settings icon
share icon
سوال

کیا اعمال 2باب 38آیت یہ تعلیم دیتی ہے کہ بپتسمہ نجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے؟

جواب


اعمال 2باب 38آیت"پطر س نے اُن سے کہا کہ تَوبہ کرو اور تم میں سے ہر ایک اپنے گناہوں کی معافی کے لئے یسو ع مسیح کے نام پر بپتسمہ لے تو تم رُوح القدس اِنعام میں پاؤ گے۔" جب ہمارے سامنے کوئی ایک آیت یا ایک حوالہ پیش کیا جاتا ہے تو یہ جاننے کے لیے کہ یہ آیت یا حوالہ کیا تعلیم دیتا ہے ہم اِس کے پیغام کو بائبل مُقدس کے مجموعی پیغام کی روشنی میں پرکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ جس موضوع کے بارے میں وہ آیت یا حوالہ بات کر رہا ہے اُس کے بارے میں ساری بائبل کیا تعلیم دیتی ہے۔ بپتسمے اور نجات کے تعلق سے بائبل بالکل واضح ہے کہ ہمیں ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملتی ہے اور یہ کسی طرح کے اعمال(بشمول بپتسمہ) کے سبب سے نہیں بلکہ خُدا کی بخشش ہے (افسیوں 2 باب 8-9آیات)۔ پس کوئی بھی ایسی تفسیر جو یہ بیان کرتی ہو کہ بپتسمہ یا کوئی بھی اور کام (عمل)نجات کے لیے ضروری یا لازمی ہے تو وہ تفسیر غلط ہے۔ مزید معلومات کے لیے برائے مہربانی ہماری ویب سائٹ پر اِس مضمون کا مطالعہ کیجئے "کیا نجات صرف ایمان کے وسیلے سے ہے یا پھر ایمان کے ساتھ اعمال بھی ضروری ہیں؟"

لہذا پھر کیوں کچھ لوگ اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ نجات یافتہ ہونے کےلیے ہمارے لیے بپتسمہ لینا ضروری ہے ؟ آیا یہ حوالہ نجات کےلیے بپتسمہ لینے کو ضروری قرار دیتا ہے یا نہیں اس بات کی بحث اکثر اس یونانی لفظ ' eis ' کے گرد گھومتی ہے جس کا ترجمہ اس حوالے میں "کےلیے " کیا گیا ہے ۔ جو لوگ یہ مانتے ہیں کہ بپتسمہ نجات کےلیے ضروری ہے وہ فوراً اس آیت کی طرف اشارہ کرتے اور کہتے ہیں کہ یہ آیت بیان کرتی ہے کہ " اپنے گناہوں کی معافی کے لئے یسو ع مسیح کے نام پر بپتسمہ لے ۔" اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ خیا ل کرتے ہیں کہ اس آیت میں ترجمہ شدہ الفاظ "کےلیے " کا مطلب "کے حصول کی خاطر" ہے ۔

مثال کے طور پر جب کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ " اپنے سر درد کےلیے اسپرین کی دو گولیاں لے لیں " تو یہ بات ہر ایک کےلیے واضح ہے کہ ا س کا مطلب یہ نہیں ہے کہ "اپنا سر درد شروع کروانے کےلیے اسپرین کی دو گولیاں کھا لیں " بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ "اسپرین کی دو گولیاں کھالیں کیونکہ آپ کو پہلے ہی سر درد ہے۔ اِن الفاظ " کےلیے " کے تین ممکنہ معنی ہیں جو اعمال 2باب 38آیت کے سیاق و سباق میں درست ثابت ہو سکتے ہیں : (1)" کے حصول کی خاطر، ہونے کےلیے ، حاصل کرنےکے لیے ، حصول کےلیے ، پانے کےلیے ، وغیرہ وغیرہ "۔(2)" کی وجہ سے ، کے نتیجے میں "، یا (3)"کے تعلق سے "۔ چونکہ ان تین معنوں میں کوئی بھی معنی اس حوالے کے سیاق و سبا ق میں موزوں ثابت ہو سکتا ہے لہذا اس بات کے تعین کےلیے کہ کون سا معنی درست ہے مزید مطالعے کی ضرورت ہو گی ۔

ہمیں اصل زبان اور یونانی لفظ " eis "کے اصل معنی کی تلاش کرنے کے ذریعے سے شروعات کرنا ہو گی ۔ یہ ایک عام یونانی لفظ ہے ( یہ نئے عہد نامے میں 1774 بار استعمال ہوا ہے ) جس کا مختلف طرح سے ترجمہ کیا جاتا ہے ۔ انگریزی لفظ "for" کی طرح اس کے مختلف طرح کے کئی معنی ہو سکتے ہیں ۔ لہذا ایک بار پھر ہم اس حوالے کے ممکنہ طور کم ازکم دو یا تین مفہو م دیکھ سکتے ہیں اُن میں ایک نجات کےلیے بپتسمے کو ضروری قرار دیتا معلوم ہو سکتا ہے جبکہ دوسرے دو نہیں ۔ چونکہ یونانی لفظ " eis " کے دونوں معنی کلام مقدس کے مختلف حوالہ جات میں دکھائی دیتے ہیں یونانی زبانی کے ایسے نامو ر عالمین جیسے کہ رابرٹسن اور جے ۔آر۔ مانٹے نے کہا ہے کہ اعمال 2باب 38آیت میں استعمال شدہ یونانی حرفِ ربط کا ترجمہ " کےلیے "یا " کے مقصد سے " کی بجائے " کی وجہ سے " یا " کے پیشِ نظر " کیا جانا چاہیے ۔

دوسرے صحائف میں اس حرفِ جار کا کس طرح سے استعمال کیا جاتا ہے اس کی ایک مثال متی 12باب 41آیت میں نظر آتی ہے جہاں "eis" کسی عمل کے"نتیجے " کی جانب نشاندہی کرتا ہے۔ اس معاملے میں کہاجاتا ہے کہ نینوا کے لوگوں نے " یُو ناہ کی منادی پر توبہ کر لی " تھی (وہ یونانی لفظ جس کا ترجمہ "پر" کیا گیا ہے وہ "eis" ہی ہے )۔ لہذا اس حوالے کا واضح مفہوم یہ ہے کہ اُنہوں نے یوناہ کی منادی " کی وجہ سے " یا "کے نتیجے میں " توبہ کی تھی۔ اسی طرح سے یہ ممکن ہو گیا کہ اعمال 2باب 38آیت بلاشبہ اس حقیقت کی نشاندہی کر رہی ہے کہ اُنہیں اس " نتیجہ میں " یا اس " وجہ" سے بپتسمہ دیا گیا تھا کہ وہ پہلے ہی ایمان لا چکے تھے اور ایسا کرنے کے باعث پہلے ہی گناہوں کی معافی پاچکے تھے ( یوحنا 1باب 12آیت؛ یوحنا3باب 14-18 آیات؛ یوحنا 5باب 24آیت؛ یوحنا 11باب 25-26آیات؛ اعمال 10باب 43آیت؛ اعمال 16باب 31آیت؛ اعمال 26باب 18آیت؛ رومیوں 10باب 9آیت؛ افسیوں 1باب 12-14آیات)۔ اعما ل2 باب 38آیت کی یہ تشریح اُس پیغام کے مطابق بھی ہے جو اعمال کی کتاب میں آئندہ ابواب کے اندر پطرس کے غیر ایمانداروں کے سامنے پیش کردہ دو خطابات میں ملتا ہے اور پطرس اِن پیغامات میں گناہوں کی معافی کو بپتسمہ کا ذکر کئے بغیر توبہ کے عمل اور مسیح پر ایمان کے ساتھ جوڑتا ہے (اعمال 3باب 17-26آیات؛ اعمال 4باب 8-12آیات)۔

اعمال 2باب 38آیت کے علاوہ بھی تین اور آیات ہیں جہاں یونانی لفظ "eis" کو بپتسمہ کے عمل یا بپتسمہ کے لفظ کے تعلق سے استعمال کیا جاتا ہے۔ اُن میں سے پہلا حوالہ متی 3باب 11آیت ہے جہاں پر لکھا ہے کہ "مَیں تو تم کو توبہ کے لئے پانی سے بپتسمہ دیتا ہوں "۔ اس حوالے میں یہ پوری طرح واضح ہے کہ یونانی لفظ "eis" کا مطلب " کے حصول کی خاطر" نہیں ہو سکتا ہے ۔ اُنہیں " توبہ کے حصول کی خاطر "بپتسمہ نہیں دیا گیا تھا بلکہ اُنہیں اس لیے بپتسمہ دیا گیا تھا کہ اُنہوں نے توبہ کیا تھی ۔ دوسرا حوالہ رومیوں 6باب 3آیت ہے جہاں ہمیں یہ جملہ ملتا ہے کہ " اُس کی موت میں"eis" شامل ہونے کا بپتسمہ لِیا "۔ ایک بار پھر یہ معنی " کی وجہ سے " یا " کے پیشِ نظر " کے مفہوم سے مطابقت رکھتا ہے ۔ اس سلسلے کا تیسرا اور آخری حوالہ 1 کرنتھیوں 10باب 2آیت ہے " سب ہی نے اُس بادِل اور سمندر میں موسیٰ کا "eis"بپتسمہ لِیا " ۔ ایک بار پھر "eis" کا اس حوالہ میں "حصول کی خاطر" مطلب نہیں ہو سکتا کیونکہ بنی اسرائیل نے موسیٰ کو اپنا رہنما مقرر کرنے کےلیے بپتسمہ نہیں لیاتھا بلکہ اس لیے کہ وہ اُن کو رہنما تھا اور اُن کو مصر کی غلامی سے نکال لیا تھا ۔ حرفِ ربط "eis" بپتسمہ کے تعلق سے جس طرح سے استعمال کیا جاتا ہے اگر کوئی شخص اس سے متفق ہے تو ہمیں یہ نتیجہ اخذ کرنا چاہیے کہ اعمال 2باب 38آیت بلاشبہ اُن کے بپتسمہ لینے کا ذکر اس لیے کر رہا ہے "کیونکہ " اُنہوں نے گناہوں کی معافی پالی تھی۔ کچھ دیگر آیات متی 28باب 19آیت؛ 1پطرس 3باب 21آیت؛ اعمال 19باب 3آیت؛ 1کرنتھیوں 1باب 15آیت 12باب 13آیت ہیں جن میں حرفِ ربط"eis" کا مطلب " کے حصول کی خاطر" نہیں ہے ۔

اِس آیت اور حرفِ ربط "eis" کے ارد گرد کے صرفی و نحوی شواہد پوری طرح واضح ہیں کہ چونکہ اِس آیت کے بارے میں دونوں نقطہ ِ نظر اس کے سیاق و سباق اور اِس حوالہ کے ممکنہ معنوں کی وسعت کے پسِ منظر میں درست ہیں لہذاشواہد کی اکثریت اس بات کی حمایت کرتی ہے کہ اس سیاق و سباق میں لفظ " کےلیے " کی سب سے بہترین وضاحت یا تو " کی وجہ سے" ہے یا پھر " پیشِ نظر" ہے، نہ کہ " کے حصول کی خاطر" ہے ۔ پس جب اعمال 2باب 38آیت کی درست طور پر تشریح کی جاتی ہے تو یہ اس بات کی تعلیم نہیں دیتی کہ نجات کےلیے بپتسمہ لینا ضروری ہے ۔

اس حوالے میں جس حرفِ ربط کا ترجمہ " کےلیے " کیا گیا ہے اُس کے اصل مفہوم کے علاوہ اس آیت کے ایک اور صرفی و نحوی پہلو پر بھی احتیاط سے غور و خوص کیا جانا چاہیے ۔ اور وہ اسمِ ضمیر حاضر اور اسم ِ ضمیر غائب کے درمیان تبدیلی اور فعل اور اِسمِ ضمیر کے درمیان تبدیلی ہے ۔ مثال کے طور پر پطرس کے توبہ اور بپتسمہ لینے کے احکامات میں جس یونانی لفظ کا ترجمہ " توبہ " کیا گیا ہے وہ ضمیر حاضر جمع میں پایا جاتا ہے جبکہ فعل " بپتسمہ لے " کا ترجمہ ضمیرغائب واحد میں کیا گیا ہے ۔جب ہم اِسے اِس حقیقت کے ساتھ جوڑتے ہیں کہ اِسم ضمیر "تمہارے " کو "تمہارے گناہوں کی معافی"جیسے جزو جملہ کے ساتھ جوڑا جاتا ہے تو اِس میں اسمِ ضمیر حاضر بھی جمع کے صیغے میں ہے ۔ تو یہاں پر ہمیں ایک بہت ہی اہم فرق دیکھنے کو ملتا ہے جو اِس حوالے کو سمجھنے میں بہت زیادہ مددگار ثابت ہوتا ہے۔ ضمیر حاضر کی جمع سے ضمیر غائب واحد میں تبدیلی اور پھر اِس کی واپسی سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یہ جزوِ جملہ "تمہارے گناہوں کی معافی" براہِ راست اِس حکم کے ساتھ جڑا ہوا ہے کہ "توبہ کرو"۔ اِس لیے جب ہم اِسمِ ضمیر کی حالتوں اور واحد اور جمع کے ضیغوں میں تبدیلی کو دیکھتے ہیں تو ہمارے سامنے جو بات آتی ہے وہ یہ ہے کہ تم (صیغہ جمع) تَوبہ کرو اور تم میں سے ہر ایک(واحد صیغہ) اپنے(صیغہ جمع) گناہوں کی معافی کے لئے یسو ع مسیح کے نام پر بپتسمہ لے(واحد صیغہ) تو تم رُوح القدس اِنعام میں پاؤ گے۔ یا اگر اِس کو مزید مختلف انداز میں دیکھا جائے تو : "تم سب اپنے تمام گناہوں کی معافی کے لیے توبہ کرو، اور تم میں سے ہر ایک بپتسمہ لے۔"

وہ لوگ جو اعمال 2 باب 38آیت کو یہ تعلیم دینے کےلیے استعمال کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بپتسمہ نجات کےلیے ضروری ہے وہ ایک عام لیکن سنگین غلطی کے مرتکب ہوتے ہیں جسے بعض اوقات منفی تخمینی مغالطہِ استدلال بھی کہا جاتا ہے ۔ اس استدلال پر عمل پیرا ہونے کا طریقہ کارکچھ یوں ہے کہ : "اگر کوئی بیان سچاہے تو ہم یہ فرض نہیں کر سکتے ہیں کہ اس بیان کے تمام تر منفی ( یا متضاد ) بیانات بھی درست ہیں۔دوسرے الفاظ میں چونکہ اعمال 2باب38آیت بیان کرتی ہے کہ "تم توبہ کرو اور تم۔۔۔گناہوں کی معافی کے لیے ۔۔۔بپتسمہ لے تو۔۔۔رُوح القدس انعام میں پاؤ گے۔" تو اِس کا قطعی طور پر یہ مطلب نہیں ہے کہ اگر کوئی توبہ کرے اور بپتسمہ نہ لے تو وہ اپنے گناہوں کی معافی اور رُوح القدس نہیں حاصل کرے گا۔

نجات کے لیے شرط اور اصل تقاضے میں تھوڑا فرق ہے۔ بائبل بالکل واضح ہے کہ ایمان نجات کے لیے شرط بھی ہے اور تقاضا بھی ہے۔ لیکن بالکل یہی بات بپتسمے کے حوالے سے نہیں کہی جا سکتی۔ بائبل کہیں پر بھی یہ نہیں کہتی کہ اگر کسی شخص نے بپتسمہ نہیں لیا تو وہ نجات یافتہ نہیں ہے۔ کوئی شخص اپنے ایمان کے ساتھ مزید کئی ایک تقاضوں کو شامل کر سکتا ہے(لیکن نجات کے لیے ایمان لانا ہی لازمی شرط اور تقاضا ہے) اور مزید تقاضوں کو شامل کرنے کے باوجود وہ شخص نجات یافتہ ہوگا۔ مثال کے طور پر اگر کوئی شخص ایمان لاتا ہے، بپتسمہ لیتا ہے، چرچ جاتا ہے اور غریبوں کی مدد کرتا ہے تو وہ نجات پا ئے گا۔ اب غلطی یہاں پر ہوتی ہے کہ لوگ یہ تصور کر لیتے ہیں کہ بپتسمہ لینا، چرچ جانا، غریبوں کی مدد کرنا وغیرہ نجات حاصل کرنے کے لازمی ہیں ۔ حالانکہ یہ سب چیزیں کسی بھی شخص میں نجات کا نتیجہ ہو سکتی ہیں، اِن چیزوں یا باتوں کا نجات کے لیے تقاضہ نہیں کیا جاتا۔ (اِس تخمینی مغالطہِ استدلال کے بارے میں مزید وضاحت جاننے کے لیے براہِ مہربانی اِس مضمون کا مطالعہ کیجئے: " کیا مرقس 16 باب 16آیت یہ تعلیم دیتی ہے کہ نجات کے لیے بپتسمہ ضروری ہے؟ "

یہ حقیقت اعمال کی کتاب کا مزید سادگی کے ساتھ مطالعہ کرنے سے بھی ظاہر ہو جاتی ہے کہ گناہوں کی معافی اور رُوح القدس کو حاصل کرنے کے لیے بپتسمہ ضروری نہیں ہے۔ پطرس اعمال10 باب 43آیت کے اندر کرنیلیس کو بتاتا ہے کہ " جو کوئی اُس پر اِیمان لائے گا اُس کے نام سےگناہوں کی معافی حاصل کرے گا۔ " (ابھی غور کریں کہ اِس موقع پر بپتسمے کے بارے میں کچھ بھی نہیں کہا گیااور یہاں پر پطرس مسیح پر ایمان لانے کو گناہوں کی معافی کے حصول کے ساتھ جوڑتا ہے)۔ اور اِس کے بعد جو اگلی بات واقع ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ یسوع مسیح کے بارے میں پطرس کے پیغام پر ایمان لانے کی بدولت " رُوح القدس اُن سب پر نازِل ہو ا جو کلام سن رہے تھے "(اعمال 10باب44آیت)۔ اور اِس سب کے بعد یعنی جب وہ ایمان لے آئے اور اُنہوں نے گناہوں کی معافی حاصل کر لی اور رُوح القدس کو تحفے میں پا لیا تو پھر کرنیلیس اور اُس کے گھرانے نے بپتسمہ لیا (اعمال 10 باب 47-48آیات)۔ اِس حوالے کا سیاق و سباق بہت ہی زیادہ واضح ہے؛ کرنیلیس اور اُس کے گھرانے نے بپتسمہ لینے سے پہلے ہی گناہوں کی معافی اور رُوح القدس کو پا لیا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ پطرس نے اُن کو اِس لیے بپتسمہ لینے دیا کیونکہ اُن میں رُوح القدس کے حصول کی گواہی ملی تھی"بالکل پطرس اور دیگر مختون ایمانداروں کی طرح" اُنہوں نے رُوح القدس پایا۔

پس خلاصے کے طور پر اعمال 2باب38آیت یہ تعلیم نہیں دیتی کہ بپتسمہ نجات کے لیے ضروری ہے۔ اگرچہ بپتسمہ اِس نشان کے طور پر اہم ہے کہ بپتسمہ لینے والا شخص ایمان کے وسیلے پاک ٹھہرایا گیا ہے اور وہ دُنیا کے سامنے مسیح یسوع پر ایمان رکھنے اور ایمانداروں کی رفاقت میں حصہ دار ہونے کا اعلان کرنے کے لیے بپتسمہ لیتا ہے، لیکن بپتسمہ گناہوں کی معافی کا وسیلہ نہیں ہے۔ بائبل بالکل واضح ہے کہ ہمیں مسیح یسوع میں ایمان کے وسیلے خُدا کے فضل ہی سے نجات ملی ہے اورو ہ ہمارے اعمال کی وجہ سے نہیں ہے (یوحنا 1باب 12آیت؛ یوحنا 3باب 16آیت؛ اعمال 16 باب 31آیت؛ رومیوں 3 باب 21-30آیات؛ رومیوں 4باب 5آیت؛ رومیوں 10 باب 9-10آیات؛ افسیوں 2باب 8-10آیات؛ فلپیوں 3باب9آیت؛ گلتیوں 2 باب 16آیت)۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

کیا اعمال 2باب 38آیت یہ تعلیم دیتی ہے کہ بپتسمہ نجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries