settings icon
share icon
سوال

ِپرانے عہد نامے اور نئے عہد نامے کے درمیانی دور میں کیا ہوا تھا؟

جواب


پرانے عہد نامہ کی آخری تحریر اور یسوع مسیح کے ظہور کے درمیانی عرصے یا دور کو"عہود کے درمیانی دور" کے طور پر جانا جاتا ہے اور اِس ک لیے انگریزی اصطلاح "Intertestamental Period"استعمال کی جاتی ہے۔ یہ عرصہ ملاکی نبی کے دور (تقریباً 400 ق م) سے یوحنا بپتسمہ دینے والے کی مُنادی کے دور (قریباً 25 بعد ازمسیح) تک جاری رہا۔ کیونکہ ملاکی سے یوحنا تک کے درمیانی عرصہ کے دوران خُدا کی طرف سے کوئی نبوتی کلام نہیں کیا گیا تھا، اِس لئے کچھ مفسرین اِس عرصے کو "خاموشی کے 400 سالوں" کے طور پر بھی پیش کرتے ہیں۔ اِس عرصے کے دوران اسرائیل کے سیاسی، مذہبی، اور سماجی ماحول میں نمایاں تبدیلیاں واقع ہوئیں۔ بہت ساری ایسی باتیں جو اِس دوران ہوئیں اُن کی دانی ایل نبی کی طرف سے پیشن گوئی کی گئی تھی۔ (دیکھیں دانی ایل 2، 7، 8ابواب اور اُس دور کے تاریخی واقعات کا ساتھ اُن کا موازنہ کیجئے)۔

اسرائیل تقریباً 532 تا 332 ق م کے درمیانی عرصے میں فارسی حکومت کے ماتحت رہا ۔ فارسیوں نےمعمولی سی مداخلت کے ساتھ اسرائیلیوں کو اپنی مذہبی رسومات ادا کرنے کی اجازت دی تھی۔ یہاں تک کہ اُن کو ہیکل کی تعمیرِ نو کرنے اور اُس میں عبادت کرنے کی بھی اجازت دی گئی (2تواریخ36 باب 22-23 آیات؛ عزرا1 باب 1-4آیات )۔ اِس عرصے میں پرانے عہد نامے کے دور کے آخری 100 سال اور "عہود کے درمیانی دور Intertestamental Period"کے تقریباً ابتدائی 100 سال شامل تھے۔ روایتی امن اور اطمینان کا یہ دور طوفان سے پہلےکے سکوت کی مانند تھا۔

عہود کے درمیانی دور سے پہلے سکندراعظم نے دُنیا میں یونانی حکومت کو قائم کرتے ہوئے فارسی بادشاہ دارا کو شکست دی۔ سکندراعظم ارسطور کا شاگردتھا اور وہ یونانی فلسفے اور سیاست میں اچھی طرح تعلیم یافتہ تھا۔ سکندر نے یونانی ثقافت کو ہر اُس جگہ فروغ دینے کا اِرادہ کیا جسے اُس نے فتح کیا تھا۔ نتیجے کے طور پر، عبرانی عہدِ عتیق کا ترجمہ یونانی زُبان میں کیا گیا جو سیپٹواجنٹ کے نام سے جانا جانے لگا۔ نئے عہد نامے کا زیادہ تر حصہ پُرانے عہدنامے کے حوالہ جات کو سیپٹواجنٹ سے استعمال کرتا ہے۔ سکندر اگرچہ یونانی طرزِ زندگی کو مضبوطی سے فروغ دیتا تھا، لیکن اُس نے یہودیوں کو بھی مذہبی آزادی فراہم کی تھی۔ یہ اسرائیلیوں کے لئے واقعات کی اچھی تبدیلی نہیں تھی، کیونکہ یونانی ثقافت نہایت دُنیاوی، انسان پرست، اور خُدا پرستی سے خالی تھی۔

سکندر کی وفات کے بعدیہوداہ پر اُس کے جانشینوں کے ایک سلسلے نے حکمرانی کی، جس کا اختتام سلُوکی بادشاہ اینطیوکس اپیی فینیس کے ساتھ ہوا۔ اینطیوکس نے نہ صرف یہودیوں کو مذہبی آزادی دینے سے انکار کیا بلکہ اُس نے اِس سے بھی بڑھ کر یہودیوں کے ساتھ بہت بُرا سلوک روا رکھا۔ 167 ق م کے قریب اُس نے کہانتی سلسلے سے تعلق رکھنے والی خاص نسل کو تباہ و برباد کر دیا اور ناپاک جانوروں اور بُت پرست مذاہب کےمذبحوں کے ساتھ ہیکل کو ناپاک کرتے ہوئے اِس کی بے حُرمتی کی(مستقبل میں واقع ہونے والے ملتے جُلتے واقعات کو جاننے کے لئے مرقس 13باب 14 آیت دیکھیں)۔ اینطیوکس کا یہ فعل مذہبی عصمت دری کے برابر تھا۔ آخر کار یہوداہ مکابی اور حصمونیوں کی قیادت میں یہودیوں کی مزاحمت نے جائز کہانت کو دوبارہ بحال کرتے ہوئے ہیکل کو پاک کیا۔ مکابیوں کے انقلاب کا دور جنگ وجدل، تشدد، اور اندرونی کشمکش کا دور تھا۔

63 ق م کے قریب روم کے پومپئی نے تمام یہودیہ کو روم کے قیصروں کے قبضے میں کرتے ہوئے اسرائیل کو فتح کر لیا۔ اِس کے نتیجے میں شہنشاہِ روم اور سینٹ کی طرف سے ہیرودیس کو یہودیہ کا بادشاہ بنایا گیا۔ روم وہی قوم تھی جس نے یہودی قوم اور اُن کے ملک پر قبضہ کیا اُن سے بھاری محصولات وصول کرتی رہی اور آخر میں مسیحا کو رومی صلیب پر سزائے موت بھی دی۔ رومی، یونانی، اور عبرانی ثقافتیں اب یہودیہ میں باہمی طور پر مل چکی تھیں۔

یونانی اور رومی فتوحات کے دوران ، دو اہم سیاسی/مذہبی گروہ اسرائیل میں منظرِ عام پر آ چکے تھے۔ فریسیوں نے زُبانی روایات کو مُوسیٰ کی شریعت میں شامل کر لیا اور آخر کار خُدا کے قوانین سے زیادہ اپنے قوانین کو اہم سمجھنا شروع کر دیا (دیکھیں مرقس7 باب 1-23 آیات)۔ اگرچہ مسیح کی تعلیمات اکثر فریسیوں کے ساتھ متفق ہوتی تھیں،لیکن اُس نے اُن کی کھوکھلی قانونیت اور رحم کی کمی کی مخالفت کی۔ صدوقی شُرفا کہلاتے تھے اور اپنے معاشرے میں اختیار اور مال و دولت کی نمائندگی کرتے تھے۔ صدوقی جویہودیوں کی بڑی ترین مذہبی مجلس سین ہیڈرن کے ذریعے اپنے اختیار کا استعمال کرتے تھے پرانے عہد نامہ کی موسوی کتابوں کے علاوہ سب چیزوں کو ردّ کرتے تھے۔ وہ مُردوں کی قیامت پر ایمان لانے سے انکار کرتے تھے۔ عام طور پر اُنہیں یونانیوں کے سائے قرار دیا جاتا تھا کیونکہ وہ یونانیوں کی بہت زیادہ تعریف کرتے تھے۔

عہود کے اِس درمیانی دور یعنی Intertestamental Periodکے دوران ہونے والے واقعات نے مسیح کی آمد کے لئے سٹیج تیار کر دیا تھا اور اِن سے یہودیوں پر گہرا اثر پڑا تھا۔ دونوں یعنی یہودی اور دوسری اقوام کے بُت پرست لوگ مذہب سےغیر مطمئن ہو رہے تھے۔ بُت پرستوں نے کثیر خُداؤں کی صداقت پر سوال کرنا شروع کر دیا تھا۔ رومی اور یونانی اپنی داستانوں سے پھر کر عبرانی نوشتوں کی طرف کھنچے جا رہے تھے، جو یونانی اور لاطینی میں اب آسانی دستیاب تھے۔ تاہم یہودی مایوس تھے۔ کیونکہ وہ ایک بار پھر مفتوح، مظلوم، اور آلودہ ہو چُکے تھے۔ اُمید ختم ہو رہی تھی، یہاں تک کہ ایمان کمزور ہو رہے تھے۔ وہ اِس بات پر یقین کرنے لگے تھے کہ اب مسیح کا ظہور ہی واحد چیز ہے جو اُنہیں اور اُن کے ایمان کو بچا سکتا ہے۔ نہ صرف لوگ مسیح کے لئے سنجیدہ اور تیار ہو چکے تھے، بلکہ خُدا کئی اور طریقوں سے بھی آگے بڑھ رہا تھا:(انجیل کے پھیلاؤ کی مدد کے لئے) رومی سٹرکیں تعمیر کر چکے تھے؛ ہر کوئی ایک عام زُبان (عہد جدید کی زُبان) کوئنی یونانی کو سمجھتا تھا؛ اور (انجیل کی اشاعت کو مزید مدد فراہم کرنے کے لئے) سفر کرنے کے لئے پُرامن اور آزادانہ ماحول میسر ہو چُکا تھا۔

نیا عہد نامہ کہانی بیان کرتا ہے کہ نہ صرف یہودیوں کے لئے بلکہ ساری دُنیا کے لئے اُمید کیسے نمودار ہوئی۔ مسیح کے متعلق پیشن گوئی کی تکمیل متوقع تھی اور بہت سے اُن لوگوں کی طرف سے جو انتظار کر رہے تھے اِس کو تسلیم بھی کیا گیا۔ رومی صوبیدار، مجوسیوں، اور نیکدیمس فریسی کی کہانیاں ظاہر کرتی ہیں کہ یسوع کو کئی مختلف ثقافتوں کی طرف سے مسیح کے طور پر کیسے تسلیم کیا گیا ۔عہود کے درمیانی دور Intertestamental Period کے "400 سالوں کی خاموشی "کو عظیم ترین کہانی نے جسے یسوع مسیح کی انجیل بتایا جاتا ہے توڑا ۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

ِپرانے عہد نامے اور نئے عہد نامے کے درمیانی دور میں کیا ہوا تھا؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries