سوال
مَیں کس طرح رُوح القدس سےمعمور ہو سکتا ہوں؟
جواب
رُوح القدس سےمعمور ہونے یا بھرنے کو بہتر طور پر سمجھنے کے لیے ایک اہم حوالہ یوحنا 14باب 16آیت ہے جہاں پر خُداوند یسوع نے وعدہ کیا ہے کہ رُوح القدس ایمانداروں میں بسے گا اور اُس کا ایمانداروں میں بسنا مستقل ہوگا۔ یہاں پر رُوح القدس کے کسی ایماندار میں بسنے اور کسی ایماندار کے رُوح سےمعمور ہونے میں فرق کرنے کی ضرورت ہے۔ رُوح القدس کے ایمانداروں میں بسنے کو اگر دیکھا جائے تو یہ کچھ مخصوص ایمانداروں کے لیے نہیں ہےبلکہ یہ وعدہ تمام ایمانداروں کے لیے تھا۔ کلامِ مُقدس میں ایسے بہت سارے حوالہ جات ہیں جو اِس بات کی تائید کرتے ہیں۔ سب سے پہلے تو رُوح القدس یسوع کی طرف سے دیا گیا وہ تحفہ ہے جو ہر ایک ایماندار کو بلا تفریق ملتا ہے، اور اِس تحفے کو حاصل کرنے کے لیے صرف خُداوند یسوع پر ایمان لانے کے سوا کوئی اور شرط عائد نہیں کی گئی (یوحنا 7باب 37- 39آیات)۔ دوسری بات یہ کہ رُوح القدس کسی شخص کو اُس وقت مل جاتا ہے جب وہ نجات پا لیتا ہے( افسیوں 1باب 13آیت)۔ گلتیوں 3باب2آیت اِسی سچائی کی یہ کہتے ہوئے تصدیق کرتی ہے کہ جس وقت ہم ایمان لاتے ہیں اُسی وقت رُوح القدس کی مُہر ہم پر ہوتی ہے اور وہ ہم میں آ بستا ہے ۔اور تیسری بات یہ ہے کہ رُوح القدس ایمانداروں کے اندر مستقل طور پر بستا ہے ۔ ایمانداروں کو رُوح القدس بطور بیعانہ یا اُنکی مستقبل میں مسیح میں جلالی حالت کی تصدیق یا ضمانت کے طور پر دیا جاتا ہے(2 کرنتھیوں 1باب 22آیت؛ افسیوں 4باب30آیت)۔
یہ بات رُوح القدس سےاُس طرح بھرنے یا معمور ہونے سے مختلف ہے جس کا ذکر ہم افسیوں 5باب 18آیت میں پڑھتے ہیں ۔ ہمیں مکمل طور پر رُوح القدس کے تابع ہونا چاہیے کہ وہ ہماری ذات پر مکمل اختیار حاصل کر لے اور اِس طرح سے ہم اُس سے معمور ہو جائیں۔ رومیوں 8باب9آیت اور افسیوں 1باب13- 14آیات بیان کرتی ہیں کہ وہ ہر ایک ایماندار کے اندر بستا ہے، لیکن وہ رنجیدہ بھی ہو سکتا ہے (افسیوں 4باب30آیت)، اور ہماری ذات کے اندر اُسکی سرگرمیاں بجھ سکتی ہیں (1 تھسلنیکیوں 5باب 19 آیت)۔ جب بھی ہم اپنی زندگی میں ایسا کچھ ہونے دیتے ہیں تو پھر ہم رُوح القدس کی معموری اور اُس کی قدرت کو اپنے اندر اور اپنی ذات کے وسیلے سے کام کرتا ہوا نہیں دیکھتے۔رُوح القدس سے معمور ہونے کا مطلب یہ ہے کہ رُوح القدس اپنی مرضی اور آزادی سے ہماری زندگی اور اُس کے ہر ایک حصے پرقابض ہو، اُس پر اپنا پورا اختیار رکھے اور ہمارے بدن کے ہر ایک حصے کی خود رہنمائی کرے۔ اگر ایسا ہو تو پھر ہماری زندگی سے ایسے کام سر انجام پاتے ہیں جو خُدا کے نزدیک پھلدار ہوتے ہوں۔ رُوح القدس سے بھرنے یا معمور ہونے کا تعلق محض بیرونی اعمال کے ساتھ ہی نہیں ہے، بلکہ اِس کا اطلاق ہماری ذات کے اندرونی ترین خیالات، ہمارے مخفی مقاصد ، نیت اور اعمال پر بھی ہوتا ہے۔ 19 زبور 14ایت بیان کرتی ہے کہ "میرے مُنہ کا کلام اور میرے دِل کا خیال تیرے حضور مقبول ٹھہرے ۔ اَے خُداوند! اَے میری چٹان اور میرے فِدیہ دینے والے!"
گناہ وہ چیز ہے جو کسی کے رُوح القدس سے معمور ہونے میں رکاوٹ بنتی ہے، اور خُدا کے احکام کی تابعداری وہ چیز ہے جس کے وسیلے ہم رُوح سے معمور ہو سکتے ہیں۔ افسیوں 5باب18آیت ہمیں حکم دیتی ہے کہ ہم رُوح سے معمور ہو جائیں، لیکن یہاں پر یہ نہیں کہا گیا کہ رُوح القدس سے ایسے معمور ہو جائیں کہ ہماری زندگی میں رُوح القدس کی معموری کا عمل مکمل ہو جائے اور ہمیں پھر کبھی بھی رُوح القدس سے معمور ہونے کی ضرورت ہی نہ رہے۔ جب ہم خُدا کے احکام کی تعمیل کرتے ہیں تو صرف اُسی صورت میں رُوح القدس آزادی اور اپنی مرضی کے ساتھ ہماری زندگیوں میں کام کرتا ہے۔ اور چونکہ گناہ ابھی بھی کسی نہ کسی صورت میں ہماری ذات کا حصہ رہتا ہے اِس لیے ہمارے لیے ہر وقت رُو ح القدس سے معمور رہنا ممکن نہیں ہے۔ جب کبھی ہم سے گناہ سرزد ہو جائے تو ہمیں فوری طور پر اپنے اُس گناہ سے توبہ کر کے خُدا کی حضوری میں اعتراف کے ساتھ معافی مانگنےکی ضرورت ہے تاکہ ہم رُوح القدس سے معمور رہیں اور رُوح القدس کی رہنمائی میں چلتے رہیں۔
English
مَیں کس طرح رُوح القدس سےمعمور ہو سکتا ہوں؟