settings icon
share icon
سوال

کیا مداخلت کرنے والے/ خلل ڈالنے والے/بن بلائے خیالات بھی گناہ ہیں ؟

جواب


قریباً ہر کوئی، کسی نہ کسی موقع پر مداخلت کرنے والے/خلل ڈالنے والے/ بن بلائے خیالات کا شکار رہا ہے۔ یہ غیر رضاکارانہ، ناپسندیدہ تصاویر، جملے یا محرکات انتہائی عام ہیں۔بچّوں یا جانوروں پر تشدد، نا مناسب جنسی تعلقات اور کفر کےخود ساختہ اور مداخلت آمیز خیالات انتہائی پریشان کن ہو سکتے ہیں، حتیٰ کہ اِن کی وجہ سے کچھ لوگوں اپنی نجات تک پر سوال اُٹھا دیتے ہیں۔ لیکن کیا وہ سبھی خیالات گناہ ہیں؟

خُدا ایسے مداخلت کرنے والے خیالات کی وجہ سے حیران نہیں ہے۔ وہ ہمارے تمام-دانستہ اور غیر دانستہ - خیالات کو جانتا ہے(139 زبور 2 آیت)۔ وہ انسانی ذہن کی کمزوری کو بھی جانتا ہے –" خُداوند اِنسان کے خیالوں کو جانتا ہے کہ وہ باطِل ہیں "( 94 زبور 11 آیت)۔ مداخلت کرنے والے کفر انگیز خیالات کے بارے میں سب سے بڑا خدشہ یہ ہوتا ہے کہ خُدا اُنہیں معاف نہیں کرے گا۔ خُدا جانتا ہے کہ شریر کفر انگیز کام کرتا ہے(10زبور 4 آیت)، لیکن خُدا ہمیشہ ہی معاف کرنے کے لیے تیار ہے –" شرِیر اپنی راہ کو ترک کرے اور بدکردار اپنے خیالوں کو اور وہ خُداوند کی طرف پِھرے اور وہ اُس پر رحم کرے گا اور ہمارے خُدا کی طرف کیونکہ وہ کثرت سے مُعاف کرے گا " (یسعیاہ 55باب7 آیت)۔ مزید برآں خُدا یک شریر دِل کے منصوبے اور عقیدے اور کسی کے دِل میں اچانک سے آ جانے والے لمحہ بھر کے خیال کے درمیان فرق سے اچھی طرح واقف ہے (1 تواریخ 28باب9 آیت)۔ " کیونکہ خُدا کا کلام زِندہ اور مُوثِر اور ہر ایک دو دھاری تلوار سے زِیادہ تیز ہے اور جان اور رُوح اور بند بند اورگُودے کو جُدا کر کے گُذر جاتا ہے اور دِل کے خیالوں اور اِرادوں کو جانچتا ہے " (عبرانیوں 4باب12 آیت)۔

خُدا نے ایسے مداخلت کرنے والے خیالات سے لڑنے کے لیے ہمیں ہتھیار عطا کئے ہیں ۔ 139 زبور 23-24 آیات ہماری حوصلہ افزائی کرتی ہیں کہ ہم اپنے دِلوں اور خیالوں کو خُدا کے تابع کر دیں۔ پھر وہ خود ہی اِس بات کا تعین کر سکتا ہے کہ کیا ہمارے دِلوں اور ذہنوں کے اندر کوئی ایسی نقصان دہ چیز ہے جس سے ہمیں نمٹنے کی ضرورت ہے۔ اگر ہمارے خیال واقعی ہی بلاوجہ اور بے ساختہ ہیں تو 2 کرنتھیوں 10باب3-5 آیات وضاحت کرتی ہیں کہ آگے کیا کرنا چاہیے: " کیونکہ ہم اگرچہ جسم میں زِندگی گُذارتے ہیں مگر جسم کے طَور پر لڑتے نہیں۔اِس لئے کہ ہماری لڑائی کے ہتھیار جسمانی نہیں بلکہ خُدا کے نزدِیک قلعوں کو ڈھا دینے کے قابِل ہیں۔چُنانچہ ہم تصوُرات اور ہر ایک اُونچی چیز کو جو خُدا کی پہچان کے برخِلاف سر اُٹھائے ہُوئے ہے ڈھا دیتے ہیں اور ہر ایک خیال کو قید کر کے مسیح کا فرمانبردار بنا دیتے ہیں۔ "کفر انگیز، نقصان دہ اور منحرف خیالات و رجحانات رُوحانی جنگ کا حصہ ہیں اور ہمیں اُس سے لڑنے کے لیے خُدا کی مدد کی ضرورت ہے۔ کلامِ مُقدس کا مطالعہ کر کے ، اپنے ذہنوں میں سچائی کی تصدیق کر کے، خُدا کے کلام کو ذہن نشین کر کے ہم مداخلت کرنے والے خیالات کو یا تو بڑے پیمانے پر کم کر سکتے ہیں یا اُنہیں اچھی طرح شکست دے سکتے ہیں –" جب میرے دِل میں فِکروں کی کثرت ہوتی ہے تو تیری تسلّی میری جان کو شاد کرتی ہے " (94 زبور 19 آیت) ۔

ضروری نہیں کہ مداخلت کرنے والے خیالات -حتیٰ کہ کفر انگیز خود ساختہ خیالات بھی گناہ ہوں۔ ہمارے ذہن کمزور ہیں اور یہ ہمارے ارد گرد کی دُنیا سے بڑی آسانی کے ساتھ متاثر ہو جاتے ہیں۔ لیکن جان بوجھ کر اپنے آپ کو کفر انگیز خیالات، تشدد اور دیگر بُرائیوں سے رُوشناس کروانا گناہ ہو سکتا ہے۔ جس قدر زیادہ ہم اپنے آپ کو دُنیاوی چیزوں سے گھیریں گے اُسی قدر زیادہ دُنیا ہمارے خیالات پر حملہ آور ہوگی۔ اِس کے برعکس ہمیں جتنی باتیں سچ، شرافت کی، واجب اور پاک ہیں اُن پر غور کرنا چاہیے (فلپیوں 4باب8 آیت)۔ اگر ہم اپنے آپ کو بھلائی سے معمور کر لیں تو خُدا ہمیں برکت دے گا : "مُبارک ہے وہ آدمی جو شرِیروں کی صلاح پر نہیں چلتا اور خطاکاروں کی راہ میں کھڑا نہیں ہوتا اور ٹھٹّھابازوں کی مجلِس میں نہیں بیٹھتابلکہ خُداوند کی شرِیعت میں اُس کی خُوشنُودی ہے اور اُسی کی شرِیعت پر دِن رات اُس کا دِھیان رہتا ہے۔وہ اُس درخت کی مانِند ہو گا جو پانی کی ندیوں کے پاس لگایا گیا ہے ۔ جو اپنے وقت پر پھلتا ہے اور جس کا پتّا بھی نہیں مُرجھاتا۔ سو جو کُچھ وہ کرے باروَر ہو گا" (1 زبور 1-3 آیات)۔

بعض اوقات مداخلت کرنے والے خیالات رُوحانی خیالات سے زیادہ ہو سکتے ہیں۔ اگر کلامِ مُقدس کےحوالہ جات کو ذہن نشین کرنے اور دُعا کرنے سے ایسے نقصان دہ خیالات اور رجحانات میں کمی نہیں آتی تو اُس صورت میں آپ کے جسم کی اپنی کیمسٹری اِس سب میں مسائل پیدا کر رہی ہوگی۔ مداخلت کرنے والے خیالات دیگر چیزوں کے علاوہ جبری جنونی بے ترتیبی Obsessive Compulsive Disorder یا Post Patrum Depression کی علامت بھی ہو سکتے ہیں۔ جس طرح خُدا نے رُوحانی معاملات میں صلاح کاری کرنے کے لیے تربیت یافتہ صلاح کار مہیا کئے ہیں اُسی طرح اُس نے ہماری جسمانی مدد کے لیے ڈاکٹر اور صلاح کار فراہم کئے ہیں۔ اگر مداخلت کرنے والے خیالات خاص طور پر آپ کو کمزور کر دیں تو جان لیں کہ "ابدی راہ" (139 زبور 24 آیت) ایسی حلیمی کا تقاضا کرتی ہے جو خُدا سے مدد مانگنے کے لیے ضروری ہے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

کیا مداخلت کرنے والے/ خلل ڈالنے والے/بن بلائے خیالات بھی گناہ ہیں ؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries