settings icon
share icon
سوال

کیا اعمال 2باب 38آیت یہ تعلیم دیتی ہے کہ بپتسمہ نجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے؟

جواب


جب ہمارے سامنے کوئی ایک آیت یا ایک حوالہ پیش کیا جاتا ہے تو یہ جاننے کے لیے کہ یہ آیت یا حوالہ کیا تعلیم دیتا ہے ہم اِس کے پیغام کو بائبل مُقدس کے مجموعی پیغام کی روشنی میں پرکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ جس موضوع کے بارے میں وہ آیت یا حوالہ بات کر رہا ہے اُس کے بارے میں ساری بائبل کیا تعلیم دیتی ہے۔ بپتسمے اور نجات کے تعلق سے بائبل بالکل واضح ہے کہ ہمیں ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملتی ہے اور یہ کسی طرح کے اعمال(بشمول بپتسمہ) کے سبب سے نہیں بلکہ خُدا کی بخشش ہے (افسیوں 2 باب 8-9آیات)۔ پس کوئی بھی ایسی تفسیر جو یہ بیان کرتی ہو کہ بپتسمہ یا کوئی بھی اور کام (عمل)نجات کے لیے ضروری یا لازمی ہے تو وہ تفسیر غلط ہے۔ مزید معلومات کے لیے برائے مہربانی ہماری ویب سائٹ پر اِس مضمون کا مطالعہ کیجئے "کیا نجات صرف ایمان کے وسیلے سے ہے یا پھر ایمان کے ساتھ اعمال بھی ضروری ہیں؟"

یوحنا 3باب 3-7آیات"یسوع نے جواب میں اُس سے کہا مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی نئے سرے سے پیدا نہ ہو وہ خُدا کی بادشاہی کو دیکھ نہیں سکتا۔ نیکدیمُس نے اُس سے کہا آدمی جب بُوڑھا ہو گیا تو کیوں کر پیدا ہو سکتا ہے؟ کیا وہ دوبارہ اپنی ماں کے پیٹ میں داخل ہو کر پیدا ہو سکتا ہے؟ یسو ع نے جواب دِیا کہ مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں جب تک کوئی آدمی پانی اور رُوح سے پیدا نہ ہو وہ خُدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتا۔ جو جسم سے پیدا ہُوا ہے جسم ہے اور جو رُوح سے پیدا ہُوا ہے رُوح ہے۔ تعجب نہ کر کہ مَیں نے تجھ سے کہا تمہیں نئے سرے سے پیدا ہونا ضرور ہے۔"

اس حوالے پر غور کرتے وقت سب سے پہلے اس بات پر غور کرنا ضروری ہے کہ اس حوالے کے سیاق و سباق میں کہیں بھی بپتسمے کا ذکر نہیں کیا گیا ۔ جبکہ بپتسمہ کا ذکر اس باب کے اندر بعد میں ایک مکمل طور پر مختلف صورت حال ( یروشلیم کی بجائے یہودیہ) میں اور نیکدیمس کے ساتھ گفتگو کے دوران نہیں بلکہ ایک مختلف وقت پر ( یوحنا 3باب 22-30آیات) ہوا ہے ۔ یہ نہیں کہا جاتا ہے کہ نیکدیمس کسی غیر قوم کے شخص کو یہودیت میں شامل کرنے کے لیے یہودی بپتسمہ دینے کے عمل یا یوحنا بپتسمہ دینے والے کی خدمت کے لحاظ سے بپتسمے سے نا واقف تھا ۔ تاہم ان آیات کو محض ان کے سیاق و سبا ق کی روشنی میں پڑھنے سے کسی شخص کواُس وقت تک یہ فرض کر لینے کےلیے کوئی دلیل نہیں ملے گی کہ یسوع یہاں بپتسمے کے بارے میں بات کر رہا ہے جب تک کوئی شخص پہلے سے گمان کردہ تصور یا علمِ الہیات کی تلاش کی غرض سے اس حوالے کا مطالعہ نہ کر رہا ہو ۔ محض پانی کے ذکرکے باعث اس آیت کے مطالعہ کے دوران بپتسمے کےتصور کا خود بخود پیدا ہونا ایک بے بنیادچیز ہے ۔

وہ لوگ جو نجات کےلیے بپتسمہ کو لازمی قرار دیتے ہیں وہ " پانی سے پیدا ہونے " کے اس بیان کو ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہیں ۔ جیسا کہ ایک شخص نے کہا ہے " یسوع بڑے سادہ الفاظ میں اس بات کی وضاحت کرتا اور واضح طور پر اُسے بتاتا ہے کہ پانی اور رُوح سے پیدا ہونا کیسا ہے ۔ یہ بپتسمے کا ایک مکمل بیان ہے !یسوع بپتسمہ دینے کی اِس سے زیادہ مفصل اور درست وضاحت نہیں پیش کر سکتا تھا "۔ اگر یسوع حقیقتاًیہ کہنا چاہتا کہ نجات کےلیے ہر کسی شخص کے لیے بپتسمہ لینا ضروری ہے تو وہ واضح طور پر کہہ سکتا تھا کہ " مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی بپتسمہ نہ لے اور رُوح القدس سے پیدا نہ ہو خدا کی بادشاہی میں داخل نہیں ہو سکتا"۔ مزید یہ کہ اگر یسوع ایسا کوئی بیان دیتا تو وہ بائبل کے اُن متعدد حوالہ جات کی تردید کرتا جو واضح طور پر بیان کر تے ہیں کہ نجات صرف ایمان کے وسیلہ سے ہے ( یوحنا 3باب 16آیت ؛ 3باب 36آیت ؛ افسیوں 2باب 8-9آیات؛ طِطُس 3باب 5 آیت)۔

یہ حقیقت ہماری آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونی چاہیے کہ جب یسوع نیکدیمس سے بات کر رہا تھا اُس وقت تک بپتسمہ دینے کا مسیحی فرمان نافذ نہیں ہواتھا ۔ کلام مقدس کی تشریح میں یہ تضاد اُس وقت دیکھنے میں آتا ہے جب کوئی شخص نجات کےلیے بپتسمے کو ضروری قرار دینے والے لوگوں سے یہ پوچھتا ہے کہ صلیب پر لٹکے ہوئے ڈاکو کو نجات کےلیے بپتسمہ لینے کی ضرورت کیوں نہیں تھی ۔ اس سوال کا عام جواب یہ دیا جاتا ہے کہ " صلیب پر موجود ڈاکو اُس وقت تک پرانے عہد کے ماتحت تھا اور اس لیے وہ اس بپتسمے کا پابند نہیں تھا اُسے بالکل اُسی طرح نجات دی گئی تھی جیسے پرانے عہد نامے کے دوسرے لوگوں کو نجات دی گئی تھی۔ "پس خلا صہ یہ ہے کہ وہی لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ ڈاکو کو بپتسمہ کی اس لیے ضرورت نہیں تھا " کیونکہ وہ پرانے عہد کے ماتحت " تھا یوحنا 3باب 5آیت کواس " ثبوت" کے طور پیش کریں گے کہ نجات کے لیے بپتسمہ ضروری ہے ۔ وہ اس بات پر اصرار کرتے ہیں کہ یسوع نیکدیمس کو بتا رہا ہے کہ نجات پانے کےلیے اُسے بپتسمہ لینا ہوگاحالانکہ نیکدیمس بھی پرانے عہد کے ماتحت تھا ۔ اگر صلیب پر موجود ڈاکو نے بغیر بپتسمہ کے نجات پائی تھی (کیونکہ وہ پرانے عہدکے ماتحت تھا ) تو یسوع نے نیکدیمس ( کیونکہ وہ بھی پرانے عہد کے ماتحت تھا) کو کیوں کہا تھا کہ اُسے بپتسمہ لینے کی ضرورت تھی ؟

اگر " پانی اور رُوح سے پیدا ہونا " بپتسمہ لینے کے بارے میں ذکر نہیں کر رہا تو پھر اس کا کیا مطلب ہے ؟ روایتی طور پر اس جملے کی دو تشریحات کی گئی ہیں۔ پہلی تشریح یہ ہے کہ یسوع کی طرف سے اس جملے "پانی سے پیدا ہونے" کو قدرتی پیدایش(پانی کی مدد سے/ امینیٹک سیال جو رحم میں بچہ کو گھیرے ہوتا ہے ) کی جانب حوالہ دینے کےلیے استعمال کیا جا رہا ہے اور رُوح سے پیدا ہونا رُوحانی پیدایش کی نشاندہی کرتا ہے ۔ اگرچہ یہ " پانی سے پیداہونے " کی اصطلاح کی ممکنہ تشریح ہے اوریہ نیکدیمس کے اُس سوال کے تناظر میں موزوں معلوم بھی معلوم ہوتی ہے کہ کوئی شخص نئے سرے سے کیسے پیدا ہو سکتا ہے " جب وہ بوڑھا ہو گیا ہو"لہذا اس حوالے کے پسِ منظر میں یہ بہترین تشریح نہیں ۔ بہر حال یسوع قدرتی پیدایش اور رُوحانی پیدایش کے مابین فرق کے بارے میں بات نہیں کر رہا تھا ۔ یسوع یہاں نیکدیمس کے سامنے جس بات کی وضاحت کر رہا تھا وہ یہ تھی کہ اُسے " رُوح سے پیدا ہونے " یا " نئے سرے سے پیدا ہونے " کی ضرورت ہے ۔

اس حوالے کی دوسری عام تشریح جو نہ صرف اس حوالے بلکہ تمام بائبل کے مجموعی سیاق و سبا ق پر پوری طرح درست ثابت ہوتی ہے یہ ہے کہ " پانی سے پیدا ہونااور رُوح سے پیدا ہونا " دراصل ایک ہی رُوحانی پیدایش کی طرف اشارہ ہے جس کو ہم نئے سرے سے پیدا ہونا یا "اوپر سے پیدا ہونا "بھی کہہ سکتے ہیں۔ چنانچہ جب یسوع نیکد یمس کو بتاتا کہ اُسے " پانی اور رُوح سے پیدا ہونے" کی ضرورت ہے تو وہ عام ظاہر ی پانی ( یعنی بپتسمہ یا رحم میں موجود امینیٹک سیال )کی نشاندہی نہیں کر رہتا تھا بلکہ وہ رُوحانی پاکیزگی یا تجدید کی ضرورت کا ذکر کر رہا تھا ۔ تمام پرانےعہد نامے ( 51زبور 2اور 7 آیات؛ حزقی ایل 36باب 25آیت) اور نئے عہد نامے ( یوحنا 13باب 10 آیت؛ 15باب 3آیت؛ 1کرنتھیوں 6باب 11آیت؛ عبرانیوں 10باب 22 آیت) میں پانی کو اکثر رُوح القدس کی طرف سے پیدا کردہ اُس رُوحانی پاکیزگی اور تجدید کو ظاہر کرنے لیے علامتی طور پر استعمال کیا جاتا ہے جو نجات کے موقع پر کلام ِ خدا کے وسیلہ آتی ہے (افسیوں 5باب 26آیت؛ ططُس 3باب 5آیت)۔

بار کلے ڈیلی سٹڈی بائبل اس تصور کو کچھ اس طرح بیان کرتی ہے :"یہاں دو خیالات پائے جاتے ہیں ۔ پانی طہارت کی علامت ہے ۔ جب یسوع ہماری زندگی کو اپنے ہاتھوں میں لیتا ہے ، جب ہم اپنے پورے دل سے اُس سے محبت رکھتے ہیں تو ہمارے ماضی کے گناہوں کو معاف کر دیا اور بھلا دیا جاتا ہے ۔ رُوح قوت کی علامت ہے ۔ جب یسوع ہماری زندگی کو اپنے ہاتھوں میں لیتا ہے تو نہ صرف ہمارے ماضی کے گناہوں کو معاف کر دیا اور بھلا دیا جاتا ہے؛ بلکہ ہماری زندگی میں ایک نئی قوت بھی داخل ہوتی ہے جو ہمیں ایسا بننے اور وہ کام کرنے کے قابل بناتی ہے جو ہم اپنی طاقت سے کبھی نہیں بن سکتے اور جو ہم اپنے طور پر کبھی نہیں کر سکتے ہیں (اگرہماری زندگی میں وہی سب پرانے گناہ ہوتے رہیں تو ہم پھر سے مشکلات بھری زندگی کی طرف واپس جا سکتے تھے )۔ پانی اور رُوح القدس مسیح کی اُس پاک اورمستحکم کرنے والی قوت کی علامات ہیں جو ماضی کے گناہوں کو مٹا دیتی اور مستقبل میں کامیابی بخشتی ہیں ۔

لہذا اس آیت میں بیان کردہ " پانی " عام ظاہری پانی نہیں ہے بلکہ " زندگی کا وہ پانی " ہے جس کا وعدہ یسوع نےیوحنا 4باب 10آیت میں یعقوب کے کنویں پر ملنے والی عورت اور یوحنا 7باب 37-39آیات میں یروشلیم کے لوگوں سے کیا تھا ۔ یہ رُوح القدس کی طرف سے پیداکردہ وہ باطنی پاکیزگی اور تجدید ہے جو مُردہ گنہگارکےلیے رُوحانی زندگی کا باعث بنتی ہے ( حزقی ایل 36باب 25-27آیات؛ ططس 3باب 5آیت)۔ یسوع یوحنا 3باب 7آیت میں اس سچائی کی حمایت اس بات کو دُہراتے ہوئے کرتا ہے کہ انسان کو نئے سرے سے پیدا ہونا ضروری ہے اور یہ بھی کہ زندگی کا یہ نیا پن صرف رُوح القدس ہی پیدا کر سکتا ہے ( یوحنا 3باب 8آیت)۔

" پانی اور رُوح سے پیدا ہونے " کے اس جملے کی یہی درست تشریح کیوں ہے اس بارے میں متعدد دلائل موجود ہیں ۔ سب سے پہلے ہمیں اس بات پر غور کرنا چاہیے کہ وہ یونانی لفظ جس کا ترجمہ " نئے سرے " سے کیا گیا ہے بنیادی طور پر دو معنوں پر مشتمل ہے ۔ پہلا معنی " دوبارہ" پیدا ہونا ہے اور دوسرا معنی " نئے سرے سے " ہونا ہے ۔ نیکدیمس نے بظاہر پہلے معنی " دوبارہ" پیدا ہونے کو لیتے ہوئے اس تصور کو نا قابل فہم خیال کیا تھا ۔ اور اسی لیے وہ سمجھ نہیں پایا تھا کہ بحیثیت ایک بوڑھےآدمی کے وہ اپنی ماں کے رحم میں دوبارہ داخل ہو کر جسمانی طور پر پھر سے کیسے پیدا ہو سکتا ہے ۔ اس وجہ سے یسوع اپنی پہلی بات کو جو اُس نے نیکد یمس سے کہی تھی ایک اور مختلف انداز میں بیان کرتا ہے تاکہ یہ واضح ہو جائے کہ وہ " نئے سرے سے پیدا" ہونے کا ذکر کر رہا تھا ۔ دوسرے الفاظ میں " نئے سرے سے پیدا ہونا " اور پانی اور رُوح سے پیدا ہونا " ایک ہی بات دہرانے کے دونوں الگ الگ طریقے ہیں ۔

دوسری بات یہ کہ اس بات پر غور کرنا بھی ضروری ہے کہ اس آیت میں یونانی قواعدِ زبان یہ نشاندہی کرتی معلوم ہوتی ہے کہ " پانی سے پیدا ہونا " اور "رُوح سے پیدا ہونا" دونوں ایک ہی سمجھے جاتے ہیں نہ کہ دو۔ لہذا یہ آیت دو الگ الگ پیدایشوں کے بارےمیں بات نہیں کر رہی جیسا کہ نیکدیمس سمجھا تھا بلکہ ایک ہی پیدایش یعنی " نئے سرے سے پیدا ہونے" یا اُس رُوحانی پیدایش کے بارےمیں بات کر رہی ہے جو " خدا کی بادشاہی میں داخل ہونے " کےلیے ہر انسان کےلیے ضروری ہے ۔ کسی انسان کےلیے " نئے سرے سے پیدا ہونا " یا رُوحانی پیدایش کا تجربہ کرنا اتنا اہم ہے کہ یسوع اس کی ضرورت کے بارے میں کلام مقدس کے اس حوالہ میں نیکدیمس کو تین بار بتاتا ہے ( یوحنا 3باب 3 ، 5 ، 7آیت)۔

تیسری بات یہ کہ بائبل میں پانی کو کسی ایماندار کی تقدیس کےلیے رُوح القدس کے اُس کام کی نشاندہی کےلیے علامتی طور پربکثرت استعمال کیا جاتا ہے جس کے ذریعے خدا ایماندار کے دل یا رُوح کو پاک اور صاف کرتا ہے ۔ پرانے اور نئے عہد نامے کے متعدد حوالہ جات میں رُوح القدس کے اس کام کا پانی سے موازنہ کیا جاتا ہے ( یسعیاہ 44باب 3آیت؛ یوحنا 7باب 38-39آیات)۔

یوحنا 3باب 10آیت میں یسوع نیکدیمس کی سرزنش کرتے ہوئے یہ پوچھتا ہے کہ "بنی اِسرائیل کا اُستاد ہو کر کیا تُو اِن باتوں کو نہیں جانتا؟" اِس کی وجہ یہ تھی کہ جو کچھ یسوع نے نیکدیمس کو بتایا تھا اُس کے بارے میں اُسے پرانے عہد نامے کی روشنی میں واقف ہونا چاہیے اور اُسے سمجھنا چاہیے تھا۔ وہ کیا بات تھی جس سے شریعت کے اُستاد ہونے کے ناطے نیکدیمس کو واقف ہونا اور سمجھنا چاہیے تھا ؟۔ وہ یہ بات ہے کہ پرانے عہد نامے میں خدا نے ایک ایسے آنے والے وقت کے بارے میں وعدہ کیا تھا جب مَیں " تم پر صاف پانی چھڑکوں گا اور تم پاک صاف ہو گے اور مَیں تم کو تمہاری تمام گندگی سے اور تمہارے سب بُتوں سے پاک کروں گا۔ اور مَیں تم کو نیا دِل بخشوں گا اور نئی رُوح تمہارے باطن میں ڈالوں گا اور تمہارے جسم میں سے سنگین دِل کو نکال ڈالوں گا اور گوشتین دِل تم کو عنایت کروں گا۔ اور مَیں اپنی رُوح تمہارے باطن میں ڈالُوں گا اور تم سے اپنے آئین کی پیروی کراؤں گا اور تم میرے احکام پر عمل کرو گے اور اُن کو بجا لاؤ گے" ( حزقی 36باب 25-27آیات)۔ یسو ع نیکدیمس کی سرزنش اِس لیے کرتا ہے کیونکہ وہ نئے عہد سے متعلق ( یرمیاہ 31باب 33آیت) پرانے عہد نامے کے ایک اہم حوالے کو یادکرنے اور سمجھنے میں ناکام رہا ہے ۔ نیکدیمس کو اس بات کی توقع کرنی چاہیے تھی ۔ اس حقیقت سے واقف ہونے کے باوجود کہ پرانے عہد نامے میں بپتسمہ کا ذکر کہیں نہیں ہے یسوع نے بپتسمہ کے مفہوم سے نا واقف رہنے پر نیکدیمس کی سرزنش کیوں کی تھی ؟

اگرچہ یہ آیت یہ تعلیم نہیں دیتی کہ بپتسمہ نجات کے لیے ضروری ہے مگر ہمیں اس بارےمیں محتاط ہونا چاہیے کہ ہم بپتسمے کی اہمیت کو نظرانداز نہ کریں ۔ بپتسمہ اس تبدیلی کا نشان یا علامت ہے جو کسی شخص کے نئے سرے سے پیدا ہونے پر رونما ہوتی ہے ۔ بپتسمے کی اہمیت کو کبھی بھی کم نہیں کیا جاناچاہیے ۔ تاہم بپتسمہ ہمیں نجات نہیں دیتا ہے ۔ درحقیقت یہ رُوح القدس کے وسیلے تقدیس کا عمل ہی ہے جو ہمیں نجات دیتا ہےاور یہ اُس وقت ہوتا ہے جب ہم اُس کے وسیلہ سے نئے سرے سے پیدا ہوتے اور بحال کئے جاتے ہیں ( ططس 3باب 5آیت)۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

کیا اعمال 2باب 38آیت یہ تعلیم دیتی ہے کہ بپتسمہ نجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries