سوال
نبوّت کی رُوحانی نعمت کیا ہے ؟
جواب
1کرنتھیوں 12باب 10آیت اور رومیوں 12باب 6آیت میں مذکور رُوح کی نعمتوں کی فہرست میں نبوّت کی نعمت کا ذکر بھی کیا جاتا ہے ۔ دونوں حوالہ جات میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ "نبوّت" یا "نبوّت کرنا" کیا گیا ہے ، اُسکا صحیح مطلب خدا کے مقاصد کی وضاحت کرنا یا خدا کی سچائی کوکسی ایسے انداز میں لوگوں پر واضح کرنے کے لیے "پیش گوئی کرنا" یا الٰہی مرضی کا اعلان کرنا ہے جو لوگوں کو متاثر کرنے کی غرض سے ترتیب دی گئی ہو۔ بہت سے لوگ نبوّت کی نعمت کو مستقبل کے بارے میں بتانے کی صلاحیت خیال کرنے کی وجہ سے غلط فہمی کا شکار ہیں ۔ ہو سکتا ہے کہ مستقبل کے بارے میں کچھ جاننا نبوّت کی نعمت کا بعض اوقات ایک پہلو رہا ہو لیکن بنیادی طور پر یہ منادی ("اعلان")کی نعمت تھی نہ کہ پیشین گوئی ("آئندہ وقت کے بارے میں بتانے ") کی نعمت ۔
ایک پادری/مناد جو بائبل کی تعلیمات کا اعلان کرتا ہے اُسے اِس لحاظ سے "نبوّت کرنے والا " خیال جا سکتا ہے کہ وہ خدا کی مرضی کو بیان کر رہا ہوتا ہے۔ نئے عہد نامے کے الہام کی تکمیل کے ساتھ نبوّت کرنانئے الہام کی منادی کرنے کے عمل میں تبدیل ہو گیا، اور اب اِس نے اُس مکمل الہام کی منادی کی صورت اختیار کر لی ہے جو خدا پہلے ہی ظاہر کر چکا ہے۔ یہوداہ 3 آیت "اُس اِیمان کے واسطے جانفشانی" کرنے کا ذکر کرتی ہے " جو مُقدّسوں کو ایک ہی بار سَونپا گیا تھا"۔ دوسرے الفاظ میں ہم جس ایمان پر قائم ہیں وہ ہمیشہ کے لیے تکمیل پا چکا ہے اور اُسے اُس اضافے یا اصلاح کی ضرورت نہیں ہے جو غیر بائبلی مکاشفات کی طر ف آتی ہے ۔
2 پطرس 2باب 1آیت میں نبی سے استاد کی طرف منتقلی پر بھی غور کریں :"جس طرح اُس اُمّت میں جھوٹے نبی بھی تھے اُسی طرح تُم میں بھی جھوٹے اُستاد ہوں گے جو پوشیدہ طَور پر ہلاک کرنے والی بِدعتیں نکالیں گے اور اُس مالِک کا اِنکار کریں گے جس نے اُنہیں مول لِیا تھا اور اپنے آپ کو جلد ہلاکت میں ڈالیں گے۔" پطرس اشارہ کرتا ہے کہ پرانے عہد نامے میں نبی تھےجبکہ کلیسیا میں استاد ہوں گے۔ نبوّت کی نعمت کا خدا کی طرف سے نئے مکاشفات حاصل کرنے اور اُن کا دوسرے لوگوں میں اعلان کرنےکے مفہوم کے لحاظ سے بائبل کی تکمیل کے ساتھ ہی اختتام ہو گیا تھا ۔ جب نبوّت ایک مکاشفاتی نعمت تھی اُس دوران اِسے انسانوں کی اصلاح، نصیحت اور تسلی کے لیے استعمال کیا جاتا تھا (1کرنتھیوں 14باب 3آیت)۔ دورَ حاضر میں نبوّت کی نعمت جو اصل میں تعلیم دینے کے عمل سے زیادہ مشابہت رکھتی ہے اب بھی خدا کی سچائی کا اعلان ہی کرتی ہے۔ تبدیلی صرف اِس بات کی ہوئی ہے کہ آج خدا کی سچائی اُس کے کلام میں پوری طرح سے عیاں ہوچکی ہےجبکہ ابتدائی کلیسیا میں یہ ا ُس وقت تک پوری طرح عیاں نہیں ہوئی تھی۔
مسیحیوں کو ایسے لوگوں کے بارے میں پوری طرح محتاط رہنا چاہیے جو خدا کی طرف سے "نیا" پیغام حاصل کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ یہ کہنا ایک الگ بات ہے کہ " کل رات میَں نے ایک دلچسپ خواب دیکھا۔" جبکہ یہ کہنا بالکل مختلف بات ہے کہ "خدا نے کل رات مجھے ایک خواب دکھایا اور آپ کو اِس کی پیروی کرنی چاہیے" انسان کے کسی قول کو تحریری کلام کے برابر یا اُس سے بالاتر خیال نہیں کیا جانا چاہیے ۔ ہمیں اُس کلام پر قائم رہنا چاہیے جو خُدا نے پہلے ہی عطا کردیا ہے اور خود کو صرف اور صرف کلامِ مقدس کے لیے وقف کرنا چاہیے۔
English
نبوّت کی رُوحانی نعمت کیا ہے ؟