settings icon
share icon
سوال

اِرشادِ اعظم کیا ہے؟

video
جواب


متی28 باب 19- 20 آیات میں موجود تعلیم کو ارشادِ اعظم کہا جاتا ہے، "پس تم جا کر سب قوموں کو شاگرد بناؤ اور اُن کو باپ اور بیٹے اور رُوح القدس کے نام سے بپتسمہ دو۔ اور اُن کو یہ تعلیم دو کہ اُن سب باتوں پر عمل کریں جن کا مَیں نے تم کو حکم دیا اور دیکھو مَیں دُنیا کے آخر تک ہمیشہ تمہارے ساتھ ہوں"۔ یسوع نے یہ حکم آسمان پر اُٹھائے جانے سےتھوڑی دیر پہلے اپنے شاگردوں کو دیاتھا اور یہ بنیادی طور پر اُن باتوں کا خاکہ بیان کرتا ہے جن کی توقع یسوع اپنی غیر موجودگی میں اپنے شاگردوں اور اُن کے پیروکاروں سے کرتا تھا۔



یہ دلچسپ بات ہے کہ متی 28باب 19- 20 آیات کو اگر اصل یونانی متن میں دیکھا جائے تو واحد براہِ راست حکم یہ نظر آتا ہے کہ "شاگرد بناؤ"۔ارشادِ اعظم ہمیں ہدایت کرتا ہے کہ جب ہم اِس دُنیا میں سے گزر رہے ہیں تو ہم "شاگرد بنائیں"۔ "جانے"، " بپتسمہ دینے" اور "تعلیم دینے" کی ہدایات بالواسطہ ہیں جو اصل ہدایت "شاگرد بنانے" کے ساتھ ہی منسلک ہیں۔ ہمیں شاگرد کیسے بنانے ہیں؟ اُنہیں بپتسمہ دینے اور اُن سب باتوں کی تعلیم دینے کے وسیلے سے جن کا یسوع نے حکم دیا ہے۔ارشادِ اعظم کا مرکزی حکم ہے "شاگرد بناؤ"۔ اور اِس حکم کی تعمیل ہم "جانے"، لوگوں کو "بپتسمہ دینے" اور اُنہیں "تعلیم دینے" کے وسیلے سے کریں گے۔

شاگرد وہ شخص ہے جو کسی دوسرے شخص سے ہدایات حاصل کرتا ہے؛ ایک مسیحی شاگرد وہ ہے جس نے بپتسمہ لیا ہو اور وہ مسیح کا پیروکار ہو، وہ شخص جو مسیح کی تعلیمات پر ایمان لاتا ہے۔ یسوع مسیح کا شاگرد اُس کی زندگی کے نمونے پر چلتا ہے، یسوع کی صلیبی قربانی کے ساتھ جُڑا رہتا ہے، اُس کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے پر ایمان رکھتا ہے، اپنے اندر رُوح القدس رکھتا ہے اور مسیح کی خدمت کا کام کرنے کے لیے زندہ رہتا ہے۔ ارشادِ اعظم میں جو "شاگرد بنانے" کا حکم دیا گیا ہے اِس کا مطلب یہ ہے کہ لوگوں کو تعلیم اور تربیت مہیا کی جائے کہ وہ مسیح کی پیروی کریں اور اُس کی اطاعت کریں۔

بہت سے لوگ اعمال1 باب8 آیت کو بھی ارشادِ اعظم کا ہی حصہ سمجھتے ہیں، "لیکن جب رُوح القدس تم پر نازل ہو گاتو تم قوت پاؤ گے اور یروشلیم اور تمام یہودیہ اور سامریہ میں بلکہ زمین کی انتہا تک میرے گواہ ہو گے"۔ ارشادِ اعظم رُوح القدس کی قدرت سے فعال بنتا ہے ۔ ہمیں اپنے شہروں (یروشلیم)، اپنی ریاستوں اور اپنے ممالک میں (یہودیہ اور سامریہ)، اور ہر اُس جگہ پر جہاں خُدا ہمیں بھیجتا ہے (زمین کی انتہا تک) ارشادِ اعظم کی تکمیل کرتے ہوئے مسیح کے گواہ بننا ہے۔

اعمال کی کتاب میں ہم دیکھتے ہیں کہ جس طرح سے اعمال 1 باب 8 آیت میں یہ حکم درج ہے اُسی طرح سے رسولوں نے ارشادِ اعظم کی تکمیل کا کام شروع کر دیا۔ سب سے پہلے یروشلیم شہر میں منادی کی گئی (اعمال 1-7 ابواب)؛ پھر رُوح القدس نے کلیسیا کو یہودیہ اور سامریہ تک وسعت عطا کی (اعمال 8-12 ابواب)؛ اور بعد میں انجیل کی منادی دُنیا کی انتہا تک کی جاتی ہے (اعمال 13-28 ابواب)۔ آج ہم مسیح کے ایلچی ہوتے ہوئے اُس کی مرضی کے مطابق چلتے ہیں اور" ہم مسیح کی طرف سے منت کرتے ہیں کہ خُدا سے میل ملاپ کر لو" (2 کرنتھیوں 5 باب 20 آیت)۔

ہمیں خُدا کی طرف سے ایک انمول تحفہ ملا ہے "وہ ایمان جو مقدسوں کو ایک ہی بار سونپا گیا تھا" (یہوداہ 1 باب 3 آیت)۔ ارشادِ اعظم میں خُداوند یسوع مسیح کے الفاظ خُدا باپ کے دل کی عکاسی کرتے ہیں "وہ چاہتا ہے کہ سب آدمی نجات پائیں اور سچائی کی پہچان تک پہنچیں" (1 تیمتھیس 2 باب 4 آیت)۔ ارشادِ اعظم ہمیں زور دار تحریک دیتا ہے کہ ہم انجیل کی خوشخبری کو اُس وقت تک پھیلاتے رہیں جب تک ہمارے اردگرد ہر کوئی سُن نہ لے۔ یسوع مسیح کی طرف سے سنائی جانے والی تمثیل کے اُن نوکر وں کی مانند ہمیں اُس کی بادشاہی کا کام بڑی تندہی سے کرتے رہنا ہے اور قوموں کو شاگرد بناتے رہنا ہے۔ " اُس نے اپنے نوکروں میں سے دس کو بُلا کر اُنہیں دس اشرفیاں دِیں اور اُن سے کہا کہ میرے واپس آنے تک لین دین کرنا" (لوقا 19باب13آیت)۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

اِرشادِ اعظم کیا ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries