settings icon
share icon
سوال

خودتولیدی کا نظریہ کیا ہے؟ خود تولیدی کے کیا معنی ہیں ؟

جواب


خود تولیدی دراصل یہ تصور ہے کہ حیات/زندگی کی پیدایش بے حیاتی یا بے حیات مادے سے ہو سکتی ہے۔ یہ تصور بہت بڑے پیمانے پر پھیل چکا ہے کیونکہ بنی نوع انسان کے ایک بڑے طبقے کا سائنس کے بارے میں علم بہت زیادہ بڑھ چکا ہے، لیکن خود تولیدی کے ہر ایک نظریے میں ایک چیز مشترک ہے : سائنسی لحاظ سے اِس کی پشت پناہی اور حمایت نہیں کی جا سکتی۔خود تولیدی کا مظاہرہ کرنے والے کسی بھی طرح کے کوئی کامیاب تجربات نہیں کئے جا سکے۔ اِس کو کبھی بھی کسی قدرتی یا مصنوعی ماحول میں نہیں دیکھا گیا۔ خیال کیا جاتا ہے کہ زمین پر موجود حالات یا تو اِس عمل کے لیے درکار اکائیوں کو تیار کرنے کے قابل نہیں ہیں ، یا پھر یہ کہنے والے اپنی ہی بات کی تردید کرتے ہیں۔ ایسا کوئی ثبوت نہیں ملا جس سے پتا چلتا ہو کہ ایسی زندگی کب اور کہاں پر پیدا ہوئی تھی۔ درحقیقت آج ہم سائنس کے بارے میں جو کچھ جانتے ہیں اِس سے معلوم ہوتا ہے کہ خود تولیدی کا عمل کسی بھی طرح کے قدرتی طور پر ممکنہ حالات کے اندر نہیں ہو سکتا۔

خود تولیدی کے ابتدائی تصورات بہت سادہ تھے۔ گلا سڑا ہوا گوشت کچھ دیر کے بعد کیڑوں سے مکمل طور پرڈھک جانے سے یہ تصور کر لیا گیا کہ گوشت کیڑوں میں تبدیل ہو گیا۔ چوہوں کو عام طور پر اُن جگہوں پر دیکھا گیا جہاں پر گھاس پھوس کو ذخیرہ کیا جاتا ہے اور اِس سے فرض کر لیا گیا کہ خشک گھاس پوس خود ہی چوہوں میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ اِس قسم کی حیاتیاتی پیدایش کو "خود ساختہ نسل" کہا جاتا ہے۔ یہ دراصل کچھ سو سال پہلے تک زندہ چیزوں کی تولید کی بڑی مقبول سائنسی وضاحت تھی۔ اور 1800 عیسوی کے وسط سے پہلے ایسا ہی مانا جاتا تھا جب تک کہ پاسچر جیسے لوگوں نے تجرباتی طور پر اِس چیز کو ثابت نہ کر دیا کہ زندہ چیزیں صرف دیگر زندہ چیزوں سے ہی پیدا ہو سکتی ہیں۔ یعنی سائنس نے بالآخر حتمی طور پر ثابت کر دیا کہ کسی بھی زندہ خُلیےکی پیدایش کے لیے ایک اور زندہ خُلیے کی ضرورت ہوتی ہے۔

خود تولیدی کے جدید تصورات بہت ہی زیادہ پیچیدہ ہو سکتے ہیں، اور کچھ تو دوسروں کے مقابلے میں زیادہ مکروہ طور پر غیر امکانی ہیں۔ اِس کے حوالے سے لگائے گئے اندازے بڑے وسیع پیمانے پر متنوع ہیں، گہرے سمندر کے اندر لاواابلنے سے لیکر شہابِ ثاقب کے اثرات کے مقامات اور یہاں تک کہ تابکاری ساحلوں تک۔ عمومی طور پر خود تولیدی کے تمام جدید نظریات کچھ ایسے منظر نامے کا تصور رکھتے ہیں جس میں قدرتی/فطرتی حالات مالیکیولوں کو اِس طرح سے تخلیق کرتے، جوڑتے اور ترتیب دیتے ہیں کہ وہ خود اپنی ہی نقل تخلیق کرنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ نظریات اُن حالات کی نوعیت ، مالیکیولوں کی پیچیدگی وغیرہ کے بارے میں وسیع پیمانے پر مختلف ہیں۔ اِن سب کے اندر کم از کم ایک عنصر مشترک ہوتا ہے کہ : یہ سبھی نظریات حقیقی سائنس کی بنیاد پر نا ممکنات کی حد تک ناقابلِ یقین ہیں۔

خودتولیدی کے ساتھ ایک مسئلہ زندہ جانداروں کے اندر موجود غیر معمولی پیچیدگی ہے۔ تجربات نے اِس بات کو ثابت کیا ہے کہ لیبارٹری کے اندر کچھ خاص حالات پیدا کر کے سادہ امینو ایسڈ تشکیل دئیے جا سکتے ہیں۔ لیکن یہ تیزاب ایک زندہ خلیہ بنانے کے لیے کسی بھی طور پر کافی نہیں ہیں۔ اِن تیزابوں کی بدولت جس طرح کے حالات تخلیق کئے جاتے ہیں وہ نہ صرف ایک زندہ خلیے کی تشکیل کے ساتھ ہی اُس کو ہلاک کر دیتے ہیں بلکہ اِس بات کا بھی امکان نہیں ہے کہ زمین کے آغاز سے اِس طرح کا کوئی امتزاج حقیقت میں موجود رہا ہوگا۔ کوئی بھی ارتقائی نظریہ جو یہ بتاتا ہے کہ کس طرح ایک نئے تشکیل شُدہ خلیے سے انتہائی سادہ زندگی پیدا کی جا سکتی ہے کبھی بھی اِس بات کا جواب نہیں دیتا کہ وہ خلیہ ابتدائی طور پر کس طرح سے بنا تھا۔ سائنس کے پاس "پروٹو ٹائپ پہلے خلیے" نامی کوئی چیز موجود نہیں ہے۔ سائنس کبھی بھی ایک خود بخود پیدا ہونے والا زندہ خُلیہ تیار کرنے کے قریب تک نہیں آئی جسے اپنے اجزاء کی تشکیل کے لیے درکار حالات کے ذریعے سے پیدا کیا جا سکتا ہو یا جو پھر زندہ رہ سکتا ہو۔

کہا جاتا ہے کہ "فلسفے کا واحد مسئلہ موت ہے" یہ سچ ہو سکتا ہے اور نہیں بھی ہو سکتا، لیکن موت کے ساتھ نمٹنا کسی بھی فلسفیانہ نقطہ نظر کے لیے ایک بہت بڑا چیلنج ہو سکتا ہے۔ اِسی طرح خود تولیدی کا نظریہ سائنسی فطرت پسند لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ اِس حوالے سے کئی ایک طرح کی فطری قیاس آرائیاں کی جاتی ہیں کہ کسی خالق یا نمونہ ساز کے بغیر زندگی کا آغاز کیسے ہو سکتا ہے۔ اور پھر اِن سب خالص فطری وضاحتوں کی تردید خود حقیقی سائنس نے ہی کر دی ہے۔ یہ ستم ظریفی ہے کہ بہت سے لوگ سائنسی فطرت پسندی کو "ثابت"، "قائم" یا اِس کا "مظاہرہ" کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ اور پھر بھی فطرت پسندی لازمی طور پر خود تولیدی کے ساتھ جُڑی ہوئی ہے جسے ہم دیکھ چکے ہیں کہ وہ سائنسی طور پر ناممکن ہے۔

یہ بہت بڑا ثبوت کہ حیات کبھی بے حیاتی سے نہیں آ سکتی ، نیست سے ہست خود بخود پیدا نہیں ہو سکتا اور یہ اِس بات کی طرف ایک طاقتور اشارہ ہے کہ فطرت پسندی حقیقت پسندانہ عالمی نقطہ نظر نہیں ہے۔ زندگی کا آغاز یا تو خود تولیدی کے ذریعے سے ہوا یا پھر ایک مافوق الفطرت نمونہ ساز، خالق نے اُسے تخلیق کیا۔ اب چونکہ دیکھا جا چکا ہے کہ سائنسی لحاظ سے خود تولیدی کا عمل ناممکن ہے اِس لیے یہاں پر ہمیں ایک مافوق الفطرت نمونہ ساز، خالق کے وجود کی دلیل ملتی ہے۔ زندگی کی سب سے بنیادی تری اکائیوں کوتخلیق کرنے کے لیے غیر فطری، بہت ہی پیچیدہ طور پر ترتیب دئیے ہوئے انتہائی کنٹرول شُدہ حالات کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ چیز بذاتِ خود اِس بات کا تصور کرنے کو معقول بناتی ہے کہ زندگی کی ابتدا ایک قادرِ مطلق، پُرحکمت ذات کی مداخلت کے بغیر ناممکن ہے۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

خودتولیدی کا نظریہ کیا ہے؟ خود تولیدی کے کیا معنی ہیں ؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries