settings icon
share icon
سوال

ایک مسیحی کو کب سِول نافر مانی کی اجازت ہوتی ہے ؟

جواب


سَنہ54 تا 68 بعد از مسیح روم کا شہنشاہ نیرو کلودیس قیصر اگستس جرمینکس تھا جسے عام طور پر صرف نیرو ہی کہا جاتا تھا۔ اُس کے بارے میں مختصر طور پر کہا جائے توشہنشاہ کو کسی بھی صورت ایک اچھے کردار یا اچھی اخلاقیات کا مالک ہونے کے لیے نہیں جانا جاتا تھا۔64 بعد از مسیح میں روم میں آتش زدگی کا ایک بہت ہی بڑا واقعہ پیش آیا، اور اُس کے تعلق سے شُبہ کیا جاتا تھا کہ نیرؔو خود اُس کا ذمہ دار تھا۔ رومی سینیٹر اور مورخ ٹیسی ٹس نے اپنی تحریروں میں لکھا کہ "پس اُس نے اِس افواہ سے چھٹکارہ پانے کے لیے (کہ آگ اُس نے لگوائی تھی)اِس جرم کا جھوٹا الزام اُن لوگوں پر لگا دیا جنہیں عام طور پر مسیحیوں کے طور پر جانا جاتا تھا"(Annals, XV)۔

نیرؔو کے دور میں پولس رسول نے رومیوں کو اپنا خط لکھا تھا۔ اگرچہ کوئی بھی شخص توقع کر سکتا ہے کہ وہ روم کے مسیحیوں کو اپنے جابر حکمران کے خلاف اُٹھنے کی ترغیب دے گا، لیکن 13 باب میں ہم یہ پڑھتے ہیں:

"ہر شخص اعلیٰ حکومتوں کا تابع دار رہے کیونکہ کوئی حکومت اَیسی نہیں جو خُدا کی طرف سے نہ ہو اور جو حکومتیں مَوجُود ہیں وہ خُدا کی طرف سے مُقرّر ہیں۔پس جو کوئی حکومت کا سامنا کرتا ہے وہ خُدا کے اِنتِظام کا مُخالِف ہے اور جو مُخالِف ہیں وہ سزا پائیں گے۔کیونکہ نیکوکار کو حاکِموں سے خَوف نہیں بلکہ بدکار کو ہے ۔ پس اگر تُو حاکِم سے نِڈر رہنا چاہتا ہے تو نیکی کر ۔ اُس کی طرف سے تیری تعریف ہو گی۔کیونکہ وہ تیری بہتری کے لئے خُدا کا خادِم ہے لیکن اگر تُو بدی کرے تو ڈر کیونکہ وہ تلوار بے فائدہ لئے ہُوئے نہیں اور خُدا کا خادِم ہے کہ اُس کے غضب کے مُوافِق بدکار کو سزا دیتا ہے۔پس تابع دار رہنا نہ صِرف غضب کے ڈر سے ضرور ہے بلکہ دِل بھی یہی گواہی دیتا ہے۔تُم اِسی لئے خِراج بھی دیتے ہو کہ وہ خُدا کے خادِم ہیں اور اِس خاص کام میں ہمیشہ مشغُول رہتے ہیں۔سب کا حق ادا کرو ۔ جس کو خِراج چاہئے خِراج دو ۔ جس کو محصُول چاہئے محصُول ۔ جِس سے ڈرنا چاہئے اُس سے ڈرو ۔ جس کی عِزت کرنا چاہئے اُس کی عِزت کرو"(رومیوں 13باب1-7 آیات) ۔

ایک بہت ہی بے رحم اور غیر ایماندار شہنشاہ کے دور میں بھی پولس رُوح القدس کی ہدایت سے تحریک کے تحت لکھتے ہوئے اپنے قارئین سے کہتا ہے کہ وہ حکومت کے تابع رہیں۔ مزید برآں وہ بیان کرتا ہے کہ خُدا کے قائم کردہ اختیار کے علاوہ کوئی دوسرا اختیار موجود نہیں ہے اور حکمران اپنے سیاسی عہدے پر خُدا کی خدمت کر رہے ہیں۔

پطرس نئے عہد نامے کے اندر موجود اپنے دو خطوط میں سے ایک کے اندر تقریباً یہی بات لکھتا ہے:

"خُداوند کی خاطر اِنسان کے ہر ایک اِنتظام کے تابع رہو ۔ بادشاہ کے اِس لئے کہ وہ سب سے بزُرگ ہے۔اور حاکموں کے اِس لئے کہ وہ بدکاروں کی سزا اور نیکوکاروں کی تعریف کے لئے اُس کے بھیجے ہُوئے ہیں۔کیونکہ خُدا کی یہ مرضی ہے کہ تُم نیکی کر کے نادان آدمیوں کی جہالت کی باتوں کو بند کر دو۔اور اپنے آپ کو آزاد جانو مگر اِس آزادی کو بدی کا پردہ نہ بناؤ بلکہ اپنے آپ کو خُدا کے بندے جانو۔سب کی عِزت کرو ۔ برادری سے مُحبّت رکھّو ۔ خُدا سے ڈرو ۔ بادشاہ کی عزت کرو "(1 پطرس 2باب13-17 آیات)

پطرس اور پولس دونوں کی تعلیمات کی وجہ سے مسیحیوں کی طرف سے کافی زیادہ سوالات پوچھے جاتے ہیں جن کا تعلق سوِل نافرمانی کے ساتھ ہوتا ہے۔ کیا پولس اور پطرس کا مطلب یہ ہے کہ مسیحی ہمیشہ ہی حکومت کے حکم کے تابع رہتے رہیں چاہے اُن سے جو کچھ مرضی کروایا جاتا رہے؟

سِول نافرمانی کے متعلق مختلف نظریات پر ایک طائرانہ نظر

سِول نافرمانی کے معاملے سے متعلق عام طور پر تین مختلف طرح کے نقطہ نظر پائے جاتے ہیں۔ انتشار پسند نقطہ نظر کہتا ہے کہ ایک شخص جب چاہے حکومت کی نافرمانی کا انتخاب کر سکتا ہےاور ایسا کچھ بھی کرنے میں وہ ذاتی طور پر حق بجانب ہے۔ اِس طرح کے مؤقف کو بائبل کی کوئی حمایت حاصل نہیں ہے جس کا ثبوت رومیوں 13 باب میں پولس کی تحریر سے ملتا ہے۔

انتہا پسند محبت وطن کا کہنا ہے کہ کسی بھی شخص کو ہمیشہ اپنے ملک کے قوانین کی پیروی اور اطاعت کرنی چاہیے، چاہے حکم کچھ بھی ہو۔ جیسا کہ ابھی یہاں پر دکھایا جائے گا، اِس نظریے کو بھی بائبلی حمایت نہیں حاصل ہے۔ مزید برآں پوری دُنیا کی اقوام کی تاریخ میں اِس نظریے کی حمایت نہیں کی جاتی۔ مثال کے طور پر نورمبرگ مقدموں کے دوران نازی جنگی مجرموں کے وکیلوں نے اِس دفاع کو استعمال کرنے کی کوشش کی کہ اُن کے مؤکل صرف حکومت کے براہِ راست احکامات پر عمل پیرا ہیں، اِس لیے اُنہیں اِن اقدامات کا ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ تاہم، ایک جج نے اِس سادہ سے سوال کے ساتھ اُن کی اِس دلیل کو مسترد کر دیا کہ :"لیکن حضراتِ گرامیِ کیا ہمارے ملکی قوانین سے بالاتر کوئی قانون موجود نہیں ہے؟"

یہاں پر بائبلی مؤقف کلامِ مُقدس کے احکامات کی پاسداری ہے، اگر کوئی حکومت کسی مسیحی کو بدی کرنے کا حکم دیتی ہے تو اُسے سِول نافرمانی کرنے کی اجازت دی جاتی ہے، یعنی کوئی ایسا کام جو خُدا کے کلام کی واضح تعلیمات اور تقاضوں کی خلاف ورزی ہو۔

سِول نافرمانی –کلامِ مُقدس میں مثالیں

خروج 1باب کے اندر مصری فرعون نے دو یہودی دائیوں کوواضح حکم دیا کہ وہ پیداہونے والے تمام یہودی لڑکوں کو اُنکی پیدایش کے وقت ہی قتل کردیں۔ کوئی بھی انتہا پسند محبِ وطن حکومت کے اِس حکم پر عمل ضرور کرتا، لیکن بائبل مُقدس بیان کرتی ہے کہ "لیکن وہ دائیاں خُدا سے ڈرتی تھیں ۔ سو اُنہوں نے مِصرؔ کے بادشاہ کا حکم نہ مانا بلکہ لڑکوں کو جیتا چھوڑ دیتی تھیں " (خروج 1باب17 آیت) ۔

یشوع کی کتاب2 باب کے اندر راحؔب نے یریحو کے بادشاہ کی طرف سے اسرائیلی جاسوسوں کو پکڑوانے کے حکم کی واضح طور پر نافرمانی کی جو اُن کے سپاہیوں کی اطلاع کے مطابق اُن کے شہر میں گھسے ہوئے تھے۔ اِس کے برعکس اُس نے رسی کے ذریعے سے اُنہیں نیچے لٹکایا تاکہ وہ فرار ہو سکیں۔ اگرچہ راحب کو اعلیٰ سرکاری عہدیداروں کی طرف سے واضح حکم ملا تھا لیکن اُس نے اُس حکم کے خلاف مزاحمت کی ، اور جب یسوع اور اسرائیلی فوج نے یریحو شہر کو تباہ کیا تو اُس وقت خصوصی طور پر راحب کو بچا لیا گیا۔

1 سموئیل کی کتاب میں ایک فوجی مہم کے دوران اسرائیل کے بادشاہ ساؤل کی طرف سے ایک حکم درج ہے کہ جب تک ساؤل فلستیوں کے خلاف اپنی جنگ کو جیت نہیں جاتا کوئی بھی شخص کچھ بھی نہیں کھا سکتا تھا۔ تاہم ساؤل کے بیٹے یونتن نے ، جس نے حکم نہیں سُنا تھا اُس سخت جنگ سے تازہ دم ہونے کے لیے جو وہ فلستیوں کے خلاف لڑ رہے تھے شہد کھایا۔ جب ساؤل کو اِس بات کے بارے میں معلوم ہوا تو اُس نے حکم دیا کہ اُس کے بیٹے کو مار ڈالا جائے، بہرحال وہاں پر موجود لوگوں نے ساؤل اور اُس کے حکم کے خلاف مزاحمت کی اور یونتن کو مرنے سے بچایا(1سموئیل 14باب45 آیت)۔

بائبلی احکام کی تابعداری کرتے ہوئے سِول نافرمانی کی ایک اور مثال 1 سلاطین 18 باب کے اندر پائی جاتی ہے۔ اِس باب کے اندر مختصراً عبدیاہ نامی ایک شخص کا تعارف کروایا گیا ہے جو "خُداوند سے بہت ڈرتا تھا"۔ جس وقت ایزبل ملکہ خُدا کے نبیوں کو قتل کروا رہی تھی تو اُس وقت عبدیاہ نے اُن میں سے ایک سو کو لیکر چھپا دیا تاکہ وہ زندہ رہ سکیں۔ اِس طرح کا عمل حکومتی اختیار کی واضح خلاف ورزی ہے۔

2 سلاطین کے اندر ایک حکمران سرکاری عہدیدار کے خلاف بظاہر منظور شُدہ واحد بغاوت کا ریکاڑد ملتا ہے۔ اخزیاہ کی ماں عتلیاہ یہوداہ کے گھرانے کی شاہی اولاد کو ختم کرنا چاہتی تھی۔ تاہم اخزیاہ کی بیٹی نے اپنے بھائی یوآس کو لیا اور اُسے اتلیاہ سے چھپا دیا تاکہ اُن کے گھرانے کی نسل قائم رہ سکے۔ چھ سال کے بعد یہویدع نے کاریوں اور پہرے والوں کو بلا بھیجا یوآس کو بادشاہ ہونے کے لیے مسح کیا اور اتلیاہ کو موت کے گھاٹ اُتارا گیا۔

دانی ایل کی کتاب کے اندر سِول نافرمانی کی کئی ایک مثالیں ملتی ہیں۔ پہلی مثال 3 باب کے اندر پائی جاتی ہے جہاں پر سدرک، میسک اور عبدنجو نے نبوکدنضر بادشاہ کے حکم کی نافرمانی کرتے ہوئے سونے کی مورت کو سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ دوسری مثال 6 باب کے اندر ملتی ہے جہاں دانی ایل خود دارؔا بادشاہ کے اِس فرمان کی حکم عدولی کرتا ہے جس میں حکم دیا گیا تھا کہ بادشاہ کے علاوہ کسی اور کی عبادت نہ کی جائے۔ دونوں صورتوں میں خُدا نے اپنے لوگوں کو موت کی سزا سے بچایا اور جو کچھ اُنہوں نے کیا تھا اُس کی منظوری کا اشارہ دیا۔

نئے عہد نامے کے اندر اعمال کی کتا ب میں پطرس او ر یوحنا کی طرف سے اُس دور کے اعلیٰ عہدوں پر فائز لوگوں کے خلاف سِول نا فرمانی کا ریکارڈ پایا جاتا ہے۔ ایک پیدایشی طور پر لنگڑے شخص کو شفا دینے کے بعد پطرس اور یوحنا کو یسوع کی منادی کرنے کے جرم میں گرفتار کر کے قید میں ڈال دیا گیا۔ مذہبی حکام نے اُنہیں یسوع مسیح کے بارے میں تعلیم دینے سے روکنے کا عزم کر رکھا تھا، اِس کے جواب میں پطرس نے اُنہیں کہا کہ "تم ہی اِنصاف کرو۔ آیا خُدا کے نزدِیک یہ واجِب ہے کہ ہم خُدا کی بات سے تمہاری بات زِیادہ سُنیں۔کیونکہ ممکِن نہیں کہ جو ہم نے دیکھا اور سُنا ہے وہ نہ کہیں۔ " (اعمال 4باب19-20 آیات)۔ بعد میں اعلیٰ عہدیداروں نے رسولوں کا دوبارہ سامنا کیا اور اُنہیں اپنے حکم کی یاددہانی کروانے کی کوشش کی کہ وہ یسوع کے بارے میں تعلیم نہ دیں لیکن پطرس اور رسولوں نے اُنہیں جواب دیا کہ "ہمیں آدمیوں کے حکم کی نسبت خُدا کا حکم ماننا زِیادہ فرض ہے " (اعمال 5باب29 آیت)۔

سِول نافرمانی کی آخری مثال مکاشفہ کی کتاب کے اندر ملتی ہےجہاں پر مخالفِ مسیح اخیر زمانے میں زندہ تمام لوگوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ اُس کی طرف سے پیش کردہ بُت کی پرستش کریں۔ لیکن یوحنا رسول جس نے مکاشفہ کی کتاب کو قلمبند کیا ہے بیان کرتا ہے کہ جو لوگ اُس وقت مسیح کو قبول کر چکے ہونگے وہ مخالفِ مسیح اور اُس کی حکومت کے حکم کی تعمیل کرنے اور اُس کی مورت کی پرستش کرنے سے انکار کریں گے (مکاشفہ 13باب15 آیت) بالکل اُسی طرح جیسے دانی ایل کے ساتھیوں نے نبوکد نضر کی مورت کی پرستش کرنے سے انکار کیا تھا۔

سِول نافرمانی – خلاصہ

بائبل کی مندرجہ بالا مثالوں سے کیا نتائج اخذ کئے جا سکتے ہیں؟ مسیحیوں کے لیے سِول نا فرمانی کے رہنما اصولوں کا خلاصہ کچھ اِس طرح سے کیا جا سکتا ہے:

• مسیحیوں کو ایسی حکومت کے خلاف مزاحمت کرنی چاہیے جو بُرائی کا حکم دیتی یا بُرائی کرنے پر مجبور کرتی ہے اور اُسے ملکی قوانین کے ماتحت رہتے ہوئے غیر متشدد طریقے سے کام کرنا چاہیے تاکہ بُرائی کی اجازت دینے والی حکومت کو تبدیل کیا جا سکے۔
• سِول نافرمانی کی اجازت اُس صورت میں دی جاتی ہے جب حکومت کے قوانین یا احکامات خُدا کے قوانین اور احکام کی براہِ راست خلاف ورزی کرتے ہیں۔
• اگر کوئی مسیحی کسی بُری حکومت کی نافرمانی کرتا ہے، جب تک کہ وہ اُس حکومت کے عتاب سے فرار حاصل نہ کر سکے اُسے اپنے اعمال کی وجہ سے حکومت کی ٹھہرائی ہوئی سزا کو قبول کرنا چاہیے۔
• مسیحیوں کو یقینی طور پرنافذ کردہ قوانین کے اندر رہتے ہوئے نئے حکومتی اراکین کی تقرری کے لیے کام کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

آخر میں مسیحیوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ اپنے رہنماؤں کے لیے دُعا کریں اور اِس مقصد کے لیے بھی دُعا کریں کہ خُدا اُن کے وقت میں خاص مداخلت کرے تاکہ وہ کسی بھی ایسے راستے کو تبدیل کرے جس پر وہ بُرے رہنما گامزن ہیں:"پس مَیں سب سے پہلے یہ نصیحت کرتا ہُوں کہ مُناجاتیں اور دُعائیں اور اِلتجائیں اور شکر گُذارِیاں سب آدمیوں کے لئے کی جائیں۔بادشاہوں اور سب بڑے مرتبہ والوں کے واسطے اِس لئے کہ ہم کمال دِین داری اور سنجیدگی سے اَمن و آرام کے ساتھ زِندگی گُذاریں " (1 تیمتھیس 2باب1-2 آیات)‏



English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

ایک مسیحی کو کب سِول نافر مانی کی اجازت ہوتی ہے ؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries