سوال
ایماندار کس طرح سے دُنیا میں رہتے ہوئے بھی دُنیا کے نہیں ہو سکتے ؟
جواب
جب ہم نئے عہد نامے میں لفظ "دنیا" کو پڑھتے ہیں تو ہم یونانی لفظ کوسموس( عالم-cosmos )پڑھ رہے ہوتے ہیں۔ کوسموس اکثر آباد زمین اور اس پر بسنے والے اُن لوگوں کو پیش کرتاہے جو خدا سے دُور ہو کر کام کرتے ہیں۔ شیطان اِس "عالم/جہان" کا حاکم ہے (یوحنا 12باب 31آیت ؛ 16 باب 11آیت ؛ 1 یوحنا 5باب 19آیت )۔ اِس سادہ سی وضاحت کے ذریعے کہ لفظ دنیا شیطان کے ماتحت عالمی نظام کی طرف اشارہ کرتا ہے، ہم مسیح کے اِس دعوے کو زیادہ آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ایماندار اب دنیا کے نہیں رہے- اب گناہ کا ہم پر کوئی اختیار نہیں اور نہ ہی ہم دنیا کے اصولوں کے پابند ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں مسیح کے ہمشکل بنایا جارہاہے جس کے باعث جیسے جیسے ہم مسیح میں پختہ ہوتے جاتے ہیں ہماری دنیا کی چیزوں کے لیے دلچسپی کم سے کم ترہوتی جا تی ہے ۔
یسوع مسیح پر ایمان رکھنے والے صرف جسمانی طور پر دنیا میں ہیں -مگر وہ اِس دُنیا کے یعنی اس کی اقدار کا حصہ نہیں ہے (یوحنا 17باب 14-15 آیات)۔ ایماندار ہونے کے ناطے ہمیں دنیا سے جُدارہنا چاہیے۔ مقدس ہونے اور ایک پاک اور راستباز زندگی بسر کرنے کا مطلب دنیا سے الگ رہنا ہے ۔ ہمیں اُن گناہ آلود سرگرمیوں میں ملوث نہیں ہونا ہے جن کو دنیا فروغ دیتی ہے اور نہ ہی ہم نے اس بیوقوفانہ بد عنوان عقل کو برقرار رکھنا ہے جسے دنیا پیدا کرتی ہے۔ بلکہ ہمیں خود کو اور اپنی عقلوں کویسوع مسیح کی عقل کے مشابہ بنانا ہے (رومیوں 12باب 1-2آیات)۔ یہ ایک ایسی سرگرمی اور عزم ہے جیسے ہر روز سر انجام دینے کی ضرورت ہے۔
ہمیں یہ بھی سمجھنا چاہیے کہ اگر ہم اُن لوگوں کے لیے نور بننا چاہتے ہیں جو رُوحانی تاریکی میں ہیں تو دنیا میں رہنامگر اس کے نہ ہونا ضروری ہے ۔ ہمیں اس طور سے زندگی بسر کرنی ہے کہ جو لوگ ایمان سے باہر ہیں وہ ہمارے نیک اعمال اور ہمارے طورطریقے کو دیکھیں اور جانیں کہ ہم میں کچھ "فرق " ہے۔ وہ مسیحی جو اُن لوگوں کی طرح زندگی بسر کرنے، سوچنے اور عمل کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتے ہیں جو مسیح کو نہیں جانتے وہ اُس کی بہت بڑی بے ادبی کرتے ہیں۔ حتی ٰکہ غیر قومیں بھی جانتی ہیں کہ "اُن کے پھلوں سے تُم اُن کو پہچان لو گے"اور بطور مسیحی ہمیں اپنی زندگیوں کے اندر رُوح کے پھل کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔
دنیا "میں " ہونے کا مطلب یہ بھی ہے کہ ہم خوبصورت تخلیق جیسے کہ دنیا کی چیزوں سے جو خدا نے ہمیں عطا کی ہیں لطف اندوز ہو سکتے ہیں لیکن ہمیں اِن چیزوں میں محو نہیں ہونا ہے جس کی دنیا قدر کرتی ہے اور نہ ہی ہمیں دنیا کی آسائشوں کا تعاقب کرنا ہے۔ دنیا کی خوشی اب اُس طور سے ہماری زندگی کا مقصد نہیں ہے جیسے کہ پہلے تھی بلکہ خدا کی عبادت ہماری زندگی کا اصل مقصد ہے۔
English
ایماندار کس طرح سے دُنیا میں رہتے ہوئے بھی دُنیا کے نہیں ہو سکتے ؟