سوال
مسیح کی حقیقت میں پیروی کرنے سے کیا مُراد ہے؟
جواب
اناجیل (متی، مرقس، لوقا اور یوحنا) کے اندر یسوع کا یہ حکم "میرے پیچھے ہو لے" کئی دفعہ ظاہر ہوتا ہے (مثال کے طور پر متی 8باب22 آیت؛ 9باب9آیت؛ مرقس 2باب14آیت؛ لوقا 5باب27آیت؛ یوحنا 1باب43آیت)۔ بہت سارے موقعوں پر یسوع اُن بارہ آدمیوں کو اپنے پیچھے آنے کے لیے کہہ رہا تھا جو اُس کے شاگرد بنے (متی 10باب 3-4آیات)۔ لیکن دیگر اوقات میں وہ ہر اُس شخص کو دعوت دے رہا تھا تھا جو اُن چیزوں کو حاصل کرنا چاہتا تھا جن کی یسوع پیشکش کر رہا تھا (یوحنا 3باب16آیت؛ مرقس 8باب 34آیت)۔
متی 10باب 34-39آیات میں یسوع واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ اُس کے پیچھے آنے کا کیا مطلب ہے۔ اُس نے کہا ہے کہ " یہ نہ سمجھو کہ مَیں زمین پر صلح کرانے آیا ہوں۔ صلح کرانے نہیں بلکہ تلوار چلوانے آیا ہوں۔کیونکہ مَیں اِس لئے آیا ہوں کہ آدمی کو اُس کے باپ سے اور بیٹی کو اُس کی ماں سے اور بہو کو اُس کی ساس سے جُدا کردوں۔اور آدمی کے دُشمن اُس کے گھر ہی کے لوگ ہوں گے۔جو کوئی باپ یا ماں کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے وہ میرے لائق نہیں اور جو کوئی بیٹے یا بیٹی کو مجھ سے زیادہ عزیز رکھتا ہے وہ میرے لائق نہیں۔اور جو کوئی اپنی صلیب نہ اُٹھائے اور میرے پیچھے نہ چلے وہ میرے لائق نہیں۔جو کوئی اپنے جان بچاتا ہے اُسے کھوئے گا اور جو کوئی میری خاطر اپنی جان کھوتا ہے اُسے بچائے گا۔ "
یہ پڑھنے کے بعد کہ "جو کوئی اُس پر ایمان لائے ہلاک نہ ہوگا" (یوحنا 3باب16آیت)، یہ جاننا کہ یسوع "تلوار "چلوانے اور اپنے پیروکاروں کے گھرانوں کو اُنہی کے خلاف کرنے کے لیے آیا تھا کافی زیادہ سخت معلوم ہوتا ہے۔ لیکن یسوع نے اِس سچائی کو کبھی بھی نرم یا کم نہیں کیا اور سچائی یہ ہے کہ جو کوئی اُس کی پیروی کرے گا اُسے اپنی زندگی میں سخت انتخابات کرنے ہونگے۔ بہت دفعہ یسوع کی پیروی سے پیچھے ہٹ جانا قدرے اچھا محسوس ہونا شروع ہو سکتا ہے۔ جس وقت یسوع کی تعلیمات مبارکبادیوں (متی 5باب3-11آیات) سے صلیب اُٹھانے تک پہنچیں تو بہت سارے جو اُس کے پیچھے چل رہےتھے واپس پھر گئے (یوحنا 6باب66آیت)۔ حتیٰ کہ جس رات یسوع کو گرفتار کیا گیا تب اُس کے شاگردوں نے بھی یہ محسوس کیا تھا کہ اُس کی پیروی کرنا بہت زیادہ مشکل ہے۔ اُن میں سے ہر کوئی اُسے چھوڑ گیا (متی 26باب56آیت؛ مرقس 14باب50آیت)۔ اُس رات یسوع کی پیروی کرنے کا مطلب ممکنہ طور پر گرفتاری اور پھر موت ہو سکتی تھی۔ اُس رات اپنی جان کو خطرے میں ڈالنے کا رسک لینے کی بجائے پطرس نے تین دفعہ یسوع کو جاننے تک سے انکار کر دیا تھا(متی 26باب69-75آیات)۔
یسوع کی سچے طور پر پیروی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ ہمارے لیے سب کچھ بن گیا ہے۔ ہر کوئی کسی نہ کسی چیز : دوستوں، مشہور و معروف ثقافت، خاندان، خودغرضانہ خواہشات یا پھر خُدا کی پیروی کرتا ہے۔ ہم ایک وقت میں صرف ایک ہی چیز کی پیروی کر سکتے ہیں (متی 6باب24آیت)۔ خُدا اپنے کلام میں حکم دیتا ہے کہ ہم اُس کے حضور غیر معبودوں کو نہ مانیں (خروج 20باب3آیت؛ استثنا 5باب7آیت؛ مرقس 12باب30آیت)۔ پس سچے طور پر یسوع کی پیروی کرنے کا مطلب ہے کہ ہم اُس کے علاوہ کسی بھی اور چیز کی پیروی نہ کریں۔ یسوع نے لوقا 9باب23آیت میں کہا ہے کہ "اگر کوئی میرے پیچھے آنا چاہے تو اپنی خُودی سے اِنکار کرے اور ہر روز اپنی صلیب اُٹھائے اور میرے پیچھے ہولے۔ " دُنیا کے اندر "آدھے یا نیم شاگرد" جیسی کوئی چیز نہیں پائی جاتی ۔ جیسا کہ یسوع کے اپنے شاگردوں کی زندگیوں سے ظاہر ہوا ہے کہ کوئی بھی انسان اپنی قوتِ ارادی کی بنیاد پر یسوع کی پیروی نہیں کر سکتا۔ فریسی ایسے لوگوں کی بہترین مثال تھے جو اپنی قوت کے بل بوتے پر خُدا کی پیروی کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اُن کی اپنے طور پر کی جانے والی کوششوں نے اُن کی رہنمائی صرف تکبر اور خُدا کی شریعت کی تعلیمات سے انحراف کی طرف ہی کی (لوقا 11باب39آیت؛ متی 23باب24آیت)۔
یسوع نے اپنے شاگردوں کو اپنی پیروی کرنے کا راز بتایا، لیکن اُس وقت اُنہوں نے اُس کو پورے طور پر نہ جانا۔ اُس نے اُن سے کہا کہ " زِندہ کرنے والی تو رُوح ہے۔ جسم سے کچھ فائدہ نہیں" (یوحنا 6باب63آیت) ۔ اور مزید یہ کہ " اِسی لیے مَیں نے تم سے کہا تھا کہ میرے پاس کوئی نہیں آ سکتا جب تک باپ کی طرف سے اُسے یہ توفیق نہ دی جائے " (65آیت)۔ یسوع کے شاگرد تین سالوں تک یسوع کے ساتھ رہے اور اِس دوران وہ سیکھتے،اُس کے معجزات کا تجزیہ کرتے اور اُن میں حصہ تک لیتے رہے۔ اِس کے باوجود وہ بھی اپنی ذاتی قوت سے اُس کی پیروی نہ کر سکے۔ اُنہیں ایک مددگار کی ضرورت تھی۔
یسوع نے اُن کے ساتھ کئی دفعہ وعدہ کیا کہ جب وہ باپ کے پاس آسمان پر چلا جائے گا تو وہ اُن کے لیے ایک "مددگار" یعنی رُوح القدس کو بھیجے گا (یوحنا 14باب 26آیت؛ 15باب 26آیت)۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اُس نے اُنہیں یہ کہا کہ اُس کا جانا اُن کے لیے بہتر ہے کیونکہ وہ جائے گا تو پھر وہ اُن کے لیے رُوح القدس کو بھیجے گا (یوحنا 16باب 7آیت)۔ رُوح القدس ہر ایک ایماندار کے دِل کے اندر بستا ہے (گلتیوں 2باب20آیت؛ رومیوں 8 باب16آیت؛ عبرانیوں 13باب 5آیت؛ متی 28باب 20آیت)۔ یسوع نے اپنے پیروکاروں کو خبردار کیا کہ "جب تک عالمِ بالا سے اُنہیں قوت کا لباس نہ ملے" وہ اُس کی گواہی دینا شروع نہ کریں (لوقا 24باب49آیت؛ اعمال 1باب4آیت)۔ جب پنتکست کے موقع پر رُوح القدس ایمانداروں پر نازل ہوا تو اُس وقت یسوع کی پیروی کرنے کی اُنہیں ساری قوت مل گئی حتی کہ اُس کی خاطر اپنی جان تک دینے کی (اعمال 2باب1-4آیات؛ 4باب31آیت؛ 7باب 59-60آیات)۔
یسوع کی پیروی کرنے کا مطلب ہے اُس کا ہمشکل بننے کی کوشش کرنا۔ اُس نے ہمیشہ ہی اپنے باپ کی تابع فرمانی کی اور یہی وہ چیز ہے جس کی ہم بھی کوشش کرتے ہیں (یوحنا 8باب29آیت؛ 15باب 10آیت)۔ حقیقی طور پر یسوع کی پیروی کرنے کا مطلب ہے یسوع کو اپنی زندگی کا مالک بنانا۔ یسوع کو اپنی زندگیوں کا مالک بنانے کا مطلب یہی ہے (رومیوں 10باب9آیت؛ 1 کرنتھیوں 12باب3آیت؛ 2 کرنتھیوں 4باب5آیت)۔ مسیح کے سچے پیروکاروں کا ہر ایک انتخاب اور ہر ایک خواب خُدا کے کلام میں سے چھانا جاتا ہے تاکہ وہ ہر ایک چیز اور بات میں خُدا کے نام کو جلال دے (1 کرنتھیوں 10باب31آیت)۔ ہم اُن کاموں کی وجہ سے نجات نہیں پاتے جو ہم یسوع کے لیے کرتے ہیں (افسیوں 2باب8-9آیات)، بلکہ اُس کام کے وسیلے سے نجات پاتے ہیں جو یسوع نے ہمارے لیے کیا ہے۔ اُس کے فضل کے لیے شکر گزاری کے طور پر ہم ہر ایک چیز میں اُس کو خوش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ اُس وقت تکمیل پاتا ہے جب ہم اپنے زندگی کے ہر ایک پہلو کو مکمل طور پر رُوح القدس کے اختیار میں لاتے ہیں (افسیوں 5باب18آیت)۔ رُوح القدس ہمارے لیے کلامِ مُقدس کی وضاحت کرتا ہے (1 کرنتھیوں 2باب14آیت)، رُوح کی نعمتوں کے ساتھ وہ ہمیں قوت بخشتا ہے (1 کرنتھیوں 12باب 4-11آیات)، ہمیں تسلی دیتا ہے (یوحنا 14باب 16آیت)، اور ہماری رہنمائی کرتا ہے (یوحنا 14باب 26آیت)۔ یسوع کی پیروی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ہم اُس سچائی کا اطلاق اپنی زندگی پر کریں جو ہم اُس کے کلام میں سے سیکھتے ہیں ، اور اپنی زندگیاں اِس طرح سے گزاریں جیسے یسوع ہمارے ساتھ ساتھ چل رہا ہو۔
English
مسیح کی حقیقت میں پیروی کرنے سے کیا مُراد ہے؟