settings icon
share icon
سوال

مسیح کی الوہیت کے لیے سب سے زبردست بائبلی دلائل کون کون سے ہیں ؟

جواب


چونکہ نیا عہد نامہ مسیح کی الوہیت کے حوالہ جات سے بھرا ہوا ہےلہذا اِس سے انکار کرنا مشکل ہے۔چاروں اناجیل سے لے کر اعمال کی کتاب اور پولس کے خطو ط تک یسوع کو نہ صرف مسیحا (یا مسیح) کے طور پر دیکھا جاتا ہے بلکہ وہ خود کو خدا کے برابر بھی ٹھہرایا ہے ۔ جب پولس یسوع کو ہمارا "بزرگ خدا اورمنجی " (ططُس 2باب 13آیت) قرار دیتا اور یہاں تک کہتا ہے کہ یسوع اپنے تجسم سے پہلے "خدا کی صورت" میں موجود تھا (فلپیوں 2باب 5-8آیات ) تو وہ مسیح کی الوہیت کا حوالہ دیتا ہے ۔ خُدا باپ یسوع کے بارے میں فرماتا ہے کہ "اَے خُدا تیرا تخت ابدُالآباد رہے گا اور تیری بادشاہی کا عصا راستی کا عصا ہے" (عبرانیوں 1باب8آیت)۔ یسوع کا براہِ راست خالق کے طور پر ذکر کیا جاتا ہے (یوحنا 1باب 3آیت؛ کلسیوں 1باب 16-17آیات)۔ بائبل کے دیگر حوالہ جات بھی مسیح کی الوہیت کی تعلیم دیتے ہیں (مکاشفہ 1باب 7؛ 2باب 8آیت؛ 1کرنتھیوں 10باب 4آیت؛ 1پطرس 5باب 4آیت)۔

گوکہ یہ براہ راست حوالہ جات اِس بات کو ثابت کرنے کے لیے کافی ہیں کہ بائبل یسوع کے الٰہی ذات ہونے کا دعویٰ کرتی ہے لیکن بالواسطہ نقطہ نظر زیادہ طاقتور ثابت ہو سکتا ہے۔ باپ کے الٰہی استحقاق کو اختیار کرتے ہوئےیسوع نے خود کو متعدد بار یہوواہ خدا کے مقام پر فائز ہونے کے طور پر متعارف کروایا تھا۔ وہ اکثر ایسے کام اور دعوےکر رہا تھا جن کے کرنے اور کہنے کا حق صرف خدا کو ہے۔ یسوع نے خود کو اُن طریقوں سے بھی پیش کیا تھاجنہوں نے اُس کی الوہیت کی طرف اشارہ کیا ہے ۔ اُن میں سے کچھ مثالیں ہمیں یسوع کی اپنی الوہیت کے بارے میں آگاہی کا زبردست ثبوت فراہم کرتی ہیں۔

مرقس 14 باب میں اپنے مقدمے کے دوران جب یسوع ایک مجرم کی حیثیت سے سردار کاہن کے سامنے کھڑا تھا تو "سردار کاہِن نے اُس سے پھر سوال کِیا اور کہا کیا تُو اُس ستُودہ کا بیٹا مسیح ہے؟ یِسُوعؔ نے کہا ہاں مَیں ہُوں اور تُم اِبنِ آدمؔ کو قادِرِ مُطلق کی دہنی طرف بیٹھے اور آسمان کے بادلوں کے ساتھ آتے دیکھو گے"(مرقس 14باب 61-62آیات)۔ یہاں یسوع پرانے عہد نامے میں دانی ایل کی کتاب کی طرف اشارہ کر رہا ہے جہاں دانی ایل نبی بیان کرتا ہے کہ "مَیں نے رات کو رویا میں دیکھا اور کیا دیکھتا ہُوں کہ ایک شخص آدمؔ زاد کی مانِند آسمان کے بادلوں کے ساتھ آیا اور قدِیمُ الایّام تک پہنچا۔ وہ اُسے اُس کے حضُور لائے۔ اور سلطنت اور حشمت اور مُملکت اُسے دی گئی تاکہ سب لوگ اور اُمّتیں اور اہلِ لُغت اُس کی خدمت گُذاری کریں۔ اُس کی سلطنت ابدی سلطنت ہے جو جاتی نہ رہے گی اور اُس کی مملکت لازوال ہو گی"(دانی ایل 7باب 13-14آیات)۔

دانی ایل کی اِس رویا کا حوالہ دیتے ہوئے یسوع ابنِ آدم یعنی اُس طور پر اپنی نشاندہی کر رہا ہے جسے" سلطنت اور حشمت اور مُملکت دی گئی تاکہ سب لوگ اور اُمّتیں اور اہلِ لُغت اُس کی خِدمت گُذاری کریں ۔ "ابن آدم کے پاس ایک ایسی بادشاہت ہے جو ابدی ہے اور کبھی ختم نہ ہو گی ۔ کسی انسان کے ذہن میں فوراً یہ خیال آئے گا کہ وہ کیسا شخص ہے جس کی بادشاہت ابدی ہے۔ وہ کس طرح کا شخص ہے جس کو ابدی بادشاہی دی جائے گی اور جس کی تمام لوگ خدمت کریں گے؟ سردار کاہن جس نے یسوع کے الوہیت کے دعوے کی فوراً شناخت کر لی تھی اُس نے اپنے کپڑے پھاڑ ے اور یسوع کو کفرکہنے کا مرتکب قرار دیا۔

یسوع کے "ابن آدم" کے خطاب کے استعمال کی دفاعِ ایمان کے حوالے سے حیرت انگیز طور پر بڑی قدر ہے۔ مسیح کی الوہیت پر شک کرنے والاشخص یسوع کے اُن مخصوص القابات کو آسانی سے رد نہیں کر سکتاجو یسوع نے اپنے لیے استعمال کیے ہیں ۔ چونکہ مسیح نے خود کو اِ س انداز سے پیش کیا ہے جس کی متعدد شہادتیں موجود ہیں اِس لیے یہ انجیل کے تمام ذرائع میں پایا جاتا ہے۔ یسوع کے بارے میں "ابن آدم" کی اصطلاح اناجیل سے ہٹ کر صرف چند بار استعمال ہوئی ہے (اعمال 7باب 56آیت؛ مکاشفہ 1باب 13آیت؛ 14باب 14آیت)۔ ابتدائی رسولی کلیسیا میں اِس کے قلیل استعمال کے پیش نظر اگر کہا جائے کہ یسوع نے اِس مخصوص لقب کو اپنے لیے استعمال نہیں کیا تھا تو کلیسیا کی طرف سے پھر اِس کا بیان کرنا ایسے ہی ہوگا جیسےکوئی شخص خود اِس لقب کو یسوع کے منہ کے الفاظ قرار دینے کی کوشش کرے۔ اگر یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ یسوع نے واقعی اپنے لیے اِس لقب کا استعمال کیا ہے تو واضح ہو جاتا ہے کہ یسوع خود کو لازوال قوت اور محض ایک عام انسان سے بالاتر ایک منفرد ہستی سمجھتا تھا ۔

بعض اوقات یسوع کے کاموں نے اُس کی شناخت کو عیاں کیا ۔ مرقس 2 باب میں یسوع کا فالج زدہ شخص کو شفا دینا اُس کے اختیار اور گناہوں کو معاف کرنے کی صلاحیت کو ظاہر کرنے کے لیے تھا(مرقس 2باب 3-12آیات)۔ اُس کے یہودی سامعین کے نزدیک ایسی صلاحیتیں صرف خدا کے لیے مخصوص تھیں۔ انجیل میں یسوع بھی کئی بار حمد و ستائش قبول کرتاہے ( متی 2باب 11آیت؛ 28باب 9، 17آیات؛ لوقا 24باب 52آیت؛ یوحنا 9باب 38آیت؛ 20باب 28آیت)۔ یسوع نے کبھی بھی ایسی تعظیم کو رد نہیں کیا۔ بلکہ اُس نے اُن کی طرف سے ملنے والی تعظیم کو درست خیا ل کیا تھا۔ دیگر حوالہ جات میں یسوع نے سکھایا کہ ابن آدم بالآخر بنی نو ع انسان کی عدالت کرے گا (متی 25باب 31-46آیات) اور یہ بھی کہ ہماری ابدی منزل کا انحصار اِس بات پر ہے کہ ہم یسوع کی ذات کے تعلق سے کیسا رَد عمل ظاہر کرتے ہیں (مرقس 8باب 34-38آیات)۔ ایسا طرزِ عمل یسوع کی اپنی الوہیت کی آگاہی کا مزید اشارہ دیتا ہے۔

یسوع نے یہ بھی کہا تھا کہ اُس کا مُردوں میں سے جی اُٹھنا اُن خاص دعوؤں کی تصدیق کرے گا جو اُس نے اپنے بارے میں کیے تھے (متی 12باب 38-40آیات)۔ مصلوب کیے جانے اور ارمتیہ کے یوسف کی قبر میں دفن ہونے کے بعد یسوع درحقیقت اپنی الوہیت کے دعوؤں کو ثابت کرتے ہوئے مُردوں میں سے جی اُٹھا۔

اس معجزاتی واقعہ کے ثبوت بہت طاقتور ہیں۔ متعدد ہم عصر ذرائع مصلوب ہونے کے بعد یسوع کے مختلف حالات میں لوگوں اور گروہوں دونوں پر ظاہر ہونے کی اطلاع دیتے ہیں (1کرنتھیوں 15باب 3-7آیات؛ متی 28باب 9آیت؛ لوقا 24باب 36-43آیات؛ یوحنا 20باب 26- 30 آیات ؛ 21باب 1-14آیات؛ اعمال 1باب 3-6آیات)۔ اُن میں سے بہت سے گواہ اِس عقیدے کی خاطرمرنے کو تیار تھے، اور اُن میں سے کئی ایک نے ایسا کیا بھی ! روم کا کلیمنٹ اور یہودی تاریخ دان جوسیفس ہمیں پہلی صدی میں اُن کی متعدد شہادتوں کی اطلاعات فراہم کرتے ہیں۔ مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے شواہد کی اہمیت کو کم کرنے کے لیے استعمال ہونے والے تمام نظریات (جیسےکہ نظریہ فریب نظری) معلوم اعداد و شمار کی وضاحت کرنے میں ناکام رہے ہیں۔ یسوع کامُردوں میں سے جی اٹھنا تاریخ کی ایک ثابت شدہ حقیقت ہے اور یہ یسوع کی الوہیت کا سب سے معیاری ثبوت ہے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

مسیح کی الوہیت کے لیے سب سے زبردست بائبلی دلائل کون کون سے ہیں ؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries