settings icon
share icon
سوال

خُدا کا جلال کیا ہے؟

جواب


خدا کا جلال اُس کی ذات کا حسن ہے ۔ یہ جمالیاتی خوبصورتی یا مادی خوبصورتی نہیں ہے بلکہ یہ وہ خوبصورتی ہے جو اُس کے کرداریعنی اُس کی مکمل شخصیت سے ظاہر ہوتی ہے۔ یعقوب 1باب 10آیت ایک دولت مند کی حالت کو بھی " ادنیٰ حالت" قرار دیتا ہے جس سے اس بات کی نشاندہی ہوتی ہے کہ جلال سے مُراد دولت یا طاقت یا مادی خوبصورتی نہیں ہے ۔ ایسا جلال انسان کو تاج پہنا سکتاہے یا پھر ساری زمین کو معمور کر سکتا ہے ۔ یہ انسان کی ذات کے اندر اور اِس ساری کائنات میں دکھائی دیتا ہے لیکن یہ نہ تو انسان کا جلال ہے نہ ہی اِس زمین کا جلال ہے بلکہ یہ خدا کا جلال ہے ۔ انسان کا جلال اُس کی رُوح کی خوبصورتی ہے جو کمزور اور بالآخر ختم ہونے والاہے اور اسی وجہ سےایک وقت پر یہ باعث خفت ہوگا جیسا کہ 10 آیت ہمیں بتاتی ہے ۔ مگر خدا کا جلال جو کہ اُس کی تمام صفات سے ظاہر ہے کبھی ختم نہ ہونے والا اور ابدی ہے ۔

یسعیاہ 43باب 7 آیت ہمیں بتاتی ہے کہ خدا نے ہمیں اپنے جلال کےلیے پیدا کیا ہے ۔ اسی طرح کی دوسری آیات کے پیشِ منظر میں کہا جا سکتا ہے کہ انسان خدا کو "جلال دیتا " ہے کیونکہ انسان کے وسیلہ سے خدا کا جلال محبت، موسیقی، بہادری اور اس طرح کی اور خوبیوں میں دیکھا جا سکتا ہے ۔ یہ خوبیاں جو خدا سے تعلق رکھتی ہیں اُنہیں ہم انسان جو" مٹی کے برتن " ہیں اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں ( 2کرنتھیوں 4باب 7آیت)۔ ہم وہ برتن ہیں جو اپنے " اندر " اُس کا جلال رکھتے ہیں ۔ تمام کام جو ہم کرنے کی قابلیت رکھتے ہیں اُن کا ماخذ خدا میں ڈھونڈا جا سکتا ہے ۔ خدا فطرت کے ساتھ بالکل اِسی طرح سے پیش آتا ہے ۔ فطرت اُس کے جلال کو ظاہر کرتی ہے۔ اُس کا جلال انسانی ذہن پر مادی دنیا کے ذریعے مختلف طریقوں سے اور مختلف لوگوں کےلیے مختلف انداز میں عیاں ہوتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایک شخص پہاڑوں کے نظارے سے خوش ہو جبکہ دوسرا شخص سمندر کی خوبصورتی کو پسند کرے۔ لیکن اِن دونوں کے پیچھے ( خدا کا جلال) ہےاور یہی جلال اِن دونوں انسانوں سے مخاطب ہوتا اور اِن کو خد ا سے جوڑتا ہے ۔ اس طرح خدا لوگوں کی نسل، ثقافت اور علاقے سے قطع نظر خود کو تمام لوگوں پر عیاں کرنے کی قابلیت رکھتا ہے۔ جیسا کہ 19زبور 1-4آیات بیان کرتی ہیں "آسمان خُدا کا جلال ظاہِر کرتا ہے اور فضا اُس کی دست کاری دِکھاتی ہے۔ دِن سے دِن بات کرتا ہے اور رات کو رات حکمت سکھاتی ہے۔ نہ بولنا ہے نہ کلام۔ نہ اُن کی آواز سنائی دیتی ہے۔ اُن کا سُر ساری زمین پر اور اُن کاکلام دُنیا کی اِنتہا تک پہنچاہے۔ اُس نے آفتاب کے لئے اُن میں خیمہ لگایاہے۔"

74زبور 24آیت آسمان کو بذات خود " جلال" کا نام دیتی ہے ۔ یہ اکثر سُنتے میں آتا ہے کہ مسیحی موت کو " جلا ل میں قبول" کئے جانے کے طور بیان کرتے ہیں یہ جملہ اسی زبور سے لیا گیا ہے ۔ جب کوئی مسیحی مرے گا تو وہ خدا کی حضوری میں لے جایا جائے گا اور خدا کی حضوری فطری طور اُس کے جلال سے معمور ہو گی ۔ ہمیں اُس مقام میں لے جایا جائے گا جہاں خدا کی خوبصورتی موجود ہو گی – اُس کی رُوح کی خوبصورتی وہاں ہو گی –کیونکہ وہ وہاں موجود ہو گا۔ ایک بار پھر، اُس کی رُوح کی خوبصورتی ( یا اُس کی ذات کاجوہر) اُس کا " جلال" ہے ۔ اُس مقام پر خدا کے جلال کو عیاں ہونے کےلیے انسان یا فطرت کی ضرورت نہیں ہو گی بلکہ یہ پوری طرح عیاں ہو گا جیسا کہ 1کرنتھیوں 13باب 12آیت بیان کرتی ہے کہ "اب ہم کو آئینہ میں دُھندلا سا دِکھائی دیتا ہے مگر اُس وقت رُوبرُو دیکھیں گے ۔ اِس وقت میرا علم ناقص ہے مگر اُس وقت اَیسے پُورے طور پر پہچانوں گاجیسے مَیں پہچانا گیا ہوں ۔"

انسانی /زمینی لحاظ سے دیکھا جائے تو جلال ایک خوبصورتی یا خوبی ہے جس کا انحصار زمینی چیزوں پر ہے ( 37زبور 20آیت؛ 49زبور 17آیت) اور اس لحاظ سے ایک خاص وقت پر یہ ماند پڑ ھ جاتا ہے ۔ لیکن اس کے ماند پڑنے کی وجہ یہ ہے کہ مادی چیزیں ہمیشہ قائم نہیں رہتیں ۔ وہ مُر جھاتی اور ختم ہو جاتی ہیں مگر اُن میں موجود جلال خدا کا جلال ہے اور جب مادی چیزیں مرتی اور فنا ہوجا تی ہیں تو خدا کا جلال اُس کی طرف واپس لوٹ جاتا ہے ۔ پہلے بیان کردہ امیر آدمی کے بارے میں غور کریں ۔ آیت بیان کرتی ہے کہ " ادنیٰ بھائی اپنے اعلیٰ مرتبہ پر فخر کرے۔اور دَولت مند اپنی ادنیٰ حالت پر اِس لئے کہ گھاس کےپھول کی طرح جاتا رہے گا"۔ اس کا کیا مطلب ہے ؟ یہ آیات امیر آدمی کو یہ احساس دلانے کےلیے نصیحت کر رہی ہے کہ اُس کی دولت، طاقت اور خوبصورتی خدا کی طرف سے ہیں اور اس احساس کےاُسے ذریعے عاجز بناتی ہیں کہ وہ جو کچھ ہے خدا کی طرف سے ہے اور جو کچھ اُس کے پاس ہے وہ خدا نے اُسے دیا ہے ۔ اور اس بات کا علم کہ وہ گھاس کی مانند ختم ہو جائے گا اُسے یہ احساس دلائے گا کہ یہ خدا ہی ہے جس سے جلال صادر ہوتا ہے ۔ خدا کا جلال ہی وہ اصل منبع –ماخذ ہے جس سے باقی کے تمام ادنیٰ جلال کا وجود ہے ۔

چونکہ یہ خدا ہی ہے جس سے جلال پھوٹتا ہے لہذا وہ اِس دعوے کو قائم نہیں رہنے دے گا کہ جلال انسان سے یا انسانی بُتوں سے یا فطرت سے پھوٹتا ہے۔ یسعیاہ 42باب 8آیت میں ہم خُدا کی طرف سے اُسکےجلال کےلیے اُس کی غیرت کی ایک مثال دیکھتے ہیں ۔ خُدا کی طرف سے اپنے جلال کےلیے اسی غیرت کے بارے میں پولس رسول رومیوں 1باب 21-25آیات میں بھی بات کرتا ہے جب وہ لوگوں کے اُن طریقوں کے بارے میں بیان کرتا ہےجو وہ خالق کی بجائے مخلوقات کی عبادت کے لیے اپنا ئے ہوئے تھے ۔ دوسرے الفاظ میں کہا جائےتو اُنہوں نے اُن چیز وں پر دھیان لگایا تھا جن کے ذریعے سے خدا اپنا جلال ظاہر رہا تھا اور اس بات کےلیے خدا کو جلال دینے کی بجائے اُنہوں نے جانوروں، درختوں یا انسان کی عبادت اِس خیال کے ساتھ کی کہ آیااُن کی خوبصورتی اُنکی کی اپنی ذات کی بدولت تھی ۔ بُت پرستی میں مرکزی رجحان یہی پایا جاتا ہے۔ زمین پر موجود ہر انسان کبھی نہ کبھی اس غلطی کا مرتکب ہوتا ہے ۔ ہم میں سے ہر ایک نے کسی نہ کسی مقام پر " خدا کے جلال " کو "انسانی جلا ل " کیساتھ بدلا ہے ۔

بہت سے لوگ زمینی چیزوں یا زمینی تعلقات ، اپنی طاقت ، قابلیت یا خوبصورتی ، یا دوسرے لوگوں میں موجود اچھائی پر بھروسہ کرنے کی غلطی کو مسلسل دہراتے رہتے ہیں ۔ لیکن جب یہ چیزیں ختم یا ناکام ہو جاتی ہیں جیسا کہ (عظیم جلال عارضی طور پر اِن چیزوں میں ہوتا ہے)اور یہ سب لازمی طور پر ختم ہو جائیں گی تو لوگ مایوس ہو جاتے ہیں ۔ ہم سب کو یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ خدا کا جلال مستقل ہے اور زندگی کے سفر کے دوران ہم اس جلال کا ظہور کسی شخص کی زندگی میں ، جنگل میں ، محبت ، بہادری کے افسانوی، غیرافسانوی قصوں میں یا خود اپنی شخصی زندگی میں دیکھیں گے ۔ لیکن آخر میں یہ سب خدا کی طرف واپس لوٹ جاتا ہے ۔ اور خدا تک رسائی صرف اور صرف اُس کے بیٹے یسوع مسیح کے وسیلہ سے ممکن ہے ۔ اگر ہم مسیحی ہیں تو ہمیں اس تمام خوبصورتی کا یہ منبع/سرچشمہ آسمان پر خدا کی ذات میں حاصل ہو گا۔ ہمیں کسی چیز کا نقصا ن نہیں ہوگا ۔ وہ سب چیزیں جو زمینی زندگی میں ختم ہو جاتی ہیں اُنہیں یا اُن سے بہترین چیزوں کو ہم خُدا میں پھر پائیں گے ۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

خُدا کا جلال کیا ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries