سوال
اگر مَیں نجات یافتہ ہوں اور میرے سب گناہ معاف ہو چکے ہیں تو پھر مَیں گناہ کرنا جاری کیوں نہیں رکھ سکتا/سکتی؟
جواب
پولُس رسول نے رومیوں6باب 1-2آیات میں ایسے ہی ایک سوال کا جواب دیا ہے "پس ہم کیا کہیں؟ کیا گناہ کرتے رہیں تاکہ فضل زیادہ ہو؟ ہرگز نہیں۔ ہم جو گناہ کے اعتبار سے مر گئے کیونکر اُس میں آئندہ کو زندگی گزاریں؟"۔ یہ تصور بائبل کے بالکل خلاف ہے کہ کوئی شخص نجات حاصل کرنے کے لئے "یسوع مسیح پر ایمان" تو لے آئے مگر پھر ایسی زندگی گزارے جیسے وہ پہلے گزارتا تھا / گزارتی تھی۔ جو لوگ یسوع مسیح میں ہیں وہ نیا مخلوق ہیں (2کرنتھیوں 5باب 17آیت)۔ رُوح القدس ہمیں تبدیل کر تا ہے تاکہ ہم جسم کے پھل پیدا کرنے کی بجائے (گلتیوں 5باب19-21آیات) رُوح کے پھل پیدا کریں (گلتیوں 5باب 22-23آیات)۔ مسیحی زندگی تبدیل شُدہ زندگی ہے کیونکہ ایک مسیحی تبدیل شدہ انسان ہے ۔
مسیحیت کی بنیاد الٰہی تکمیل یعنی نجات کے اُس کام پر ہے جو خدا نے یسوع مسیح کے وسیلہ سے ہمارےلیے کیا ہے اور یہی وہ واحد حقیقت ہے جو مسیحیت کو دوسرے تمام مذاہب سے منفرد بنا دیتی ہے ۔ دوسری طرف دُنیا کے باقی تمام مذاہب کی بنیاد انسانی قابلیت یعنی اُن کاموں پر ہے جو خُدا کی خوشنودی اور گناہوں کی معافی حاصل کرنے کے لئے ہم کرتے ہیں۔ دوسرے مذاہب سکھاتے ہیں کہ ہمیں خُدا کی محبت اور شفقت حاصل کرنے کے لئے کچھ خاص کاموں کو کرنا چاہیے اور ایسے ہی ہمیں کچھ خاص باتوں سے باز رہنے کی ضرورت ہے۔ اس کے برعکس مسیحیت سکھاتی ہے کہ چونکہ خُدا نے یسوع مسیح کے وسیلہ سے اپنی محبت اور رحمت کا اظہار کر دیا ہے اس لیے ہم اُس میں نیا مخلوق ہونے کے وسیلے سے بعض کام کرتے ہیں اور بعض کاموں اور باتوں سے باز رہتے ہیں ۔
کوئی شخص گناہ کی سزا یعنی جہنم کے ابدی عذاب سے بچائے جانے کے بعد پھر اُس گناہ آلودہ زندگی کی طرف کیسے لوٹ سکتا ہےجو پہلے اُسے جہنم کی طرف لے کر جا رہی تھی؟ کوئی شخص گناہوں کی گندگی سے دُھل کر دوبارہ بدکاری کی اُسی دلدل میں جانے کی خواہش کیسے کر سکتا ہے؟ کوئی شخص یہ جانتے ہوئے کہ مسیح نے اُس کی خاطر کیا کیا ہے ایک ایسی زندگی کیسے گزار سکتا ہے جس میں مسیح کی کچھ اہمیت نہیں؟ کوئی شخص یہ سمجھنے کے بعد بھی کہ مسیح نے اُ س کے گناہوں کے لئے کتنی تکلیف اُٹھائی ہے ایک گناہ آلود زندگی کیسے جاری رکھ سکتا ہے، ایسی زندگی جس میں مسیح کی تکالیف کچھ معنی نہیں رکھتیں ؟
رومیوں6باب 11-15آیات بیان کرتی ہیں "اِسی طرح تم بھی اپنے آپ کو گناہ کے اعتبار سے مردہ مگر خُدا کے اعتبار سے مسیح میں زندہ سمجھو۔ پس گناہ تمہارے فانی بدن میں بادشاہی نہ کرے کہ تم اُس کی خواہشوں کے تابع رہو۔ اور اپنے اعضاء ناراستی کے ہتھیار ہونے کے لئے گناہ کے حوالہ نہ کیا کرو۔ بلکہ اپنے آپ کو مُردوں میں سے زندہ جان کر خُدا کے حوالہ کرو اور اپنے اعضاء راستبازی کے ہتھیار ہونے کے لئے خُدا کے حوالہ کرو۔ اِس لئے کہ گناہ کا تم پر اختیار نہ ہو گا کیونکہ تم شریعت کے ماتحت نہیں بلکہ فضل کے ماتحت ہو۔ پس کیا ہوا؟ کیا ہم اِس لئے گناہ کریں کہ شریعت کے ماتحت نہیں بلکہ فضل کے ماتحت ہیں؟ ہرگز نہیں۔"
لہذا مسیح کو حقیقی طور پر قبول کرنے کے بعد یہ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ زندگی میں گناہ کے عمل کو جاری رکھا جائے ۔ کیونکہ تبدیلی کے میں نتیجے میں ہمیں بالکل ایک نئی فطرت حاصل ہوتی ہے اس لیے ہم آئندہ گناہ میں زندگی گزارنا نہیں چاہتے ۔ یہ سچ ہے کہ ہم ابھی بھی گناہ کرتے ہیں لیکن پہلے کی طرح خوشی محسوس کرنے کی بجائے اب ہم گناہ سے نفرت کرتے اور اس سے مکمل آزاد ی چاہتے ہیں ۔ مسلسل گناہ میں زندگی گزارتے ہوئے مسیح کی قربانی سے " فائدہ اُٹھانے " کا خیال ناقابلِ تصور ہے ۔ایسے مسیحی جو مسیح میں زندگی بسر کرنے کی خواہش نہیں رکھتے بلکہ ایک ایسی زندگی جی رہے ہیں جو بے ایمانوں کی زندگیوں سے کچھ مختلف نہیں تو ایسے مسیحیوں کو یہ جانچنے کی ضرورت ہے کہ آیا اُنہوں نے مسیح کو اپنے نجات دہندہ کی حیثیت سے حقیقی طور پر قبول کیا تھا یا نہیں ۔"تم اپنے آپ کو آزماؤ کہ ایمان پر ہو یا نہیں۔ اپنے آپ کو جانچو۔ کیا تُم اپنی بابت یہ نہیں جانتے کہ یسوع مسیح تم میں ہے؟ ورنہ تم نامقبول ہو" (2کرنتھیوں 13باب 5آیت)۔
English
اگر مَیں نجات یافتہ ہوں اور میرے سب گناہ معاف ہو چکے ہیں تو پھر مَیں گناہ کرنا جاری کیوں نہیں رکھ سکتا/سکتی؟