سوال
کیا 1 پطرس 3باب 21آیت یہ تعلیم دیتی ہے کہ بپتسمہ نجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے؟کیا نجات حاصل کرنے کے لیے مجھے پہلے بپتسمہ لینا پڑے گا؟
جواب
جب ہمارے سامنے کوئی ایک آیت یا ایک حوالہ پیش کیا جاتا ہے تو یہ جاننے کے لیے کہ یہ آیت یا حوالہ کیا تعلیم دیتا ہے ہم اِس کے پیغام کو بائبل مُقدس کے مجموعی پیغام کی روشنی میں پرکھتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ جس موضوع کے بارے میں وہ آیت یا حوالہ بات کر رہا ہے اُس کے بارے میں ساری بائبل کیا تعلیم دیتی ہے۔ بپتسمے اور نجات کے تعلق سے بائبل بالکل واضح ہے کہ ہمیں ایمان کے وسیلہ سے فضل ہی سے نجات ملتی ہے اور یہ کسی طرح کے اعمال(بشمول بپتسمہ) کے سبب سے نہیں بلکہ خُدا کی بخشش ہے (افسیوں 2 باب 8-9آیات)۔ پس کوئی بھی ایسی تفسیر جو یہ بیان کرتی ہو کہ بپتسمہ یا کوئی بھی اور کام (عمل)نجات کے لیے ضروری یا لازمی ہے تو وہ تفسیر غلط ہے۔ مزید معلومات کے لیے برائے مہربانی ہماری ویب سائٹ پر اِس مضمون کا مطالعہ کیجئے "کیا نجات صرف ایمان کے وسیلے سے ہے یا پھر ایمان کے ساتھ اعمال بھی ضروری ہیں؟"
وہ لوگ جو یہ ایمان رکھتے ہیں کہ نجات حاصل کرنے کے لیے بپتسمہ لینا لازمی ہے وہ اکثر 1پطرس 3 باب 21آیت کا بغیر سیاق و سباق استعمال کرنے میں جلد بازی کرتے ہیں کیونکہ یہاں پر لکھا ہوا ہے کہ " بپتسمہ ۔۔۔ اب تمہیں بچاتا ہے"۔ کیا یہاں پر واقعی ہی پطرس یہ کہہ رہا تھا کہ بپتسمے کا عمل ہی وہ چیز ہے جو ہمیں بچاتا ہے؟اگر وہ ایسا کر رہا تھاتو اِس صورت میں تو وہ بائبل کے بہت سارے ایسے حوالہ جات کی تردید کر رہا تھا جن میں ہم دیکھتےہیں کہ لوگوں نے بپتسمہ حاصل کرنے سے پہلے نجات پائی(اور اِس کی شہادت یہ ہے کہ اُنہوں نے رُوح القدس کو حاصل کیا) اور کچھ نے تو بپتسمہ پائے بغیر ہی نجات حاصل کی۔ بپتسمہ پانے سے پہلے نجات کا تجربہ کرنے والوں کے تعلق سے ایک اچھی مثال کرنیلیس اور اُس کا گھرانہ ہے (اعمال 10 باب)۔ ہم جانتے ہیں کہ اُنہوں نے بپتسمہ حاصل کرنے سے پہلے ہی نجات پائی تھی کیونکہ اُنہوں نے بپتسمہ حاصل کرنے سے پہلے رُوح القدس پایا تھا جو اُن کی نجات کی گواہی تھا (رومیوں 8باب9آیت؛ افسیوں 1 باب 13آیت؛ 1 یوحنا 3 باب 24)۔ اور اُن کی نجات کی شہادت ہمیں اِس بات سے بھی ملتی ہے کہ اُس کے بعد پطرس نے اُنہیں بپتسمہ لینے کی اجازت دے دی۔ کلامِ مُقدس کے بے شمار حوالہ جات یہ بیان کرتے ہیں کہ جس وقت کوئی شخص انجیل کے پیغام پر یقین کرتا اور ایمان لاتا ہے اُسی وقت اُس کی زندگی میں نجات آ جاتی ہےاور یہ وہی وقت ہوتا ہے جب کسی شخص پر "پاک موعودہ رُوح کی مہر"لگتی ہے۔ (افسیوں 1 باب 13آیت)۔
خُدا کا شکر ہے کہ اِس آیت میں جو کچھ پطرس نے کہا ہے ہمیں اُس کے حوالے سے اندازے لگانے کی قطعی طور پر کوئی ضرورت نہیں ہے کیونکہ وہ اپنی بات کو اِن الفاظ میں واضح کرتا ہے کہ "اُس سے جسم کی نجاست کا دور کرنا مُراد نہیں بلکہ خالص نیت سے خُدا کا طالب ہونا مُراد ہے۔"جس وقت پطرس بپتسمے کو نجات کے ساتھ جوڑ رہا ہے تو یہاں پر غور طلب بات یہ ہے کہ وہ بپتسمے کے عمل (جسمانی نجاست کے دور کرنے) کو نجات سے قطعی طور پر نہیں جوڑ رہا۔ پانی میں غوطہ لینے سے کچھ بھی نہیں ہوتا سوائے ہمارے جسموں کی گرد کے دُھلنے کے۔ یہاں پر جس بات کی طرف پطرس توجہ دلانا چاہتا ہے وہ دراصل وہ کام (یعنی یسوع مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے وسیلے خالص نیت سے خُدا کا طالب ہونا)ہے جس کی بپتسمہ نمائندگی کرتا ہے اور وہی ہماری نجات کا سبب ہے ۔ دوسرے الفاظ میں پطرس سادہ طور پر بپتسمے کو ہمارے ایمان کے ساتھ جوڑ رہا ہے۔ بپتسمے میں پانی میں غوطہ لگانے کے سبب جسم کے گیلے ہونےکی بدولت ہمیں نجات نہیں ملتی بلکہ "خالص نیت سے خُدا کے طالب ہونے " کی بدولت۔ خُدا کا طالب ہونا ہمیشہ ہی پہلے آتا ہے۔ پہلے ایمان اور توبہ، اور پھر ہم تمام لوگوں کے سامنے اپنی شناخت کو مسیح کے ساتھ جوڑتے ہیں۔
اِس حوالے کی ایک بہت ہی اچھی وضاحت ڈاکٹر کینتھ واؤسٹ کی طرف سے دی گئی ہے جو Word Study in the Greek New Testament کا مُصنف ہے۔ "یہاں پر رُسول کے ذہن میں رُوح القدس کا بپتسمہ نہیں بلکہ پانی کا پبتسمہ ہی ہےکیونکہ وہ اِس حوالے کے سیاق و سباق میں اُن رُوحوں کا ذکر کرتا ہے جو طوفانِ نوح کے دوران کشتی میں سوار ہونے کی وجہ سے بچائی گئیں، اور پھر وہ اِس آیت میں بپتسمے کے ذریعے ایمانداروں کے بچائے جانے کی بات کرتا ہے۔ لیکن وہ کہتا ہے کہ پانی کا بپتسمہ اُنہیں ایک عکس کے طور پر بچاتا ہے، اِس کا مطلب ہے کہ پانی کابپتسمہ دراصل اصلیت یعنی نجات کا عکس ہے۔ یہ صرف ایک عکس کے طور پر نجات دیتا ہے نہ کہ حقیقت میں۔ پرانے عہد نامے کی قربانیاں بھی حقیقت یعنی یسوع مسیح کی ذات اور اُس کی قربانی کا عکس تھیں۔ وہ کسی ایماندار کی نجات کا باعث نہیں بنی تھیں بلکہ وہ نجات کے وسیلے کا عکس تھیں۔ یہاں پر یہ بحث بالکل بھی نہیں کی جا رہی کہ یہ قربانیاں مسیحیت میں پانی کے بپتسمے کے برابر ہیں۔ بلکہ مصنف یہاں پر اُن کو صرف لفظ عکس کی وضاحت کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
"پس پانی کا بپتسمہ ایمانداروں کے لیے نجات کا ایک عکس ہے۔ پرانے عہد نامے کا یہودی قربانی گزراننے سے پہلے ہی بچایا جا چکا تھا۔ اُس کی قربانی صرف اُس کی ظاہری گواہی تھی کہ وہ اپنا ایمان خُدا کے برّے پر رکھ رہا تھا جس کی اُس دور کی ساری قربانیاں نمائندگی کرتی تھیں۔۔۔ اُسی طرح پانی کا بپتسمہ ایماندار کے اندرونی ایمان کی بیرونی یا ظاہری گواہی ہے۔ جس وقت کوئی شخص خُداوند یسوع مسیح پر اپنا ایمان رکھتا ہے اُسی گھڑی وہ نجات پاتا ہے۔ پانی کا بپتسمہ اُس کے ایمان کی ظاہری طور پر نظر آنے والی گواہی ہے جبکہ نجات اُس کے ایمان کا جواب ہے۔ پطرس یہاں پر بہت زیادہ محتاط ہے اور وہ اپنے پڑھنے والوں کو مطلع کرتا ہے کہ وہ اِس حوالے میں بپتسمے کے وسیلے سے نئی پیدایش کی تعلیم نہیں دے رہا، جیسے کہ کچھ لوگوں کی طرف سے خیال کیا جاتا ہے کہ کوئی بھی شخص جو بپتسمہ لے وہ نئے سرے سے پیدا ہو جاتا ہے۔ بلکہ پطرس یہاں پر بیان کرتا ہے کہ " اُس سے جسم کی نجاست کا دور کرنا مُراد نہیں بلکہ خالص نیت سے خُدا کا طالب ہونا مُراد ہے۔"پس پطرس واضح کرتا ہے بپتسمہ نہ تو لغوی طور پرجسم کی نجاست کو دور کرتا ہے اور نہ ہی تشبیہاًرُوح کے پاک اور صاف ہونے کا سبب ہوتا ہے۔ کسی بھی طرح کی کوئی تقریب ہماری نیت پر اثر انداز نہیں ہوتی۔ لیکن یہاں پر وہ اپنے اِن الفاظ میں" بلکہ خالص نیت سے خُدا کا طالب ہونا " بیان کرتا ہے کہ نجات سے اُسکی کیا مُراد ہے۔ اور وہ اِس بات کی وضاحت بھی کرتا ہے کہ یہ سب کچھ کس طرح سے اپنی تکمیل کو پہنچا ہے، یعنی یسوع مسیح کے مُردوں میں سے جی اُٹھنے کے وسیلے سے ، جس پر ایمان رکھنے کے ذریعے سے ایک گناہگار خود کو قیامت المسیح کے ساتھ جوڑتا اور اُس کے ساتھ مُردوں میں سے جی اُٹھتا ہے۔"
اِس حوالے سے کچھ غلط فہمی اِس لیے بھی پیدا ہو گئی ہے کہ بہت بڑے پیمانے پر بپتسمے کا مقصد سب لوگوں کے سامنے اپنے ایمان کا اظہا کرنا اور اپنی شناخت کو مسیح کے ساتھ جوڑنا ہے لیکن اِس کے ساتھ کچھ لوگوں نے مزید چیزوں کو شامل کر دیا ہے جیسے کہ "مسیح کی پیروی کرنے کے لیے فیصلہ کرنا"، یا "گناہگاروں کی دُعا کرنا" وغیرہ۔ پس بہت ساری ایسی باتیں جو بعد میں ہوئیں اُن کی وجہ سے بپتسمے کے اصل معنی کو مبہم کر دیا گیا ہے۔ لیکن پطرس یا پہلی صدی کے کسی بھی مسیحی کے لیے اُس کے دور میں کسی شخص کی طرف سے مسیح کے نجات دہندہ ہونے کا اقرار کرنا اور پھر اُس کے تھوڑی دیر بعد ہی بپتسمہ نہ لینا عام طور پر نہیں دیکھا جاتا تھا۔ اِس لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ پطرس بپتسمے کو نجات کے قریباً مترادف کے طور پر دیکھتا ہے۔ لیکن پطرس اِس آیت کے اندر ہی اِس بات کو واضح کرتا ہے کہ یہ کوئی رسم نہیں جو ہمیں بچاتی ہے بلکہ مُردوں میں سے جی اُٹھے مسیح کے ساتھ ایمان کے وسیلے ایک ہونے کی بدولت ہم بچائےجاتے ہیں، اور یہ اُس وقت ہوتا ہے جب ہم "یسوع مسیح کے جی اُٹھنے کے وسیلہ سے ۔۔۔خالص نیت سے خُدا کے طالب ہوتے ہیں" (1 پطرس 3 باب 21آیت)۔
اِس لیے جس بپتسمے کی بات پطرس کر رہا ہے وہ اصل میں ایسا بپتسمہ ہےجس کے ذریعے ایمان کے وسیلے یسوع کی کفارے کی قربانی پر یقین کرنے سے ایک ناراست گناہگار کو راستباز ٹھہرایا جاتا ہے (رومیوں 3 باب 25-26آیات؛ 4باب 5آیت)۔ بپتسمہ اُس کا م کا ظاہری نشان ہے جو اُس نے ہماری ذات کے اندر کیا ہے یعنی " نئی پیدایش کے غسل اور رُوح القدس کے ہمیں نیا بنانے " کے عمل کا۔(ططس 3 باب 5آیت)
English
کیا 1 پطرس 3باب 21آیت یہ تعلیم دیتی ہے کہ بپتسمہ نجات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے؟کیا نجات حاصل کرنے کے لیے مجھے پہلے بپتسمہ لینا پڑے گا؟