کہ یسوع نے اپنی خدمت کے دوران کیا کِیا ہے۔ خُداوند یسوع نے کہا ہے کہ وہ "شریعت اور نبیوں کی کتابوں" کو پورا کرنے آیا ہے۔ دوسرے الفاظ میں خُداوند یسوع کا مقصد کلامِ مُقدس کو قائم کرنا ، اِس کو ایک ٹھوس شکل دینا اور جو کچھ کلام میں لکھا ہوا ہے اُسے مکمل طور پر پورا کرنا تھا۔ "مسیح شریعت کا انجام ہے" (رومیوں 10 باب 4آیت)۔ نبیوں نے مسیحا کے بارے میں جو پیشن گوئیاں کی ہوئی تھیں اُن کو یسوع کی ذات میں دیکھا جا سکتا ہے؛ شریعت کا پاک معیار جسے کوئی بھی انسان پورا نہیں کر سکتا تھا وہ یسوع کی ذات میں کامل طور پر پورا ہوتا ہے؛ شریعت کے سخت ترین مطالبات کو اُس نے ذاتی طور پر مانا اور ہر طرح کی رسوماتی شریعت اُس کی ذات میں احسن ترین طریقے سے مکمل ہو گئی۔

خُداوند یسوع مسیح نے شریعت کو اِس طرح سے پورا کیا ہے کہ اپنی پہلی آمد کے دوران اُس نے مسیحا کے بارے میں کی جانے والے سینکڑوں پیشن گوئیوں کو بالکل مکمل طور پر پورا کیا ہے (مثال کے طور پر متی 1 باب 22 آیت؛ 13 باب 35 آیت؛ یوحنا 19باب36آیت؛ لوقا 24باب44آیت)۔ خُداوند یسوع مسیح نے شریعت کو کم از کم دو طریقوں سے پورا کیا ہے: ایک اُستاد کے طور پر اور شریعت پر عمل کرنےوالے کے طور پر۔ اُس نے لوگوں کو یہ تعلیم دی کہ وہ شریعت کی تعمیل کریں (متی 22 باب 35- 40 آیات؛ مرقس 1 باب 44 آیت)، اور اُس نے شریعت پر خود عمل کیا (یوحنا 8 باب 46 آیت؛ 1 پطرس 2 باب 22 آیت)۔ ایک کامل زندگی گزارنے کے وسیلے سے یسوع نے اخلاقی شریعت کو پورا کیا؛ اپنی کفارے کی موت کے وسیلے سے یسوع نے رسوماتی شریعت کو پورا کیا۔ یسوع پرانے مذہبی نظام کو تباہ کرنے کے لیے نہیں آیا تھا بلکہ اُس کی بنیاد پر نئی تعمیر کرنے کے لیے آیا تھا؛ وہ پرانے عہد کو مکمل کرتے ہوئے ختم کرنے اور نئے عہد کو شروع کرنے کے لیے آیا تھا۔

یسوع "شریعت اور نبیوں کی کتابوں" کو منسوخ کرنے نہیں بلکہ پورا کرنے آیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پرانے عہد کی تمام رسومات، تمام قربانیاں اور ہر طرح کی دیگر چیزیں دراصل " آیندہ کی اچھّی چیزوں کا عکس تھیں – اور اُن چیزوں کی اصلی صُورت نہیں تھیں" (عبرانیوں 10 باب 1 آیت)۔ خیمہ اجتماع اور ہیکل وہ مقدس مقامات تھے جن کو انسانی ہاتھوں کے ساتھ بنایا گیا لیکن اُن کو بنانے کا مقصد ہرگز یہ نہیں تھا کہ وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے قائم رہیں گی۔ وہ حقیقت میں "حقیقی پاک مکان کا نمونہ تھیں" (عبرانیوں 9 باب 24 آیت)۔ شریعت کے اندر پہلے سے ہی ایک خاص وقت مقرر تھا ، اُس نے مکمل ہو کر ختم ہو جانا تھا۔ اُس کے بیرونی قوانین"اصلاح کے وقت تک مقرر کئے گئے" تھے (عبرانیوں 9 باب 10 آیت)۔

شریعت اور نبیوں کی کتابوں کو پورا کرتے ہوئے یسوع نے ہمارے لیے ابدی نجات کا انتظام کیا۔ اِس کے بعد ابھی قربانیاں گزراننے کے لیے اور پاکترین مقام میں داخل ہونے کے لیے کاہنوں کی ضرورت قطعی طور پر نہیں رہی تھی (عبرانیوں 10 باب 8-14 آیات)۔ یسوع نے ہم سب کے لیے یہ کام ایک ہی بار کر دیا ہے۔ خُدا کے فضل کے وسیلے سے خُداوند یسوع مسیح پر ایمان رکھنے کے ذریعے ہم خُدا کے حضور راستباز ٹھہرائے جاتے ہیں: "اور اُس نے تُمہیں بھی جو اپنے قصوروں اور جسم کی نامختونی کے سبب سے مُردہ تھے اُس کے ساتھ زِندہ کِیا اور ہمارے سب قصور مُعاف کئے۔اور حکموں کی وہ دستاویز مٹا ڈالی جو ہمارے نام پر اور ہمارے خِلاف تھی اور اُس کو صلیب پر کیلوں سے جڑ کر سامنے سے ہٹا دِیا۔" (کلسیوں 2 باب 13-14آیات)

کچھ ایسے لوگ ہیں جو آج یہ دلیل دیتے ہیں کہ چونکہ یسوع نے شریعت کو "منسوخ" نہیں کیا تو پھر اِسکی تعمیل ابھی بھی ہونی چاہیے – اور شریعت پرانے عہد نامے کی طرح نئے عہد نامے کے مسیحیوں پر بھی اُسی طرح لاگو ہوتی ہے۔ لیکن پولس رسول اِس حوالے سے بالکل واضح ہے کہ یسوع مسیح پر ایمان رکھنے والا کوئی بھی شخص اب شریعت کے ماتحت نہیں ہے۔ "اِیمان کے آنے سے پیشتر شرِیعت کی ماتحتی میں ہماری نگہبانی ہوتی تھی اور اُس اِیمان کے آنے تک جو ظاہِر ہونے والا تھا ہم اُسی کے پابند رہے۔پس شرِیعت مسیح تک پہنچانے کو ہمارا اُستاد بنی تاکہ ہم اِیمان کے سبب سے راست باز ٹھہریں۔مگر جب اِیمان آ چکا تو ہم اُستاد کے ماتحت نہ رہے" (گلتیوں 3 باب 23-25آیات)۔ اِس وقت ہم موسیٰ کی شریعت کے ماتحت نہیں ہیں بلکہ "مسیح کی شریعت" کے ماتحت ہیں(گلتیوں 6 باب 2)۔

اگر موسیٰ کی شریعت آج بھی ہم پر لاگو ہے تو پھر اِس کا مطلب ہے کہ اِس کا مقصد ابھی تک پورا نہیں ہوا – یعنی شریعت ابھی تک پوری نہیں ہوئی۔ اگر شریعت اور پرانے عہد نامے کا وہ سارا مذہبی اور قانونی سلسلہ آج کے دن تک ہم پر لاگو ہے تو پھر یسوع یہ کہنے میں غلط تھا کہ وہ شریعت کو پورا کرنے آیا تھا اور اِس طرح سے تو صلیب پر دی گئی اُس کی قربانی بھی ہمیں نجات دینے کے لیے ناکافی تھی۔ خُداوند کا شکر ہے کہ یسوع نے ساری شریعت کو مکمل طور پر پورا کر دیا ہےا ور اُس نے اپنی راستبازی ہمیں ایک بالکل مفت تحفے کے طور پر عطا کی ہے۔ "تو بھی یہ جان کر کہ آدمی شرِیعت کے اَعمال سے نہیں بلکہ صرف یسو ع مسیح پر اِیمان لانے سے راست باز ٹھہرتا ہے خود بھی مسیح یسو ع پر اِیمان لائے تاکہ ہم مسیح پر اِیمان لانے سے راست باز ٹھہریں نہ کہ شرِیعت کے اَعمال سے ۔ کیونکہ شرِیعت کے اَعمال سے کوئی بشر راست باز نہ ٹھہرے گا" (گلتیوں 2باب16آیت)

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

اِس کا کیا مطلب ہے کہ یسوع نے شر یعت کو منسوخ نہیں کیا بلکہ پورا کر دیا ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries