سوال
کیا حتمی سچائی / عالمگیر سچائی نام کی کوئی چیز بھی دُنیا میں پائی جاتی ہے ؟
جواب
حتمی یا عالمگیر سچائی کو سمجھنےکے لیے ہمیں سچائی کی تعریف سے آغاز کرنے کی ضرورت ہے ۔ لغت کے مطابق سچائی کی تعریف "حقیقت یا اصلیت کیساتھ ہم آہنگ ہونا؛ کسی بیان کا سچا ثابت ہونا یا سچائی کے طور پر قبول کیا جاناہے۔"کچھ لوگ کہتے ہیں کہ دُنیا کے اندر اصل حقیقت کوئی نہیں ہے جو کچھ بھی ہے وہ صرف مفروضات اور تصورات ہیں۔ لیکن دوسری طرف ایسے لوگ بھی ملیں گے جو یہ کہتے ہیں کہ دُنیا کے اندر حتمی حقیقت یا سچائی لازمی ہوگی۔
ایسا ہی ایک نظریہ بیان کرتا ہے کہ اِس دُنیا میں حتمی اصول کوئی بھی نہیں ہیں جو حقیقت کو بیان کر سکیں۔ وہ لوگ جو یہ یقین رکھتے ہیں وہ مانتے ہیں کہ ہر ایک چیز کی کسی نہ کسی چیز کے ساتھ نسبت یا تعلق ہے ، اور اِس لیے کسی چیز کی بھی اصلی حقیقت موجود نہیں ہے۔ پس اِس نظریے کی روشنی میں حتمی یا عالمگیر اخلاقی اصول بھی نہیں پائے جاتے ، کسی عمل کے مثبت یا منفی،درست یا غلط ہونے کا تعین کرنے کے لیے کوئی اعلیٰ اختیار بھی موجود نہیں ہے۔ یہ نظریہ لوگوں کو "مواقعاتی اخلاقیات" کی طرف لے کر جاتا ہےجس کے مطابق جس طرح کا موقع ہو اُسی کی نسبت سے سچائی اور جھوٹ، اچھائی یا بُرائی کا بھی تعین ہوگا۔ کوئی بھی چیز اچھی یا بُری نہیں ہے اِس لیے اُس وقت اور موقع محل کے مطابق جو کچھ اچھا یا بُرا محسوس ہوتا ہے وہی اچھا یا بُرا ہے۔ بلا شک و شبہ مواقعاتی اخلاقیات نسبتی اخلاقیات کی طرف لے کر جاتی ہے ۔ یہ سوچ اور طرز فکر کہتا ہے کہ جو کچھ آپ کو اچھا محسوس ہوتا ہے وہ اچھا ہے اور جو کچھ آپکو بُرا محسوس ہوتا ہے وہ بُرا ہے، اور اِس طرح کی سوچ اور طرزِ فکر معاشرے اور انسانوں پر انفرادی طور پر بھی بہت بُرا اثر ڈالتی ہے۔ اِس چیز کو بیان کرنے کے لیے انگریز اصطلاح پوسٹ ماڈرن ازم استعمال کی جاتی ہے جس کے معنی ہیں پسِ جدیدیت، یا بعد جدیدیت جو در اصل جدید دور کے رجحانات کے خلاف ایک رَد عمل ہے۔ یہ ایک ایسا نظریہ ہے جو اِس طرح کے معاشرے کی تشکیل کرتا ہے جس میں ہر طرح کی اقدار، ہر طرح کے اعتقادات ، ہر طرح کے طرزِ زندگی اور ہر طرح کے سچائی کے دعوؤں کو برابر خیال کرتا ہے اور سبھی کو اپنی اپنی جگہ پر درست مانتا ہے۔
دوسرا نظریہ یہ تصور پیش کرتا ہے کہ اِس دُنیا کے اندر ایسی حتمی سچائیاں اور معیار موجود ہیں جو اِس بات کا تعین کرتے ہیں کہ کیا درست ہے اور کیا غلط ہے۔ پس جب اُن معیاروں کی روشنی میں دیکھا جائے تو پھر اِس بات کا تعین کیا جا سکتا ہے کہ آیا وہ عوامل درست ہیں یا غلط۔ اگر ہماری دُنیا کے اندر کوئی حتمی سچائی نہ ہو ، کسی طرح کی کوئی حقیقت نہ پائی جاتی ہو تو معاشرہ ابتری، انتشار اور افراتفری کا شکار ہو جائے گا۔ مثال کے طور پر کششِ ثقل کے قانون کو ہی لے لیں۔ اگر کششِ ثقل کا اصول حتمی نہ ہوتا تو ہم یہ فیصلہ کرنے سے قاصر ہوتے کہ آیا ہم کسی جگہ پر کھڑے ہو سکتے ہیں، بیٹھ سکتے ہیں یا چل پھر سکتے ہیں۔ اگر دو جمع دو ہر دفعہ چار نہ ہوتے تو پوری کی پوری انسانی تہذیب پر اِس کا اثر بہت ہی تباہ کن ہو سکتا تھا۔ سائنس اور فزکس کے اصول کسی کے لیے کوئی معنی نہ رکھتے، اور کاروبار کرنا کسی بھی شخص کے لیے ممکن نہ ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو سوچیں کہ وہ کسی عجیب و غریب دُنیا ہوتی ! خُدا کا شکر ہے کہ دو جمع دو ملکر چار ہی ہوتے ہیں۔ حتمی اور عالمگیر سچائی موجود ہے اور اِس کو نہ صرف ڈھونڈا جا سکتا ہے بلکہ اِسے سمجھا بھی جا سکتا ہے۔
یہ بیان دینا کہ اِس دُنیا میں کوئی حتمی سچائی موجود نہیں بالکل غیر منطقی چیز ہے۔ لیکن آجکل کے دور میں بہت سارے ایسے لوگ ہیں جو معاشرتی طور پر نسبتیت کو اپنا رہے ہیں اور وہ اِس بات سے انکار کرتے ہیں کہ معاشرے میں کسی طرح کے حتمی اصول یا سچائیاں موجود نہیں ہیں۔ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ دُنیا میں کوئی حتمی /عالمگیر سچائی موجود نہیں اُن سے یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے کہ "کیا آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں وہ حتمی /عالمگیر طور پر سچ ہے یا نہیں؟"اگر وہ کہتے ہیں کہ "ہاں" اُن کا بیان حتمی اور عالمگیر نوعیت کا ہے تو پھر اُنہوں نے تو خود ہی ایک ایسا بیان دے دیا ہے جو حتمی اور عالمگیر نوعیت کا ہے جبکہ وہ مختلف چیزوں اور بیانات کے حتمی اور عالمگیر ہونے کا انکار بھی کر رہے ہوتے ہیں۔ اِس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حتمی اور عالمگیر سچائی اپنا وجود رکھتی ہے۔ جب وہ یہ کہہ رہے ہوتے ہیں کہ اِس دُنیا کے اندر کوئی حتمی سچائی موجود نہیں تو یہ در اصل اُن کی طرف سے ایک حتمی سچائی کے طور پر دیا گیا بیان ہے۔
اِس بات کو ماننے کے لیے کہ اِس دُنیا کے اندر کسی طرح کی کوئی حتمی سچائی نہیں پائی جاتی سب سے پہلے تو اِس تصور کے خود تردید ی یا خود غارتی ہونے کو دیکھنا پڑے گا لیکن اِس کے ساتھ ساتھ بہت سارے ایسے منطقی مسائل بھی ہیں جن سے نپٹنا ضروری ہے۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ تمام کے تمام بنی نوع انسان کا علم محدود ہےا ور ہر ایک انسان کا دماغ بھی فانی اور محدود ہےاِس لیے وہ کسی بھی طور پر حتمی سچائی کے بارے میں منفی بیان نہیں دے سکتا۔ کوئی بھی شخص منطقی طور پر یہ نہیں کہہ سکتا ہے "خُدا موجود نہیں ہے" (حالانکہ بہت سارے ایسے ہیں جو یہ کہتے چلے آ رہے ہیں۔)کیونکہ کوئی بھی شخص جو ایسا بیان دیتا ہے اُس کے پاس اِس ساری کائنات کا شروع سے لیکر آخر تک حتمی اور عالمگیر علم ہونے کی ضرورت ہے۔ اب جبکہ یہ بات نا ممکن ہے تو سب سے بڑھکر اگر کوئی اِس حوالے سےکچھ کہہ بھی سکتا ہے تو وہ یہ ہے کہ "مَیں اپنی محدود سوچ کے ساتھ یہ مانتا ہوں کہ خُدا موجود نہیں ہے۔"
اِس کے ساتھ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ایسا بیان اُس بات کے ساتھ ہم آہنگ نہیں جو ہم اپنے شعور میں سچائی کے طور پر جانتے ہیں، جن چیزوں کا ہم خود تجربہ کرتے ہیں اور جو کچھ ہم حقیقی زندگی میں دیکھتے ہیں۔ اگر حقیقی سچائی جیسی کوئی چیز موجود نہیں ہے تو پھر کسی بھی چیز کے بارے میں حتمی طور پر کچھ بھی اچھا یا بُرا موجود نہیں ہے۔ جو کچھ آپ کے لیے اچھا ہے ضروری نہیں کہ وہ میرے لیے بھی اچھا ہو۔اگرچہ سطحی طور پر اِس طرح کی نسبتیت لوگوں کو کافی دلکش اور موزوں لگتی ہے، لیکن اصل میں اِس کا مطلب یہ ہے کہ ہر کوئی انسان اپنے جینے کے لیے خود سے اپنے اصول وضع کرتا ہے اور جو کچھ اُس کی نظر میں اچھا ہو وہی کرتا ہے۔ اور پھر یہ ہوتا ہے کہ ایک شخص کے نزدیک جو بات اچھی ہے اُس کا تصاد م دوسرے شخص کے اُسی چیز کے بارے میں نظریے کے ساتھ ہو جاتا ہے۔ اگر میرے نزدیک ٹریفک کے سگنل کی پرواہ نہ کرنا ہی اچھائی ہے اور سڑک پر سگنل کی لال بتی جل رہی ہے اور مَیں یہ سوچ کر اپنی گاڑی آگے بڑھا دوں کہ میرے لیے لال بتی کے جلتے ہوئے آگے جانا اچھا ہے، تصور کریں کہ ایسی صورت میں کیا ہو سکتا ہے؟اگر مَیں ایسا کروں تو مَیں بہت ساری زندگیوں کو خطرے میں ڈال دونگا۔ یا پھر مَیں شاید یہ سوچوں کہ میری طرف سے آپ کی چوری کرنا درست عمل ہے جبکہ آپ سوچیں کہ ایسا کرنا قطعی طور پر درست نہیں ہے۔ ایسی صورت میں غلط اور صحیح کے ہمارے معیار باہمی طور پر متصادم ہونگے۔ اگر سچائی حتمی اور عالمگیر نہیں ہے تو پھر میرے اور آپ سے سامنے غلط اور صحیح کا کوئی معیار موجود نہیں جس کے سامنے ہم جوابدہ ہوں، اور ایسی صورت میں ہم کبھی بھی کسی بھی چیز کے بارے میں پُر یقین نہیں ہو سکتے۔ لوگ جو مرضی چاہیں کرنے کے لیے بالکل آزاد ہونگے جیسے کہ خون، زنا بالجبر، چور، جھوٹ، دھوکا دہی وغیرہ، اور کوئی شخص یہ نہیں کہہ سکے گا کہ وہ چیزیں غلط ہیں۔ اُس صورت میں کہیں پر کوئی گورنمنٹ، کوئی قانون، کوئی انصاف نہیں ہو سکتاکیونکہ کوئی بھی شخص یہ بات نہیں کہہ سکے گا کہ لوگوں کی کوئی اکثریت ایک قانون بنا کراُس کا نفاذ کر سکتی ہے۔ کسی بھی طرح کی حتمی اقدار کے بغیر دُنیا ایسی خوفناک جگہ بن جائے گی جس کا کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا۔
اگر رُوحانی نقطہ نظر سے دیکھا جائے تو اِس طرح کی نسبتیت مذہبی تذبذب کا باعث بنتی ہے کیونکہ ایسی صورت میں پوری دُنیا میں ایک بھی مذہب درست نہیں ہوگا اور خُدا کے ساتھ تعلق رکھنے کا کوئی بھی ذریعہ نہیں ہوگا۔ اُس صورت میں سبھی کے سبھی مذاہب جھوٹے اور غلط ہونگے کیونکہ وہ سبھی موت کے بعد اگلی زندگی کے بارے میں کوئی نہ کوئی حتمی دعوے کرتے ہیں۔ آجکل کے دور میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے کہ لوگ ایسے دو مذاہب کے بارے میں اپنی اپنی جگہ پر بالکل درست ہونے پر یقین رکھتے ہیں جو آپس میں ایک دوسرے کے بالکل مخالف ہیں، اور دونوں ہی مذاہب اِس بات کے دعویدار ہوتے ہیں کہ آسمان پر جانے کا واحد راستہ وہی ہیں یا پھر وہ جن سچائیوں کی تعلیم دیتے ہیں وہ ایک دوسرے کے بالکل خلاف ہوتی ہیں۔ وہ لوگ جو اِس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ حتمی یا عالمگیر سچائی کا کوئی وجود نہیں وہ مذاہب کے دعوؤں کو رد کرتے ہوئے اُس عالمگیریت کےنظریے کو اپنا لیتے ہیں جو یہ تعلیم دیتا ہے کہ سبھی مذاہب برابر ہیں اور ہر ایک راستہ آسمان کی طرف جاتا ہے۔ وہ لوگ جو اِس نقطہ نظر کو اپنا لیتے ہیں وہ بڑی شدت کے ساتھ اُن مسیحیوں کی مخالفت کرتے ہیں جو بائبل کی تعلیمات کا پرچار کرتے اور کہتے ہیں کہ صرف یسوع ہی "راہ، حق اور زندگی " ہے، اور یہ کہ یسوع ہی سچائی کا حتمی مظہر ہے اور اگر کوئی آسمان پر جانا چاہتا ہے تو یہ صرف اور صرف یسوع کےوسیلے سے ممکن ہے (یوحنا 14 باب 6 آیت)۔
پس جدیدیت کے دور کا ایک بہت ہی نمایاں عنصر برداشت کی تعلیم ہےوہ اِسے ایک حتمی سچائی کے طور پر مانتے ہیں اور یوں وہ عدم برداشت جیسی چیز یا سوچ کو اِس دُنیا کی واحد سب سے بڑی بُرائی خیال کرتے ہیں۔ کوئی بھی ایسا تصور جس میں تھوڑا سا کٹر پن پایا جائے – خاص طور پر ایسا کوئی بھی مذہبی عقیدہ جو حتمی سچائی ہونے کا دعویدار ہو اُسے عدم برداشت کے ساتھ تشبیہ دی جاتی ہے اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہ عقیدہ حتمی گناہ ہے۔ وہ لوگ جو حتمی سچائی کے وجود کا انکار کرتے ہیں وہ اکثر یہ کہتے ہیں کہ آپ جس بھی بات پر یقین رکھنا چاہیں رکھ سکتے ہیں اور جب تک آپ اپنے تصورات کو دوسروں پر تھوپتے نہیں آپ اپنی جگہ پر بالکل ٹھیک ہیں۔ لیکن دیکھا جائے تو یہ تصور بذاتِ خود ایک ایسا عقیدہ ہے جو بیان کر رہا ہے کہ کیا اچھا ہے اور کیا بُرا اور جو لوگ اِس عقیدے کے ماننے والے ہیں وہ حقیقت میں اپنے تصورات کو دوسروں پر تھوپ رہے ہوتے ہیں ۔وہ دوسروں کے ساتھ سلوک یا رویوں کا ایک معیار قائم کر دیتے ہیں اور دوسروں پر زور دیتے ہیں کہ وہ اُن کے اُس معیار کو نہ صرف مانیں بلکہ اپنے اوپر لاگو بھی کر لیں۔ اور اِس طرح سے وہ جس اصول کا پرچار کر رہے ہوتے ہیں حقیقت میں اُسی اصول کو رَد بھی کر رہے ہوتے ہیں – اور یہ ایک اور خود تردیدی صورتحال ہے۔ وہ لوگ جو ایسا عقیدہ رکھتے ہیں در اصل اپنے کاموں کے لیے جوابدہ نہیں ہونا چاہتے۔ اگر حتمی سچائی موجود ہو تو پھر اچھائی اور بُرائی کے حتمی معیار بھی موجود ہونگے اور ہم اُن معیاروں کے سامنے یا اُن کی بناء پر مختلف طرح کے کاموں کے حوالے سے جوابدہ بھی ہونگے۔ پس جب لوگ حتمی یا عالمگیر سچائی کو رَد کررہے ہوتے ہیں تو وہ در اصل اِنہی اصولوں کے سامنے جوابدہ ہونے سے بھاگ رہے ہوتے ہیں۔
حتمی سچائی /عالمگیر سچائی سے انکار اور معاشرتی نسبتیت پسندی کا پنپنا در اصل ایک ایسے معاشرے کے اندر منطقی طور پر خود ہی جنم لے لیتا ہے جس نے زندگی کی ابتدا کے حوالے سے ارتقاء کے نظریے کو اپنا لیا ہو۔ اگر فطرت کی طرف سے زندگی کے ارتقاء کی کہانی سچی ہے تو پھر زندگی کے کوئی معنی نہیں ہیں، ہماری اپنی ذات کا کوئی مقصد نہیں ہے اور اخلاقی طور پر حتمی یا عالمگیر سطح کی اچھائی یا بُرائی کا کوئی بھی وجود نہیں پایا جاتا۔ ایسی صورت میں انسان مکمل طور پر اپنی مرضی کے مطابق جینے کے لیے آزاد ہے اور وہ اپنے کسی بھی عمل کے لیے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے۔ اِس کے باوجود گناہگار انسان جس قدر مرضی چاہے خُدا اور حتمی سچائی کے وجود کا انکار کرتا رہے پھر بھی وہ کسی نہ کسی دن اُس کے سامنے عدالت کے کٹہرے میں کھڑا ہوگا۔ بائبل مُقدس بیان کرتی ہے کہ "کیونکہ جو کچھ خُدا کی نسبت معلوم ہو سکتا ہے وہ اُن کے باطن میں ظاہر ہے اِس لیے کہ خُدا نے اُس کو اُن پر ظاہر کر دیا۔ کیونکہ اُس کی اَن دیکھی صفتیں یعنی اُس کی ازلی قدرت اور الوہیت دُنیا کی پیدایش کے وقت سے بنائی ہوئی چیزوں کے ذریعے معلوم ہو کر صاف نظر آتی ہیں۔ یہاں تک کہ اُن کو کچھ عُذر باقی نہیں ۔ اِس لیے کہ اگرچہ اُنہوں نے خُدا کو جان تو لیا مگر اُس کی خُدا ئی کے لائق اُسکی تمجید اور شکر گزاری نہ کی بلکہ باطل خیالات میں پڑ گئے اور اُن کے بے سمجھ دِلوں پر اندھیرا چھا گیا اور وہ اپنے آپ کو دانا جتا کر بیوقوف بن گئے۔" (رومیوں 1باب19- 22 آیات)
کیا حتمی سچائی کے وجود کا کوئی ثبوت ہمیں ملتا ہے؟ جی ہاں۔ سب سے پہلے تو انسانی ضمیر نامی کوئی چیز ہماری ذات کے اندر موجود ہے جو ہمیں یہ بتاتی ہے کہ دُنیا کو اور دُنیا اندر رہتے ہوئے ہمارے رویوں کو کیسا ہونا چاہیے۔ جو ہمیں بتاتا ہے کہ کچھ چیزیں غلط ہیں اور کچھ چیزیں درست ہیں۔ ہمارا ضمیر ہمیں بتاتا ہے کہ دُکھ، تکالیف، بھوک، فاقہ کشی ، زنا بالجبر، درد اور بُرائی جیسی چیزیں درست نہیں ہیں اور اِن کے برعکس ہمیں یہ بتاتا ہے کہ محبت، شفقت، فیاضی، رحم و ترس اور امن و سکون جیسی چیزیں مثبت ہیں اور ہمیں اِن چیزوں کو اپنانے کے لیے جدو جہد کرنی چاہیے۔ یہ باتیں عالمگیر سطح پر ہر ایک دور میں ہر ایک معاشرے میں درست مانی جاتی ہیں۔ بائبل مُقدس انسانی ضمیر کے کردار کی وضاحت رومیوں 2باب14- 16 آیات کے اندر کرتی ہے "اِس لئے کہ جب وہ قومیں جو شرِیعت نہیں رکھتیں اپنی طبیعت سے شرِیعت کے کام کرتی ہیں تو باوجود شرِیعت نہ رکھنے کے وہ اپنے لئے خود ایک شرِیعت ہیں۔چنانچہ وہ شرِیعت کی باتیں اپنے دِلوں پر لکھی ہُوئی دِکھاتی ہیں اور اُن کا دِل بھی اُن باتوں کی گواہی دیتا ہے اور اُن کے باہمی خیالات یا تو اُن پر اِلزام لگاتے ہیں یا اُن کو معذور رکھتے ہیں۔جس روز خُدا میری خوشخبری کے مطابق یسو ع مسیح کی معرفت آدمیوں کی پوشیدہ باتوں کا اِنصاف کرے گا۔"
سچائی کے حتمی اور عالمگیر ہونے کا دوسرا ثبوت سائنس ہے۔ سائنس کو اگر سادہ طور پر دیکھا جائے تو یہ علم کے حصول کی جستجو ہے۔ یہ اُن چیزوں کا مطالعہ ہے جنہیں ہم جانتے ہیں اور اُن چیزوں کی کھوج کی جستجو ہے جنہیں ہم نہیں جانتے ۔ اِس لیے ہر طرح کا سائنسی مطالعہ اپنی ضرورت کے تحت اِس اعتقاد کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے کہ دُنیا کے اندر عالمگیر اور حتمی نوعیت کی حقیقتیں موجود ہیں۔ اور اِن حقیقتوں کو نہ صرف دریافت کیا جا سکتا ہے بلکہ ثابت بھی کیا جا سکتا ہے۔ اگر کسی چیز یا بات کے حوالے سے کوئی حتمی حقیقت موجود نہیں ہے تو پھر ہم مطالعہ کس چیز کا کریں گے اور کیوں مطالعہ کریں گے؟ پھر کوئی کس طرح یہ با ت جانے کا کہ سائنس کی دریافتیں حقیقی ہیں؟حقیقت تو یہ ہے کہ سائنس کا ہر ایک اصول حتمی اور عالمگیر اصولوں کی بنیاد پر قائم ہے۔
حتمی اور عالمگیر سچائی کے وجود کا تیسرا ثبوت مذہب ہے ۔ دُنیا بھر کے تمام کے تمام مذاہب زندگی کی تعریف پیش کرنے اور اِس کے معنی بیان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ زندگی کے معنی کے بارے میں تصورات انسان کی اِس خواہش کے نتیجے میں پیدا ہوتے ہیں کہ زندگی میں اپنا وجود رکھنا ہی کافی نہیں بلکہ اِس کا مطلب اور مقصد اِس سے بڑھکر کچھ اور بھی ہے۔ مذہب کے ذریعے سے انسان خُدا، مستقبل کے لیے اُمید ، اپنی خطاؤں اور گناہوں کی معافی ، مختلف طرح کی مشکلات کے درمیان ذہنی سکون اور مشکل سوالات کے جوابات کی تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مذہب اِس بات کا ثبوت ہے کہ انسان محض ایک اعلیٰ سطح پر ارتقاء پذیر ہونے والے ایک جانور سے بڑھکر کچھ اور ہے۔ یہ ایک اعلیٰ مقصد کا ثبوت ہے اور ساتھ ہی ساتھ یہ ایک شخصی اور با مقصد خالق کے وجود کا بھی ثبوت ہے جس نے انسان کے دل و دماغ کے اندر اِس خواہش کو رکھا کہ وہ اُس کی تلاش کرے۔ اور اگر حقیقت میں کوئی خالق موجود ہے تو پھر اُس کی اپنی ذات حتمی سچائی کا اعلیٰ معیار بن جاتی ہے اور اُس کا اپنا اختیار ہی سچائی کو قائم رکھتا ہے۔
خوش قسمتی سے ایسا ایک خالق موجود ہے اور اُس نے اپنے کلام یعنی بائبل مُقدس کے ذریعے سے اپنی سچائی کو ہم پر ظاہر کیا ہے۔ حتمی یا عالمگیر سچائی کو جاننا اُسی صورت میں ممکن ہے جب ہم اُس ذات کے ساتھ شخصی تعلق قائم کریں جو خود سچائی ہونے کا دعویدار ہے یعنی خُداوند یسوع مسیح۔ یسوع نے یہ دعویٰ کیا ہے کہ وہ واحد راہ ہے، وہ راحد سچائی ہے اور وہ واحد زندگی ہے، اور وہی واحد ایسا راستہ ہے جو کسی بھی انسان کو خُدا کے پاس لیکر جاتا ہے (یوحنا 14 باب 6 آیت)۔ یہ حقیقت کہ حتمی اور عالمگیر سچائی موجود ہے اِس سچائی کی طرف بھی اشارہ کرتی ہے کہ ایک قادرِ مطلق خُدا بھی موجود ہے جس نے آسمان اور زمین کو تخلیق کیا اور اُس نے اپنے آپ کو ہم پر ظاہر کیا ہے تاکہ ہم اُس کے ساتھ شخصی رشتہ رکھ سکیں اور اُس کو اُسکے بیٹے خُداوند یسوع مسیح کے وسیلے سے جان سکیں۔ یہی حتمی اور عالمگیر سچائی ہے۔
English
کیا حتمی سچائی / عالمگیر سچائی نام کی کوئی چیز بھی دُنیا میں پائی جاتی ہے ؟