settings icon
share icon
سوال

خُدا کے چُنے ہوئے لوگ کون ہیں؟

جواب


سادہ الفاظ میں کہا جائے تو " خدا کے چُنے ہوئے " لوگ وہ ہیں جنھیں خدا نے پہلے ہی سے نجات کےلیے چُن رکھا ہے ۔ یہ اس لیے "چُنے ہوئے" کہلاتے ہیں کیونکہ اِس کے لیے استعمال ہونے والا اصطلاحی لفظ "elect" انتخاب کے تصور کی نشاندہی کرتا ہے۔ پاکستان میں ہم ہر پانچ سال کے بعد ایک وزیرِ اعظم کا " چُناؤ" کرتے ہیں یعنی ہم منتخب کرتے ہیں کہ اس عہدے پر کون کام کرے گا ۔اِسی طرح امریکہ میں ہر چار سال کے بعد صدر کا انتخاب کیا جاتا ہے۔یہ بات خُدا اور نجات پانے والے لوگوں کے حوالے سے بھی سچی ہے۔ خُدا اُن لوگوں کو چُنتا ہے جو نجات پائیں گے ۔ یہ خدا کے چُنے ہوئے لوگ ہیں ۔

موجودہ صورتحال میں خدا کے چُنے ہوئے لوگوں کے نجات پانے کا تصور متنازعہ نہیں ہے ۔ متنازعہ بات یہ ہے کہ خدا اُن لوگوں کو کس طرح اور کس انداز میں منتخب کرتا ہے جو نجات پائیں گے ۔ تمام کلیسیائی تاریخ میں چناؤ کے عقیدے ( یا پہلے سے چُناؤ) کے بارے میں دو اہم نظریات پائے جاتے رہے ہیں ۔ ایک نظریہ جیسے ہم علمِ سابق یا علم غیب کا نام دیں گے سکھاتا ہے کہ خدا اپنے علمِ کامل کے وسیلہ سے اُن لوگوں کو جانتا ہے جو وقت گزرنے کے ساتھ نجات کےلیے اپنی آزاد مرضی سے مسیح یسوع پر ایمان لائیں گے ۔ اور خدا اس الٰہی علمِ سابق کی بنیاد پر ان لوگوں کو "بنای ِعالم سے پہلے" چُن لیتا ہے ( افسیوں 1باب 4آیت)۔ امریکی ایونجیلیکل گروہ کی اکثریت اس نظریے کو مانتی ہے ۔

دوسرا مرکزی نظریہ آگسٹینیائی نظریہ کہلاتا ہے جو بنیادی طور پر یہ تعلیم دیتا ہے کہ خدا مسیح پر ایمان لانے والوں کو نہ صرف منتخب کرتا ہے بلکہ اُنہیں الٰہی طور پر یہ ایمان بخشنے کےلیے بھی منتخب کرتا ہے کہ وہ نجات کے لیے مسیح پر انحصار کریں ۔ دوسرے الفاظ میں نجات کےلیے خدا کا چناؤ کسی شخص کے ایمان لانے کے حوالے سے اپنے علمِ سابق پرانحصار نہیں کرتا ، بلکہ اِس چناؤ کا انحصار قادرِ مطلق خدا کے آزاد اور خودمختار فضل پرہے ۔ خدا لوگوں کو نجات کے لیے چُنتا ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ مسیح پر ایمان لے آتے ہیں کیونکہ خدا نے اُنہیں چُن رکھا ہے ۔

اس اختلاف کا اہم نقطہ یہ ہے کہ نجات کےلیے حتمی فیصلہ کس کا ہے خدا کا یا انسان کا ؟ پہلے نظریے ( نظریہ علمِ سابق ) میں انسان کو اختیار حاصل ہے ؛ اُس کی آزاد مرضی خود مختار ہے اور وہ مرضی خدا کے چناؤ کےلیے فیصلہ کُن عنصر بن جاتی ہے ۔ خدا باپ یسوع مسیح کے وسیلہ سے نجات کی راہ مہیا کر سکتا ہے لیکن نجات کو حقیقی شکل دینے کےلیے کسی انسان کو شخصی طور پر مسیح کو قبول کرنا ہو گا ۔ یہ نظریہ بالآخر خدا کی خود مختاری کے بارے میں بائبلی تفہیم کو کم کرتا معلوم ہوتا ہے ۔ یہ نظریہ خالق کی طرف سے نجات کی فراہمی کو مخلوق کے رحم و کرم پر چھوڑ دیتا ہے؛ اگر خدا لوگوں کو فردوس میں لانا چاہتا ہے تو اُسے یہ اُمید کرنی ہوگی کہ انسان آزادانہ طور پر اُس کے نجات کے راستے کا چناؤ کرے ۔ درحقیقت انتخاب کے بارے میں علمِ سابق کا نظریہ انتخاب کا نظریہ بالکل نہیں ہے کیونکہ حقیقتاًخدا چناؤ نہیں کرتا بلکہ وہ محض تصدیق کر رہا ہوتا ہے ۔ یہ انسان ہی ہے جو حتمی فیصلہ کرنے والا ہے ۔

آگسٹینیائی نظریے میں خدا اختیار کا حامل ہے ؛ وہی ہے جو اپنی خود مختار مرضی کے مطابق آزادانہ طور پر اُن لوگوں کا چناؤ کرتا ہے جن کو وہ نجات دینا چاہتا ہے۔ وہ نجات پانے والوں کا نہ صر ف انتخاب کرتا ہے بلکہ وہ اصل میں اُن کی نجات کی تکمیل بھی کرتا ہے ۔محض نجات کو ممکن بنانے کی بجائے خدا نجات پانے والے لوگوں کا انتخاب کرتا اور پھر انہیں نجات بھی دیتا ہے ۔ یہ نظریہ خدا کو خالق اور خودمختار کی حیثیت سے اُ س کا حقیقی مقام دیتا ہے۔

آگسٹینیائی نظریہ مسائل سے مبّرا نہیں ہے ۔ ناقدین نے دعویٰ کیا ہے کہ یہ نظریہ انسان کو اُس کی آزادی مرضی سے محروم کر تا ہے ۔ اگر نجات پانے والوں کا چناؤ خدا کی طرف سے ہے تو پھر انسان کے ایمان لانے سے کیا فرق پڑتا ہے ؟ انجیل کی منادی کیوں کی جاتی ہے ؟ مزید برآں اگر خدا اپنی خود مختار مرضی کے مطابق چناؤ کرتا ہے تو ہم اپنے اعمال کےلیے کس طرح ذمہ دار ہو سکتے ہیں ؟یہ وہ تمام مناسب اور واجب سوالات ہیں جن کا جواب دینے کی ضرورت ہے ۔ رومیوں 9باب ان سوالات کے جوابات کےلیے ایک عمدہ حوالہ ہے جو چناؤ میں خدا کی خود مختاری کے بارے میں سب سے زیادہ گہرا ئی سے بات کرتا ہے ۔

اس حوالے کا سیاق و سباق رومیوں 8 باب سے ہی جاری ہے اور اِن بڑے تعریفی الفاظ کے ساتھ ختم ہوتا ہے :" کیونکہ مجھ کو یقین ہے کہ خُدا کی جو محبّت ہمارے خُداوند مسیح یسوع میں ہے اُس سے ہم کو نہ مَوت جُدا کر سکے گی نہ زِندگی۔ نہ فرشتے نہ حکومتیں۔ نہ حال کی نہ اِستقبال کی چیزیں۔ نہ قدرت نہ بلندی نہ پستی نہ کوئی اَور مخلوق" ( رومیوں 8باب 38-39آیات)۔ یہ آیات پولس رسول کو اس بات پر غور کرنے میں رہنمائی کرتی ہیں کہ یہودی اس بیان پر کس طرح ردّ عمل ظاہر کر سکتے ہیں ۔ چونکہ یسوع مسیح اسرائیل کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے لیے آیا تھا اور ابتدائی کلیسیا بھی اپنی خاصیت کے لحاظ سے بڑی حد تک یہودی تھی لہذا یہودیوں کے مقابلے میں غیر اقوام کے اندر انجیل بڑی تیزی سے پھیل رہی تھی۔ درحقیقت زیادہ تر یہودیوں نے انجیل کو ٹھوکر کھلانے والے پتھر کے طور پر دیکھا ( 1کرنتھیوں 1باب 23آیت) اور اس وجہ سے اُنہوں نے مسیح یسوع کو مستر د کر دیا تھا ۔ یہ بات اوسط درجے کے یہودی کےلیے حیرت کا باعث ہوگی کہ آیا خدا کے چناؤ کا منصوبہ ناکام ہو گیا ہے کیونکہ بیشتر یہودی انجیل کے پیغام کو پسند نہیں کرتے ۔

رومیوں 9باب کے دوران پولس رسول بڑی ترتیب سے واضح کرتا ہے کہ خدا کے خود مختار چناؤ کا عمل ابتدا ہی سے کام کرتا آرہا ہے ۔ وہ انتہائی اہم بیان کے ساتھ شروع کرتا ہے :" اِس لئے کہ جو اِسرائیل کی اَولاد ہیں وہ سب اِسرائیلی نہیں" ( رومیوں 9باب 6آیت)۔ اس کا مطلب یہ ہے اسرائیل ( یعنی ابرہام ، اضحاق اور یعقوب کی اولاد) سے تعلق رکھنے والے تمام لوگ حقیقی اسرائیلی(خدا کے چنے ہوئے ) نہیں ہیں ۔ اسرائیل کی تاریخ کا جائزہ لیتے ہوئے پولس رسول واضح کرتا ہے کہ خدا نے اسمٰعیل کی بجائے اضحاق کا اور عیسو کی بجائے یعقوب کا چناؤ کیا تھا ۔ صرف مخصوص صورتحال میں ہی کوئی شخص یہ خیال کر سکتا ہے کہ خدا اُس ایمان اور نیک اعمال کی بنیاد پر اُن لوگوں کا چناؤ کر رہا تھا جو وہ مستقبل میں کریں گے وہ مزید بیان کرتا ہے "اور ابھی تک نہ تو لڑکے پیدا ہوئے تھے اور نہ اُنہوں نے نیکی یا بدی کی تھی کہ اُس سے کہا گیا کہ بڑا چھوٹے کی خدمت کرے گا" ( رومیوں 9باب 11 آیت)۔

اس موقع پر کسی شخص کو خدا پر ناانصافی سے عمل کرنے کا الزام لگانے کی آزمایش کا سامنا ہو سکتا ہے ۔ پولس رسول 14 آیت میں اس الزام کی توقع کرتے ہوئے بڑے واضح الفاظ میں بیان کرتا ہے کہ خدا کسی بھی لحاظ سے بے انصاف نہیں ہے "کیونکہ وہ مُوسیٰ سے کہتا ہے کہ جس پر رحم کرنا منظور ہے اُس پر رحم کروں گا اور جس پر ترس کھانا منظور ہے اُس پر ترس کھاؤں گا" (رومیوں 9 باب 15آیت)۔ خدا اپنی مخلوق پر خود مختار ہے۔ وہ اُن لوگوں کا چنا ؤ کرنے کے لئے آزاد ہے جنہیں وہ چننا چاہتا ہے اور وہ اُن لوگوں کو نظر انداز کرنے کے لیے آزاد ہے جنہیں وہ نظر انداز کرنا چاہتا ہے ۔ مخلوق کو خالق پر بے انصاف ہونے کا الزام لگانے کا کوئی حق نہیں ہے۔ یہ سوچنا کہ مخلوق خالق کے فیصلے کو تبدیل کر سکتی پولس کے لئے مضحکہ خیز بات ہے اور ہر مسیحی کے لیے بھی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ رومیوں 9باب کا توازن اِس نکتے کی تصدیق کرتا ہے۔

جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ دیگر اور حوالہ جات بھی خدا کی طرف سے چناؤ کے موضوع پر کسی حد تک بات کرتے ہیں ( یوحنا 6باب 37-45آیات اور افسیوں 1باب 3-14آیات) ۔ اصل نقطہ یہ ہے کہ خدا نے انسانیت کے بقیہ کو نجات دینے کےلیے حکم جاری کر دیا ہے۔ ان چنے ہوئے لوگوں کو دنیا کی تخلیق سے پہلے ہی منتخب کر لیا گیا تھا اور مسیح میں اُن کی نجات مکمل ہے ۔ جیسا کہ پولس رسول بیا ن کرتا ہے "کیونکہ جن کو اُس نے پہلے سے جانا اُن کو پہلے سے مقرر بھی کیا کہ اُس کے بیٹے کے ہمشکل ہوں تاکہ وہ بہت سے بھائیوں میں پہلوٹھا ٹھہرے۔ اور جن کو اُس نے پہلے سے مقرر کیا اُن کو بُلایا بھی اور جن کو بلایا اُن کو راست باز بھی ٹھہرایا اور جن کو راست باز ٹھہرایا اُن کو جلال بھی بخشا" ( رومیوں 8باب 29-30آیات)۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

خُدا کے چُنے ہوئے لوگ کون ہیں؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries