سوال
کیا ایک ایماندار کو رُوح القدس کو محسوس کرنے کے قابل ہونا چاہیے؟
جواب
اگرچہ رُوح القدس کی کچھ خدمات میں جذبات کا عمل دخل ہو سکتا ہے جیسے کہ گناہ کا احساس ہونا، تسلی پانا، قوت پانا وغیرہ۔ لیکن بائبل مُقدس ہمیں قطعی طور پر اِس بات کی ہدایت نہیں دیتی کہ ہم رُوح القدس کے ساتھ اپنے تعلق کی بنیاد اِس بات پر رکھیں کہ ہم کس وقت کیا اور کیسا محسوس کرتے ہیں۔ نئے سرے سے پیدا ہونے والے ہر ایک ایماندار کے اندر رُوح القدس بستا ہے۔ خُداوند یسوع نے ہمیں یہ تعلیم دی ہے کہ وہ ہمیں ایک ایسا مددگار بخشے گا جو ہمارے ساتھ اور ہمارے اندر رہے گا۔ "اور مَیں باپ سے درخواست کرونگا تو وہ تمہیں دوسرا مددگار بخشے گا کہ ابد تک تمہارے ساتھ رہے یعنی رُوحِ حق جسے دُنیا حاصل نہیں کر سکتی کیونکہ نہ اُسے دیکھتی ہے اور نہ جانتی ہے۔ تم اُسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہوگا (یوحنا 14باب 16-17 آیات)۔ دوسرے الفاظ میں یسوع اپنی ہی مانند کسی اور کو بھیج رہا تھا تاکہ وہ ہمارے ساتھ اور ہمارے اندر رہے۔
ہم جانتے ہیں کہ رُوح القدس ہمارے ساتھ ہے کیونکہ ہمیں کلامِ مُقدس اِسی بات کی آگاہی دیتا ہے۔ نئے سرے سے پیدا ہونے والا ہر شخص رُوح القدس سے معمور ہوتا ہے ، لیکن ہر ایک ایماندار ہمیشہ رُوح القدس کے اختیار میں نہیں چلتا۔ رُوح القدس کو اپنے اندر رکھنے اور اُس کے اختیار میں ہونے میں بہت زیادہ واضح فرق پایا جاتا ہے۔ جب ہم جسم کے مطابق چلتے ہیں یا جسم کی خواہشات کو پورا کرتے ہیں تو رُوح القدس کےاختیارمیں نہیں ہوتے اگرچہ اُس وقت بھی رُوح ہم میں ہوتا ہے۔ پولس رسول اِس سچائی پر اپنا خیال ظاہر کرتا ہے اور ایک مثال کے ذریعے سے ہمیں سکھانے کی کوشش کرتا ہے "اور شراب میں متوالے نہ بنو کیونکہ اِس سے بد چلنی واقع ہوتی ہے بلکہ رُوح سے معمور ہوتے جاؤ" (افسیوں 5باب 18 آیت)بہت سارے لوگ جب اِس آیت کو پڑھتے ہیں تو خیال کرتے ہیں کہ پولس رسول یہاں پر شراب کے خلاف بات کر رہا ہے ۔ جبکہ اگر ہم سیاق و سباق کی روشنی میں اِس حوالے کو دیکھیں تو یہ حوالہ رُوح سے معمور شخص کی بدنی جنگ اور خُدا کے ساتھ چلنے کی بات کر رہا ہے۔ پس اِس حوالے میں بہت زیادہ شراب پینے سے منع کئے جانے کے علاوہ اور بہت کچھ بھی موجود ہے۔
جب لوگ بہت زیادہ شراب پئے ہوئے ہوتے ہیں تو اُن میں کچھ مخصوص حرکات و سکنات اور خصوصیات کو دیکھا جا سکتا ہے۔ وہ لڑ کھڑانا شروع ہو جاتے ہیں، اُن کی باتوں میں بے ترتیبی آ جاتی ہےاور اُن کے فیصلہ کرنے کی صلاحیت کمزور ہو جاتی ہے۔ پولس رسول در اصل یہ موازنہ پیش کرتا ہے کہ جس طرح کچھ مخصوص خصوصیات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ کوئی شخص شراب کے نشے میں دُھت ہے، یعنی شراب کے قبضے میں ہے اُسی طرح مختلف لوگوں میں ظاہر ہونے والی خصوصیات یہ بھی ظاہر کرتی ہیں کہ وہ رُوح القدس کے اختیار میں ہیں۔ ہم گلتیوں 5باب 22-24 آیات کے اندر رُوح کے پھلوں کے متعلق پڑھتے ہیں۔ جو شخص رُوح القدس کے اختیار میں ہوتا ہے اُس کے اندر یہ پھل ظاہر ہوتے ہیں۔ ایک نئے سرے سے پیدا ہونے والا ایماندار رُوح القدس کے اختیار میں چلتا ہے۔
افسیوں 5باب 18 آیت کو اگر غور سے دیکھیں تو اِس فقرے کے اندر استعمال ہونے والا "فعل" ایک ایماندار کے رُوح القدس سے مسلسل بھرتے رہنے یا معمور ہوتے رہنے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اب چونکہ یہ بات ایک نصیحت ہے اِس لیے اِس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ کسی کا رُوح سے نا معمور ہونا یا رُوح کے اختیار میں نہ چلنا بھی ممکن ہے۔ افسیوں 5 باب کا بقیہ حصہ ہمیں رُوح سے معمور ایماندار کی خصوصیات کے بارے میں آگاہ کرتا ہے۔" اور آپس میں مزامیر اور گیت اور روحانی غزلیں گایا کرو اور دِل سے خُداوند کے لئے گاتے بجاتے رہا کرو۔ اور سب باتوں میں ہمارے خُداوند یسوع مسیح کے نام سے ہمیشہ خُدا باپ کا شکر کرتے رہو۔ اور مسیح کے خوف سے ایک دوسرے کے تابع رہو" (افسیوں 5باب 19-21 آیات)۔
ہم رُوح القدس سے اِس لیےیا اُس وقت معمور نہیں ہوتے جب یا اگر ہم یہ محسوس کرتے ہیں کہ ہم رُوح القدس سے معمور ہیں بلکہ ہم رُوح القدس سے اِس لیے معمور ہوتے ہیں کیونکہ رُوح القدس کی معموری مسیحی ایمانداروں کا حق ہے۔ رُوح القدس سے معمور ہونا اور اُس کے اختیار میں چلنا در اصل خُداوند کی فرمانبرداری میں چلنے کا نتیجہ ہے۔ یہ فضل کی نعمت ہے نہ کہ کوئی جذباتی احساس۔ جذبات ہمیں دھوکا دے سکتے ہیں اور اکثر دیتے بھی ہیں۔ ہم اکثر کئی ایک کام جذبہِ جنون کے ساتھ کر سکتے ہیں جس کا سارا تعلق جسم کے ساتھ ہے نہ کہ رُوح القدس کے ساتھ۔ "مگر مَیں کہتا ہوں کہ رُوح کے موافق چلو تو جسم کی خواہش ہرگز پورا نہ کرو گے۔۔۔ اگر ہم رُوح کے سبب سے زندہ ہیں تو رُوح کے موافق چلنا بھی چاہیے۔" (گلتیوں 5باب 16، 25 آیات)۔
یہ کہنے کے ساتھ ساتھ ہم اِس بات کا بھی انکار نہیں کر سکتے کہ بعض دفعہ رُوح القدس اپنی حضوری اور قدرت کے ساتھ ہم پر مکمل طور پر غالب آ جاتا ہے، یہ اکثر ایک جذباتی تجربہ ہوتا ہے۔ جب کسی کی زندگی میں ایسا ہوتا ہے تو اُسے خوشی کا ایسا خاص احساس ہوتا ہے جیسا احساس اُسے کبھی بھی نہیں ہوا ہوتا۔ جب لوگ عہد کے صندوق کو یروشلیم میں لائے تو داؤد بادشاہ "خُداوند کے حضور اپنے سارے زور سے ناچنے لگا" (2 سموئیل 6باب14 آیت)۔ رُوح کے ذریعے سے خوشی کا تجربہ کرنا دراصل اِس بات کو سمجھنا ہے کہ خُدا کے فرزند ہونے کی وجہ سے ہم اُس کے فضل کے وسیلے برکت پا رہے ہیں۔ پس ، بلا شک و شبہ رُوح القدس کی خدمات میں جذبات اور احساسات بھی شامل ہو سکتے ہیں۔ لیکن اِس کے ساتھ ہی ہمیں کبھی بھی رُوح القدس کے اختیار میں ہونے کے یقین کی بنیاد اِس بات پر نہیں رکھنی چاہیے کہ ہم مختلف اوقات میں کیسا محسوس کرتے ہیں۔
English
کیا ایک ایماندار کو رُوح القدس کو محسوس کرنے کے قابل ہونا چاہیے؟