settings icon
share icon
سوال

اگر مَیں خود کو نجات یافتہ محسوس نہ کروں تو پھر کیا ہوگا؟

جواب


یہ اُن بہت ہی عام سوالوں میں سے ایک سوال ہے جو اکثر مسیحیوں کی طرف سے پوچھا جاتا ہے۔ بہت سارے لوگ اپنے احساسات یا پھر اُن کی کمی کی وجہ سے اپنی نجات پر شک کرتے ہیں۔ بائبل نجات کے بارے میں تو بہت کچھ کہتی ہے لیکن "نجات کے احساس" کے بارے میں وہ کچھ بھی نہیں کہتی۔ نجات ایک خاص ذریعہ ہے جس کے وسیلے سے ایک گناہگار "غضب" سے بچایا جاتا ہے، اور یہ غضب دراصل خُدا کی گناہ کے خلاف عدالت ہے (رومیوں 5 باب 9آیت؛ 1 تھسلنیکیوں 5 باب 9آیت)۔ خصوصی طور صلیب پر یسوع مسیح کی موت اور پھر اُس کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی بدولت ہی ہمیں نجات ملی ہے (رومیوں 5 باب 10آیت؛ افسیوں 1 باب 7آیت)۔

نجات کے عمل میں ہمارا حصہ یہ ہے کہ ہم ایمان کے وسیلے سے نجات پاتے ہیں۔ سب سے پہلے ہمیں انجیل –مسیح کی صلیبی موت اور اُس کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کی خوشخبری کو سننے کی ضرورت ہے (افسیوں 1 باب 13آیت)۔ پھر ہمیں ایمان لانے کی ضرورت ہے اور اِس کا مطلب پورے دل سے مکمل طور پر خُداوند یسوع (رومیوں 1 باب 16آیت) اور اُس کی واحد قربانی پر ایمان لانا۔ ہمیں اپنے جسم کے کاموں کے وسیلے سے نجات کو حاصل کرنے پر بالکل بھی کوئی بھروسہ نہیں ہے۔ ایمان بھی خُدا ہی کی طرف سے تحفہ ہے، یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو ہم خود ہی اپنے اندر پیدا کرتے ہیں (افسیوں 2 باب 8-9آیات)، اور اِس ایمان میں توبہ ، گناہ اور مسیح یسوع کے بارے میں ہمارے ذہن /تصورات کی تبدیلی (اعمال 3 باب 19آیت)، اور اپنے منہ سے یسوع مسیح کا اقرار کرنا شامل ہے (رومیوں 10باب9-10، 13آیات)۔ نجات کا نتیجہ ایک تبدیل شُدہ زندگی کی صورت میں نکلتا ہے کیونکہ ہم ایک نئے مخلوق کے طور پر زندگی گزارنا شروع کر دیتے ہیں (2 کرنتھیوں 5 باب 17آیات)۔

ہم ایک ایسے معاشرے میں رہتے ہیں جو احساسات پر چلتا ہےا ور افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ چیز کلیسیا کے اندر بھی شامل ہو چکی ہے۔ لیکن احساسات پر انحصار نہیں کیا جا سکتا۔ جذبات قطعی طور پر قابلِ بھروسہ نہیں ہوتے۔ جذبات سمندر کی لہروں کی مانند آتے اور جاتے ہیں جو سمندر کے اندر سے ہر طرح کی جڑی بوٹیاں اور گندلا کر کنارے پر چھوڑ جاتی جاتی ہیں اور واپس جاتے ہوئے ہمارے پیرون کے نیچے سے ریت تک کو گھسیٹ کر لے جاتی ہیں۔ جن لوگوں کی زندگیوں پر اُن کے جذبات کی حکمرانی ہوتی ہے اُن کی صورتحال بھی کچھ ایسی ہی ہوتی ہے۔ سادہ ترین حالات – ہلکی سی سر درد، ایک ابر آلود دن، کسی دوست کے منہ سے لاپرواہی میں نکلی ہوئی کوئی بات –ہمارے سارے اعتماد کو بہا لے جا سکتے ہیں اور ہمیں مایوسی کے سمندر میں غرق ہونے کے لیے چھوڑسکتے ہیں۔خصوصی طور پر مسیحی زندگی کے بارے میں شک اور حوصلہ شکنی ہماری طرف سے اپنے جذبات پر اِس طرح سے اعتبار کرنے کا نتیجہ ہے گویا وہ سچے ہوں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمارے جذبات سچے نہیں ہوتے۔

لیکن ایک مسیحی جسے پہلے سے خبردار کر دیا تھا ہے اور جو خُدا کی طرف سے خصوصی طور پر لیس کیا گیا ہے وہ ایک ایسا شخص ہوتا ہے جس پر جذبات کی حکمرانی نہیں ہوتی بلکہ اُس کی زندگی میں سچائی کی حکمرانی ہوتی ہے۔ وہ اپنے آپ پر کسی چیز کو ثابت کرنے کے لیے اپنے احساسات پر انحصار نہیں کرتا۔ اپنے جذبات پر انحصار کرنا دراصل ایک ایسی غلطی ہے جو زیادہ تر لوگ اپنی زندگی میں کرتے ہیں۔ وہ اِس قدر خود بین اور خود شناس ہوتے ہیں کہ اُن کے حواس پر اپنی ہی ذات سوار رہتی ہے۔ وہ مسلسل طور پر خُدا کے ساتھ اپنے تعلق کے بارے میں سوال اور شک کرتے رہتے ہیں۔ "کیا مَیں واقعی ہی خُدا سے پیار کرتا ہوں؟" ، "کیا خُدا واقعی ہی مجھے پیار کرتا ہے؟"، "کیا مَیں اچھا انسان ہوں؟"ہمیں جو کچھ کرنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم اپنی ذات کے بارے میں سوچنا بند کر دیں، اپنے احساسات پر انحصار کرنا چھوڑ دیں اور اپنی ساری توجہ خُدا کی ذات اور اُسکی اُس سچائی پر مرکوز کریں جو ہم اُس کے بارے میں اور اُس کے کلام کے بارے میں جانتے ہیں۔

جب ہم ایسے احساسات کی بجائے جو خارجی ہوتے ہیں اور جن کا مرکز خُدا کی ذات ہوتی ہےنسبتی احساسات کے قابو میں ہوتے ہیں جن کا مرکز ہماری اپنی ذات ہی ہوتی ہے تو پھر ہم مسلسل طور پر شکست کی حالت میں اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ بیرونی اور حقیقی سچائی ایمان کے عقائد اور ہماری زندگی کے معاملات کے ساتھ اُنکی مطابقت پر مرکوز ہوتی ہے: جیسے کہ خُدا کی حاکمیت؛ مسیح کی سردار کاہن کے طور پر ہمارے لی شفاعت؛رُوح القدس کا وعدہ اور ابدی جلال کی اُمید۔جب ہم اِن عظیم سچائیوں کو سمجھتے ہیں، اپنے خیالات کو اِن پر مرکوز کرتے ہیں، اور اپنے ذہن میں اِن کی بار بار دہرائی کرتے ہیں تو یہ چیز ہمیں اپنی زندگی کے تمام مشکل اوقات میں سچائی کی بنیاد پر سوچنے اوردلائی پیش کرنے کے قابل بنائے گی اور پھر ہمارا ایمان بہت مضبوط اور ہمیشہ زندہ رہے گا۔ جو کچھ ہم خُدا کے بارے میں جانتے ہیں اُس کی بنیاد پر سوچنے اور سمجھنے کی بجائے اُن احساسات کی بنیاد پر سوچنا سمجھنا جو ہم اپنی ذات کے بارے میں رکھتے ہیں ہماری رُوحانی شکست کا یقینی راستہ ہے۔ مسیحی زندگی تو پہلے اپنے آپ میں مرنا اور پھر "زندہ ہو کر نئی زندگی میں چلنے " کا نام ہے (رومیوں 6 باب 4آیت)، اور ہماری نئی زندگی اُسی کے خیالات سے بھری ہوئی ہوتی ہے جس نے ہمیں بچایا ہے نہ کہ اُس مُردہ جسم کے خیالات سے جو صلیب پر یسوع کے ساتھ مصلوب ہو چکا ہے۔ جب ہم مسلسل طور پر اپنی ہی ذات اور اپنے ہی احساسات کے بارے میں سوچتے رہتے ہیں تو اُس صورت میں دراصل ہم ایک ایسے مُردہ جسم کے قبضے اور اثر میں ہوتے ہیں جس کا مسکن موت اور گلا سڑا پن ہے۔

اگر ہم ایمان کے ساتھ خُدا کے پاس جائیں تو اُس کا وعدہ ہے کہ وہ ہمیں بچائے گا۔ اُس نے کبھی بھی یہ نہیں کہا کہ نجات پانے کے بعد ہم خود کو غیر نجات یافتہ محسوس کریں گے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

اگر مَیں خود کو نجات یافتہ محسوس نہ کروں تو پھر کیا ہوگا؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries