سوال
کلام کے مجسم ہونے سے کیامُراد ہے (یوحنا 1باب14آیت)؟
جواب
کلام کی اصطلاح بائبل میں کئی ایک مختلف طریقوں سے استعمال ہوئی ہے۔ نئے عہد نامے کے اندر دو یونانی الفاظ کا ترجمہ "کلام" کیا گیا ہے، جیسے کہ: rhema/ریحما اور logos/لوگوس۔ اِن دونوں کے معنی میں معمولی سا فرق ہے۔ ریحما کے معنی عام طور پر "بولے گئے کلام" کے ہیں ۔ مثال کے طور پر لوقا 1باب38آیت کےاندر جب فرشتے نے مریم کو بتایا کہ وہ خُدا کے بیٹے کی ماں بنے گی تو مریم نے جواب دیا کہ "دیکھ مَیں خُداوندکی بندی ہُوں ۔ میرے لئے تیرے قول (ریحما/rhema)کے مُوافق ہو ۔ "
لوگوس کے معنی بہرحال وسیع اور مزید فلسفیانہ ہیں۔ یہ اصطلاح یوحنا 1 باب کے اندر استعمال کی گئی ہے۔ یہ اصطلاح عام طور پر ایک مکمل کلام کی طرف اشارہ کرتی ہے اور زیادہ تر اِس کا استعمال انسان کو ملنے والے خُدا کے کلام کی طرف اشارہ کرنے کے لیے کیا گیا ہے۔ مثال کے طور پر لوقا کی انجیل میں جب خُداوند یسوع لوگوں کو تعلیم دے رہا تھا تولوقا 4باب32آیت بیان کرتی ہے کہ "اور لوگ اُس کی تعلیم سے حیران تھے کیونکہ اُس کا کلام اِختیار کے ساتھ تھا۔ "لوگ صرف اُن الفاظ کی وجہ سے حیران نہیں تھے جو یسوع نے اپنے ہونٹوں سے ادا کئے تھے بلکہ وہ اُس کے مکمل پیغام سے ہی حیران تھے۔
یوحنا 1باب میں استعمال ہونے والا"کلام" (لوگوس) خُداوند یسوع مسیح کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ یسوع ایک مکمل پیغام ہے –اُس کی ذات میں ہر ایک وہ بات ہے جو خُدا بنی نوع انسان کے ساتھ کرنا چاہتا ہے۔ یوحنا کی انجیل کا پہلا باب خُداوند یسوع کے انسانی شکل میں اِس زمین پر ظاہر ہونے سے پہلے خُدا باپ اور خُدا بیٹے کے باہمی تعلق کی جھلک پیش کرتا ہے۔ وہ باپ کے ساتھ پہلے سے ہی موجود تھا (1 آیت)، وہ ہر ایک چیز کی تخلیق میں شامل تھا (3آیت)، اور وہ "آدمیوں کا نور" ہے (4 آیت)۔ کلام (یسوع) خُدا کی ذات کا پورا پورا تجسم ہے (کلسیوں 1باب19آیت؛ 2باب 9آیت؛ یوحنا 14باب9آیت)۔ لیکن خُدا باپ رُوح ہے۔ اُسے انسانی آنکھ دیکھ نہیں سکتی۔ خُدا نے اپنی محبت اور انسانی نجات کا جو پیغام اپنے نبیوں کے ذریعے سے بھیجا تھا اُس پر صدیوں سے غور نہیں کیا جا رہا تھا (حزقی ایل 22باب26آیت؛ متی 23باب37آیت)۔ لوگوں نے ایک نظر نہ آنے والے خُدا کے اِس پیغام کی کوئی پرواہ نہ کی اور اپنے گناہ اور اُس کے خلاف بغاوت میں بڑھتے رہے۔ پس کلام مجسم ہوا، اُس نے انسانی صورت اختیار کی اور ہمارے درمیان رہا (متی 1باب23آیت؛ رومیوں 8باب3آیت؛ فلپیوں 2باب5-11آیات)۔
یونانی لوگ لفظ لوگوس کا استعمال کسی شخص کے "ذہن"، "شعور" یاپھر "حکمت" کی طرف اشارہ کرنے کےلیے استعمال کرتے تھے۔ یوحنا نے اِس یونانی تصور کو لیا اور اُسے اِس حقیقت کو بیان کرنے کے لیے استعمال کیا کہ پاک تثلیث کا تیسرا اقنوم خُداوند یسوع مسیح اِس دُنیا کے لیے خُدا کی اپنی ذات کا مظہر ہے۔ پرانے عہد نامے میں خُدا کا کلام اِس کائنات کو وجود میں لانے کے لیے استعمال ہوا (33 زبور 6آیت) اور وہ ضرورت مند وں کو شفا بخش کر ہلاکت سے بچاتا ہے (107زبور 20آیت)۔ یوحنا کی انجیل کے پہلے باب میں یوحنا یہودیوں اور یونانیوں دونوں ہی پر ابدی مسیح کو قبول کرنے کے لیے زور دے رہا ہے۔
یسوع نے لوقا 20باب9-16آیات کے اندر ایک تمثیل کے ذریعے سے بیان کیا ہے کہ کلام کو مجسم ہونے کی ضرورت کیوں تھی۔" ایک شخص نے تاکستان لگا کر باغبانوں کو ٹھیکے پر دِیا اور ایک بڑی مُدّت کے لئے پردیس چلا گیا۔اور پھل کےموسم پر اُس نے ایک نَوکر باغبانوں کے پاس بھیجا تاکہ وہ تاکستان کے پھل کا حصّہ اُسے دیں لیکن باغبانوں نے اُس کو پِیٹ کر خالی ہاتھ لَوٹا دِیا۔پھر اُس نے ایک اَور نَوکر بھیجا۔ اُنہوں نے اُس کو بھی پِیٹ کر اور بے عزت کر کے خالی ہاتھ لَوٹا دِیا۔پِھر اُس نے تیسرا بھیجا ۔ اُنہوں نے اُس کو بھی زخمی کر کے نِکال دِیا۔
اِس پر تاکستان کے مالِک نے کہا کہ کیا کروں؟ مَیں اپنے پیارے بیٹے کو بھیجوں گا ۔ شاید اُس کا لحاظ کریں۔جب باغبانوں نے اُسے دیکھا تو آپس میں صلاح کر کے کہا یہی وارِث ہے ۔ اِسے قتل کریں کہ میراث ہماری ہو جائے۔پس اُس کو تاکستان سے باہر نکال کر قتل کِیا ۔ اب تاکستان کا مالِک اُن کے ساتھ کیا کرے گا؟وہ آ کر اُن باغبانوں کو ہلاک کرے گا اور تاکستان اَوروں کو دے دے گا۔ "
اِس تمثیل کے اندر یسوع یہودی قیادت پر اِس بات کو واضح کر رہا تھا کہ اُنہوں نے اُس سے پہلے کے نبیوں کو رَد کیا ہےا ور اب وہ بیٹے کو بھی رَد کر رہے ہیں۔ اِس لیے اب لوگوس، خُدا کا کلام صرف یہودیوں کو نہیں بلکہ ہر اُس شخص کو دیا جائے گا جو اُسے قبول کرے گا (یوحنا 10باب16آیت؛ گلتیوں 2باب28آیت؛ کلسیوں 3باب11آیت)۔ کیونکہ کلام مجسم ہوا، اِس لیے اب ہمارا ایک ایسا سردار کاہن ہے جو ہماری کمزوریوں میں ہمارا ہمدرد ہو سکے وہ جو سب باتوں میں ہماری طرح آزمایا گیا تو بھی بے گناہ رہا (عبرانیوں 4باب15آیت)۔
English
کلام کے مجسم ہونے سے کیامُراد ہے (یوحنا 1باب14آیت)؟