سوال
بُت پرستی کی کچھ جدید اشکال کونسی ہیں؟
جواب
جد ید بُت پرستی کی تمام طرح کی اشکال کے مرکز میں ایک ہی چیز مشترک ہے اور وہ چیز خودی ہے ۔ اب ہم بُتوں اورمورتوں کے سامنے سجدہ نہیں کرتے ۔ اس کے بجائے ہم اپنی خودی کے معبود کے مذبح کے سامنے پرستش کرتے ہیں ۔ جدید بُت پرستی کی یہ قسم متعدد اشکال میں رونما ہوتی ہے۔
پہلے نمبر پر ہم مادہ پرستی کے مذبح کے سامنے پرستش کرتے ہیں جو مزید " مادی چیزوں " کے حصول کے وسیلہ سے ہماری اَنا کی تسکین کی ہماری ضرورت کو پورا کرتی ہے ۔ ہمارے گھر ہر طرح کی اشیاء سے بھرے ہوئے ہیں ۔ ہم زیادہ الماریوں اور ذخیرہ کرنے کی جگہ کے ساتھ بڑے بڑے گھر بناتے ہیں تاکہ ہم اپنی خریدی ہوئی تمام چیزوں کو گھر میں رکھ سکیں جن میں سے بیشتر کی ہم نے ابھی تک ادائیگی تک نہیں کی ہوتی ۔ ہماری بیشتر چیزیں ایک منصوبے کے تحت " غیر استعمال شدہ " ہونے کے باعث اصل وقت میں بیکار ہوتی ہیں اور اِسی لیے ہم اُن کو گیراج یا دیگر ذخیرہ کرنے کی جگہ میں رکھ دیتے ہیں ۔ اس کے بعد پھر ہم نئی چیزیں ، کپڑے یا آلات خریدنے کے لیے نکل پڑتے ہیں اور یوں یہ سلسلہ پھر سے شروع ہو جاتا ہے ۔ زیادہ ، بہتر ، اور نئی چیزوں کےلیے یہ ناقابلِ تسکین خواہش لالچ کے سوا کچھ نہیں ۔ دسواں حکم ہمیں بتاتا ہے کہ ہم لالچ کا شکا ر نہ ہوں : "تُو اپنے پڑوسی کے گھر کا لالچ نہ کرنا۔ تُو اپنے پڑوسی کی بیوی کا لالچ نہ کرنا اور نہ اُس کے غُلام اور اُس کی لَونڈی اور اُس کے بَیل اور اُس کے گدھے کا اور نہ اپنے پڑوسی کی کسی اَور چیز کا لالچ کرنا" ( خروج 20باب 17آیت)۔ خدا ہم پر محض خرید و فروخت کی وقتی لذت کی بوچھاڑ کرنا نہیں چاہتا ۔ وہ جانتا ہے کہ ہم اپنی مادی خواہشات میں مشغول رہنے کے باعث کبھی خوش نہیں ہوں گے کیونکہ یہ ہمارے سامنے خدا کی بجائے خود پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے شیطان کا پھندہ ہے ۔
دوسرے نمبر پر ہم اپنے غرور اور اَنا کے مذبح کے سامنے پرستش کرتے ہیں۔یہ اکثر پیشے اور ملازمت کےلیے حد سے زیادہ فکرمند ی کی صور ت میں ہوتی ہے ۔ لاکھوں مرد اور عورتوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہر ہفتے 60-80گھنٹے کام میں صرف کرتے ہیں ۔ حتیٰ کہ ہفتے کے آخر میں اور چھٹی کے دوران بھی ہمارے لیپ ٹاپ اور ذہن صرف اسی چکر میں مگن رہتے ہیں کہ ہم اپنے کارو بار کو مزید کیسے کامیاب بنائیں ، ہم اُس عہد ے کو کیسے حاصل کریں،ہم اگلی کامیابی کیسے حاصل کریں ،ہم آئندہ معاملات کو کیسے نمٹائیں۔ دوسری جانب اس سب کے دوران ہمارے بچّے توجہ اور محبت کی آرزو مندی رکھتے ہیں ۔ ہم اِس سوچ کے باعث خود کو دھوکا دیتے ہیں کہ ہم یہ سب اپنے بچّوں کی خاطر کر رہے ہیں تاکہ اُن کو بہتر زندگی دے سکیں ۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم یہ سب اپنے لیے کر رہے ہیں تاکہ ہم دنیا کی نظر میں زیادہ کامیاب ظاہر ہونے کے وسیلہ سے اپنی عزت ِ نفس میں اضافہ کریں ۔ یہ سراسر بے وقوفی ہے ۔ ہمارے مرنے کے بعد نہ تو ہماری تمام محنتیں اور کامیابیاں اور نہ ہی دنیا کی تعریف ہمارے کسی کام آئے گی کیونکہ اِن چیز وں کی ابدی اعتبار سے کچھ اہمیت نہیں ہے ۔ جیسا کہ سلیمان بادشاہ فرماتا ہےکہ "کیونکہ اَیسا شخص بھی ہے جس کے کام حِکمت اور دانائی اور کامیابی کے ساتھ ہیں لیکن وہ اُن کو دُوسرے آدمی کے لئے جس نے اُن میں کچھ محنت نہیں کی اُس کی میراث کے لئے چھوڑ جائے گا۔ یہ بھی بُطلان اور بلایِ عظیم ہے۔ کیونکہ آدمی کو اُس کی ساری مشقّت اور جانفشانی سے جو اُس نے دُنیا میں کی کیا حاصل ہے؟ کیونکہ اُس کے لئے عمر بھر غم ہے اور اُس کی محنت ماتم ہے بلکہ اُس کا دِل رات کو بھی آرام نہیں پاتا۔ یہ بھی بُطلان ہے۔" ( واعظ 2باب 21-23آیت)۔
تیسرے نمبر پر ہم فطرت پرستی اور سائنس کی طاقت کے ذریعے سے انسانیت کی پرستش کرتے ہیں ۔ ہم اس فریب سے چمٹنے ہوئے کہ ہم اپنی دنیا کے آپ مالک ہیں اور اپنی عزت ِ نفس کو خدا کے درجے تک پروان چڑھاتے ہیں ۔ ہم خدا کے کلام اور اُس کے اس بیان کو مسترد کرتے ہیں کہ خدا نے آسمانوں اور زمین کو کیسے بنایا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ ہم ملحدانہ نظریہ ارتقاء اور نظریہ فطرت پرستی کی بکواس کو قبول کرتے ہیں ۔ ہم ماحولیات کی دیوی کو قبول کرتے اور اس سوچ کے ساتھ خود کو بے وقوف بناتے ہیں کہ ہم زمین کو غیر معینہ مدت تک محفوظ رکھ سکتے ہیں جبکہ خدا نے فرمایا ہے کہ اس موجودہ نسل کا خاتمہ ہو گا:"لیکن خُداوند کا دِن چور کی طرح آ جائے گا۔ اُس دِن آسمان بڑے شور و غُل کے ساتھ برباد ہو جائیں گے اور اَجرامِ فلک حرارت کی شدّت سے پگھل جائیں گے اور زمین اَور اُس پر کے کام جَل جائیں گے۔ جب یہ سب چیزیں اِس طرح پگھلنے والی ہیں تو تمہیں پاک چال چلن اور دِین داری میں کَیسا کچھ ہونا چاہئے۔ اور خُدا کے اُس دِن کے آنے کا کَیسا کچھ منتظراور مُشّتاق رہنا چاہئے۔ جس کے باعث آسمان آگ سے پگھل جائیں گے اور اَجرامِ فلک حرارت کی شدّت سے گل جائیں گے۔ لیکن اُس کے وعدہ کے موافق ہم نئے آسمان اور نئی زمین کا اِنتطار کرتے ہیں جن میں راست بازی بسی رہے گی " ( 2پطرس 3باب 10-13آیات)۔ جیسا کہ یہ حوالہ بیان کرتا ہے کہ جب ہم اپنے خداوند اور نجات دہندہ کا بڑے اشتیاق سے انتظار کر رہے ہیں تو ہماری توجہ ماحول کی پرستش پر نہیں بلکہ مُقدس زندگی گزارنے پر ہونی چاہیے ۔ اس لیے کہ صرف خُدا ہی پرستش کے لائق ہے ۔
آخری اور شاید سب سے زیادہ تباہ کُن بات یہ ہے کہ ہم دوسرے لوگوں اور اُن کی ضروریات اور خواہشات کو خارج کرنے کےلیے اپنی سرفرازی یا اپنے خودی کی تسکین کے مذبح کے سامنے عبادت کرتے ہیں ۔ اس بات کا اظہار خود کو شراب ، منشیات اور کھانے میں مشغول کرنے کی صورت میں ہوتا ہے ۔ امیر ممالک میں بسنے والے لوگوں کی شراب ، منشیات (حتیٰ کہ بچّوں میں بھی تجویز کردہ منشیات کا استعمال ہمیشہ ہی زیادہ ہے ) اوربسیار خوری اپنے عروج پر ہوتی ہے۔ امریکہ میں موٹاپے کی شرح آسمان کو چھو چکی ہے اورزیادہ کھانے کی وجہ سے بچپن میں ہی ذیابیطس کا مرض ہونا ایک وبا کی صورت اختیار کر گیا ہے ۔ ہماری قوتِ ارادی کی شدید ضرورت ہماری کھانے ، پینے اور زیادہ سے زیادہ علاج کرنے کی نا قابلِ تسکین خواہش کی طرف سے مسترد کردی جاتی ہے ۔ ہم ایسی کسی بھی کوشش کی مخالفت کرتے ہیں جس میں ہمیں اپنی بھوک پر قابو رکھنا ہوتا ہے اوریوں ہم خود کو اپنی زندگی کا خدا بنانے کےلیے پُر عزم ہیں ۔ اس خواہش کی ابتدا باغِ عدن سے ہوئی ہے جہاں پھل کھانے کےلیے شیطان نے حوؔ ا کو اِن الفاظ کے ساتھ آزمایا تھا " تم خُدا کی مانند ۔۔۔۔ بن جاؤ گے" ( پیدایش 3باب 5آیت) ۔ خدا کی مانند بننا تب سے ہی انسان کی خواہش رہی ہے اور جیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں کہ تمام جدید بُت پرستی کی بنیاد خود پرستی ہے ۔
خود پرستی پر مبنی تمام طرح کی بُت پرستی کی تین مرکزی خواہشات ہیں جن کا ذکر 1یوحنا 2باب 16آیت میں پایا جاتا ہے : "کیونکہ جو کچھ دُنیا میں ہے یعنی جسم کی خواہش اور آنکھوں کی خواہش اور زِندگی کی شَیخی وہ باپ کی طرف سے نہیں بلکہ دُنیا کی طرف سے ہے۔ " اگر ہم جدید بُت پرستی سے بچنا چاہتے ہیں تو ہمیں یہ تسلیم کرنا ہو گا یہ بے لگام ہے اور ہمیں اسے ہر ایک شکل میں مسترد کرنا ہے ۔ یہ خدا کی نہیں بلکہ شیطان کی طرف سے ہے اور ہم اس میں کبھی بھی کامیا ب نہیں ہوں گے ۔ یہ بہت بڑا جھوٹ ہے اور اِسی جھوٹ کو شیطان آدم اور حوؔا سے پہلی بار بولنے کے وقت سےلیکر مسلسل بولتا چلا آ رہا ہے ۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ہم اب بھی اس جھوٹ کا شکار ہو رہے ہیں ۔ اور اس سے بھی افسوسناک بات یہ ہے کہ بہت سی کلیسیائیں خود پرستی کے بُت پر مبنی صحت ، دولت اور خوشحالی کی انجیل کی منادی میں اِسی جھوٹ کی تشہیر کر رہی ہیں ۔ لیکن ہم اپنے آپ پر توجہ مرکوز کرنے سے کبھی بھی خوشی حاصل نہیں کر پائیں گے ۔ ہمارے دل و دماغ خدا اور دوسرے لوگوں پر مرکوز ہونے چاہئیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب سب سے بڑے حکم کے بارے میں پوچھا گیا تو یسوع نے جواب دیا کہ " خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان اور اپنی ساری عقل سے مُحبّت رکھ" ( متی 22باب 37 آیت)۔ جب ہم خداوند اور دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنی پوری ذات کے ساتھ محبت رکھتے ہیں تو ہمارے دِلوں میں بُت پرستی کے لیے کوئی جگہ نہیں رہے گی ۔
English
بُت پرستی کی کچھ جدید اشکال کونسی ہیں؟