سوال
غیر زبانوں کا ترجمہ کرنے کی رُوحانی نعمت کیا ہے ؟
جواب
غیر زبانیں بولنے کی نعمت کے ساتھ رُوح کی ایک اور نعمت کا ذکر بھی 1 کرنتھیوں 12باب10آیت کے اندر کیا گیا ہے –یعنی غیر زبانوں کا ترجمہ کرنے کی نعمت۔ غیر زبانوں کا ترجمہ کرنے کی نعمت دراصل کسی بھی غیر زبان کو اُسےسننے والوں کی زبان میں بیان کرنے کی قابلیت ہے۔ غیر زبانوں کا ترجمہ کرنے کی نعمت ایک علیحدہ نعمت ہے، لیکن بہت دفعہ اِسے غیر زبان بولنے کی نعمت کے ساتھ ہی استعمال کیا جاتا ہے۔
غیر زبان بولنے کی نعمت دراصل کسی بھی ایسی زبان کو بولنے کی قابلیت تھی جسے بولنے والے نے کبھی بھی سیکھا نہیں ہوتا۔ ہم اعمال 2باب4-12 آیات کے اندر اِس نعمت کواُس وقت استعمال ہوتا ہوا دیکھتے ہیں جب یروشلیم کے اندر یہودیوں نے مختلف طرح کی زبانوں میں انجیل کے پیغام کو سُنا۔ ابھی غیر زبان کا ترجمہ کرنے کی نعمت رکھنے والا شخص اگرچہ بولی جانے والی زبان کو پہلے نہیں بھی جانتا لیکن پھر بھی اُس کا ترجمہ کرنے کے قابل ہوتا ہے۔ کسی زبان کا پہلے سے علم نہ ہونا ہی کسی شخص کے اندر غیر زبان کا ترجمہ کرنے کی نعمت /قابلیت کو عام طریقے سے سیکھی یا حاصل کی گئی قابلیت سے علیحدہ کرتا ہے۔ غیر زبانوں کا ترجمہ کرنے کی نعمت رکھنے والا شخص غیر زبان بولنے والے شخص کو سُنتا ہے اور پھر جو کچھ غیر زبان میں بیان کیا گیا ہو اُسے وہاں پر حاضر اُن لوگوں کے سامنے پیش کرتا ہے جو اُس غیر زبان کو سمجھ نہیں پارہے ہوتے۔ اِس کا مقصد یہ تھا کہ جو سچائی غیر زبان کے بولنے کے ذریعے سے پیش کی جا رہی ہے اُسے سبھی لوگ جان سکیں۔ پولس رسول کے اور اعمال کی کتاب میں غیر زبانوں کے بولے جانے کے عمل کے عین مطابق غیر زبان کے بولے جانے کا مقصد یہ تھا کہ ہر ایک شخص کو اُس کی اپنی زبان میں براہِ راست طور پر خُد اکا کلام/پیغام دیا جائے۔ یقینی طور پر وہ سب لوگ جو وہاں پر موجود ہوتے ہیں اگر اُس زبان کو نہ سمجھ پائیں تو غیر زبان کا بولا جانا بالکل بے معنی اور بے فائدہ ہے – اور یہی وہ چیز ہے جس نے غیر زبان کا ترجمہ کرنے والے کو اہم بنایا۔ اِس سب کا مقصد کلیسیا کی ترقی تھا (1 کرنتھیوں 14باب5، 12آیات)۔
کرنتھس کی کلیسیا کے اندر ایک بہت بڑا مسئلہ یہ تھا کہ غیر زبانیں بولنے والے کلیسیائی عبادت کے درمیان ہی بولنا شروع کر دیتے تھے اور وہ غیر زبانیں بولنے کی اپنی اِس نعمت کا استعمال زبان کے ترجمے کے بغیر کرتے تھے۔ اِس کا نتیجہ یہ نکلتا تھا کہ غیر زبان بولنے والے کو توجہ تو ملتی تھی لیکن اُس کی ساری باتیں بالکل بے معنی ہوتی تھیں اور وہاں پر موجود کوئی بھی شخص اُنہیں سمجھ نہیں پاتا تھا۔ اِس لیے پولس نے بڑی سختی کے ساتھ اِس بات کی نصیحت کی کہ کلیسیا کے اندر غیر زبان کا جب بھی استعمال کیا جائے تو اُس کا لازمی طور پر ترجمہ بھی کیا جائے۔ "لیکن کلیسیا میں بیگانہ زُبان میں دس ہزار باتیں کہنے سے مجھے یہ زِیادہ پسند ہے کہ اَوروں کی تعلیم کے لئے پانچ ہی باتیں عقل سے کہوں" (1کرنتھیوں 14باب19آیت)۔ کلیسیا کے اراکین کو ایسی باتیں سننے کی وجہ سے کوئی فائدہ نہیں تھا جنہیں وہ سمجھ ہی نہیں سکتے تھے۔ پولس نے کرنتھس کی کلیسیا کو بتایا کہ اگر اُن میں سے دو یا پھر حد تین لوگ اگر کلیسیا کے اندر غیر زبان میں بولنا چاہتے ہیں تو اُن کے لیے ضروری ہوگا کہ کوئی غیر زبان کا ترجمہ کرنے والا لازمی طور پر اُن لوگوں کا ترجمہ کرے۔ اور وہ مزید یہ کہتا ہے کہ " اگر کوئی ترجمہ کرنے والا نہ ہو تو بیگانہ زُبان بولنے والا کلیسیا میں چُپکا رہے اور اپنے دِل سے اور خُدا سے باتیں کرے" (1کرنتھیوں 14باب28آیت)۔
غیر زبان کی عارضی نوعیت کو دیکھا جائے تو اِس کا یہ مطلب نکلتا ہے کہ غیر زبانوں کا ترجمہ کرنے کی نعمت کی نوعیت بھی عارضی تھی۔ اگر آج کے دور میں کلیسیا کے اندر غیر زبان کی نعمت کام کر رہی ہو تو یہ ہمیشہ ہی کلام کے ساتھ ہم آہنگی میں ہوگی۔ اور جب بھی کوئی غیر زبان بولی جاتی وہ لازمی طور پر اِس دُنیا میں بولی جانے والی کوئی نہ کوئی حقیقی زبان ہوتی (1 کرنتھیوں 14باب10آیت)۔ اور غیر زبان کے بولے جانے کا مقصد ہمیشہ ہی کسی اور زبان کو بولنے والے شخص کے ساتھ خُدا کے کلام اور پیغام کو بانٹنا ہوتا ، اور یہ سارا عمل "شایستگی اور قرینہ" کے ساتھ پایہ تکمیل کو پہنچتا (1کرنتھیوں 14باب 40 آیت)۔ "کیونکہ خُدا اَبتری کا نہیں بلکہ اَمن کا بانی ہے ۔ جَیسا مُقدّسوں کی سب کلیسیاؤں میں ہے" (1 کرنتھیوں 14باب33آیت)۔
English
غیر زبانوں کا ترجمہ کرنے کی رُوحانی نعمت کیا ہے ؟