سوال
مسیحیوں کو ماضی کے(نجات سے پہلے یا بعد کے)احساسِ گناہ، گناہوں کی ندامت سے کیسے نپٹنا چاہیے؟
جواب
یہ حقیقت ہے کہ ہر انسان نے گناہ کیا ہے، لہذا احساسِ گناہ اِس عمل کے مختلف نتائج میں سے ایک ہے۔ ہمیں اِس احساسِ گناہ، ندامت یا ضمیر کی ملامت کے لئے شکر گزار ہونا چاہیے کیونکہ یہ ہمیں معافی کے طلبگار ہونے کی ترغیب دیتی ہے ۔ جِس وقت ایک شخص گناہ سے منہ موڑ کر یسوع مسیح پر ایمان لاتا ہے تو اُس کے گناہ معاف کر دئیے جاتے ہیں ۔ توبہ کرنا ایمان کا ایک حصہ ہے جس سے ہماری نجات کی جانب رہنمائی ہوتی ہے(متی 3باب 2آیت ؛ 4باب 17آیت؛ اعمال 3باب 19آیت)۔
حتیٰ کہ مسیح میں ہمارے نہایت گھناؤنے گناہ بھی بخش دئیے جاتے ہیں (1کرنتھیوں 6باب 9-11آیات میں گھناؤنے گناہوں کی فہرست پر غور کریں جو معاف کئے جا سکتے ہیں)۔ بائبل کے مطابق نجات خُدا کے فضل کی بدولت ملتی ہے اور فضل میں معافی ہے۔ نجات حاصل کرنے کے بعد بھی کسی شخص سے رُوحانی کمزوری کی بدولت گناہ سرزد ہو سکتا ہےاور جب ایسا ہوتا ہے تو خدا اِس گناہ کو معاف کرنے کا وعدہ کرتا ہے۔ "اے میرے بچو! یہ باتیں مَیں تمہیں اِس لئے لکھتا ہوں کہ تم گناہ نہ کرو اور اگر کوئی گناہ کرے تو باپ کے پاس ہمارا ایک مددگار موجود ہے یعنی یسوع راست باز" (1یوحنا 2باب 1آیت)۔
تاہم گناہوں سے معافی کا مطلب ہمیشہ یہ نہیں ہوتا کہ ہم احساسِ گناہ سے بھی آزاد ہو جائیں ۔ جب ہمارے گناہ معاف ہو جاتے ہیں تو اِس کے بعد بھی ہم اُنہیں یاد رکھتے ہیں ۔ اِس کے علاوہ ہمارا ایک رُوحانی دُشمن بھی ہے جو "بھائیوں پر الزام لگانے والا " کہلاتا ہے (مکاشفہ12باب 10آیت )۔وہ بڑی بے رحمی سے ہمیں ناکامیوں، غلطیوں، اور گناہوں کی یاد دِلاتا رہتا ہے۔ جب کسی مسیحی کوضمیر کی ملامت، ندامت یا گناہ کا احساس ہوتا ہے تو اُسے مندرجہ ذیل کام کرنے چاہیے۔
أ. اپنے تمام سابقہ گناہ جن کو آپ جانتے ہیں اور جن کا آپ نے ابھی تک اعتراف نہیں کیا اُن کا خدا کے حضور اعتراف کریں ۔ کچھ معاملات میں احساسِ گناہ مناسب ہے کیونکہ ہمیں گناہوں کا اعتراف اور اقرارکرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔کئی دفعہ ہمیں گناہ کا احساس اس لیے ہوتا ہے کیونکہ ہم قصور وارہوتے ہیں!(32زبور 3-5آیات میں داؤد کے احساسِ گناہ اور اُس کے حال کے بیان کو دیکھیں)۔
ب. خُدا سے دُعا کریں کہ وہ اُن گناہوں کو بھی ظاہر کرے جن کے اعتراف اور اقرار کی ضرورت ہے۔ خُداوند کے حضور ایمانداری سے اپنے دل کو کھولنے کی ہمت کریں۔ "اَے خُدا! تُو مجھے جانچ اور میرے دِل کو پہچان۔ مجھے آزما اور میرے خیالوں کو جان لے۔ اور دیکھ کہ مجھ میں کوئی بُری روِش تو نہیں اور مجھ کو ابدی راہ میں لے چل" (139زبور 23-24آیات )۔
ج. خُدا کے وعدے پر بھروسہ کریں کہ وہ گناہوں کو معاف کرے گا اور احساسِ گناہ کو مسیح کے خُون سے ختم کرے گا (1یوحنا 1باب 9آیت؛ 85زبور 2آیت ؛ 86زبور 5آیت ؛ رومیوں 8باب 1آیت )۔
د. جہاں تک ممکن ہو جو گناہ دوسروں کے خلاف سرزرد ہوئے ہیں اُن کا ہر جانہ ادا کریں۔ زکائی نے توبہ کرتے ہوئے خُداوند سے وعدہ کیا کہ "مَیں اپنا آدھا مال غریبوں کو دیتا ہوں اور اگر کسی کا ناحق لے لیا ہے تو اُس کو چوگنا ادا کرتا ہوں" (لوقا8باب 19آیت) ۔ یہ "توبہ کے موافق پھل لانے" کا حصہ ہے جس کی یوحنا نے منادی کی ہے (لوقا3باب 9آیت) ۔
ه. جب پہلے سے ترک کردہ اور اعتراف و اقرار شُدہ گناہوں کا احساس ہو تو ایسے احساس کو جھوٹا احساس جان کر ردّ کریں کیونکہ خُداوند معاف کرنے کے وعدے میں سچا ہے103زبور 8-12آیات کو پڑھیں اور غور کریں۔
و. خُدا سے کہیں کہ وہ آپ پر الزام لگانے والے ابلیس کو ملامت کرےاور خُداوند سے دُعا کریں کہ وہ اُس خوشی کو بحال کرے جواحساسِ گناہ سے آزادی کے نتیجے میں حاصل ہوتی (51زبور 12آیت )۔
اس موضوع کے حوالہ سے 32زبور کا مطالعہ بہت فائدہ مند ہے ۔ اگرچہ داؤد نے خوفناک گناہ کیاتھا لیکن وہ گناہ اور احساسِ گناہ سے آزادی پاتا ہے ۔ اس زبور میں وہ احساسِ گناہ کے اسباب اور معافی کی حقیقت سے نپٹتا ہے ۔ 51زبور اِس موضوع پر مزید سیکھنے کے لئے ایک اور اچھا حوالہ ہے۔ اس زبور میں گناہوں کے اقرار پر زور دیا گیا ہے کیونکہ داؤد احساسِ گناہ اور رنجیدہ دِل کے ساتھ خُدا سے فریاد کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں اُسے خوشی اور بحالی حاصل ہوتی ہے ۔
آخر ی بات یہ ہے کہ اگر گناہوں کا اقرار اوراُن سے توبہ کر لی گئی ہے اور گناہوں کی معافی بھی مل چکی ہے تو اب آگے بڑھنے کا وقت ہے ۔ یاد رکھیں کہ ہم جتنوں نے مسیح یسوع کو قبول کیا ہے وہ نئے مخلوق ہیں۔ "اِس لئے اگر کوئی مسیح میں ہے تو وہ نیا مخلوق ہے۔ پُرانی چیزیں جاتی رہیں۔ دیکھو وہ نئی ہو گئیں" (2کرنتھیوں 5باب 17آیت )۔ "پرانی انسانیت " جو جا چکی ہے ماضی کے اُن گناہوں کی یاد ہے جو احساسِ گناہ پیدا کرتے تھے ۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ بعض مسیحی اپنی سابقہ گناہ آلودہ زندگی اور اُس کی اُن یادوں میں رہنا پسند کرتے ہیں جن کو مردہ قرار دے کر بہت پہلے دفن کر دینا چاہیے تھا۔ گناہ آلودہ زندگی اور اُن کی یادوں میں رہنا فضول ہے کیونکہ یہ اُس فتح مند مسیحی زندگی کے خلاف ہے جو خُدا ہم سے چاہتا ہے ۔ ایک دانشمند کہاوت ہے "اگر خُدا نے آپ کو گناہ کے گندے نالے سے نکال کر نجات بخشی ہے تو دوبارہ چھلانگ لگا کر اِس میں اِدھر اُدھر تیرتے نہ پھریں"۔
English
مسیحیوں کو ماضی کے(نجات سے پہلے یا بعد کے)احساسِ گناہ، گناہوں کی ندامت سے کیسے نپٹنا چاہیے؟