settings icon
share icon
سوال

پرانے عہد نامے میں رُوح القدس کا کیا کردار تھا؟

جواب


پرانے عہد نامے میں رُوح القدس نے بالکل ایسا ہی کردار ادا کیا ہے جیسا وہ نئے عہد نامے میں ادا کرتا ہے ۔ جب ہم رُوح القدس کے کردار کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہم عمومی طور پر اُن چار پہلوؤں پر غورکر سکتے ہیں جن پر رُوح القدس کام کرتا ہے : (1) تخلیقِ نو، (2)ایمانداروں کی زندگی میں بسنا(یا اُن کو معمور کرنا)، (3) مزاحمت کرنا اور(4) خدمت کےلیےقوت بخشنا۔ پرانے عہد نامے میں ان پہلوؤں سے متعلق رُوح القدس کے کام کے ثبوت بالکل نئے عہد نامے کی طرح واضح ہیں ۔

انسانی زندگی میں رُوح القدس کے کام کا پہلا پہلو تخلیق ِ نو کا عمل ہے ۔ تخلیقِ نو کےلیے استعمال ہونے والا ایک اور لفظ " نئی پیدایش" ہے جس سے ہمیں " نئے سرے سے پیدا ہونے" کا تصور حاصل ہوتا ہے ۔ متن کے حوالے سے اس کےلیے عمدہ ترین ثبوت یوحنا کی انجیل میں مل سکتا ہے " یِسُو ع نے جواب میں اُس سے کہا مَیں تجھ سے سچ کہتا ہوں کہ جب تک کوئی نئے سِرے سے پیدا نہ ہو وہ خُدا کی بادشاہی کو دیکھ نہیں سکتا" ( یوحنا 3باب 3آیت)۔ اس سے یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ پرانے عہد نامے میں اس اعتبار سے رُوح القدس کا کیا کام ہے ؟ نیکدیمس سے مزید بات کرتے ہوئے یسوع اُس سے کہتا ہے کہ "بنی اِسرائیل کا اُستاد ہو کر کیا تُو اِن باتوں کو نہیں جانتا؟"( یوحنا 3باب 10 آیت) ۔ یسوع یہاں جس نقطے کو واضح کر رہا تھا وہ یہ ہے کہ نیکدیمس کو اس حقیقت سے واقف ہونا چاہیے کہ رُوح القدس نئی زندگی کاسرچشمہ ہے اس لیے کہ یہ بات پرانے عہد نامے میں پوری طرح عیاں ہے۔ مثال کے طور پر وعدے کی سر زمین میں داخل ہونے سے پہلے موسیٰ نے بنی اسرائیل سے وعدہ کیا تھا کہ "خُداوند تیرا خُدا تیرے اور تیری اَولاد کے دِل کا ختنہ کرے گا تاکہ تُو خُداوند اپنے خُدا سے اپنے سارے دِل اور اپنی ساری جان سے محبت رکھے اور جیتا رہے" (استثنا 30باب 6آیت)۔ دل کا یہ ختنہ خدا کے رُوح کا کام ہے اور اِ س کی تکمیل صرف اُسی کے وسیلہ سے ممکن ہو سکتی ہے ۔ تخلیقِ نو کے موضوع کو ہم حزقی ایل 11باب 19-20 آیات اور 36باب 26-29آیات میں بھی دیکھتے ہیں ۔

رُوح القدس کے تخلیقِ نو کے کام کا نتیجہ ایمان ہے(افسیوں 2باب 8آیت)۔ ہم جانتے ہیں کہ پرانے عہدنامے میں ایمان کے حامل لوگ موجود تھے کیونکہ عبرانیوں 11باب اُن میں سے بیشتر لوگوں کے نام کا ذکر کرتا ہے ۔ اگر ایمان رُوح القدس کی تخلیقِ نو کی قدرت کے وسیلہ سے پیدا ہوتا ہے تو پھر پرانے عہد نامے کے اُن مقدسین کےلیے بھی ایسا معاملہ ہونا چاہیے جو یہ ایمان رکھتے ہوئے صلیب کے منتظر تھے کہ خدا نے اُن کی نجات کے سلسلے میں جو وعدہ کیا تھا وہ ضرور پورا ہو گا ۔ ایمان کیساتھ اس بات کو قبول کرتے ہوئے کہ خدا نے جو وعدہ کیا ہے وہ اُسے پورا بھی کرے گاوہ " سب اِیمان کی حالت میں مَرے اور وعدہ کی ہُوئی چیزیں نہ پائیں مگر دُور ہی سے اُنہیں دیکھ کر خُوش ہُوئے " ( عبرانیوں 11باب 13آیت)۔

پرانے عہد نامے میں رُوح القدس کے کام کا دوسرا پہلو ایمانداروں کی زندگی میں بسنایا اُن کو معمور کرنا ہے ۔ ا س پہلو کے لحاظ سے پرانے عہد نامے اور نئے عہد نامے میں رُوح القدس کے کردار کے درمیان بڑا واضح فرق پایا جاتا ہے ۔ نیا عہد نامہ ایمانداروں کی زندگی میں رُوح القدس کے مستقل طور پر بسے رہنے کے بارے میں تعلیم دیتا ہے ( 1کرنتھیوں 3باب 16-17؛ 6 باب 19-20آیات)۔ جب ہم نجات کےلیے مسیح پر ایمان لاتے ہیں تو اُس وقت رُوح القدس ہماری زندگیوں میں آتا ہے ۔ پولس رسول رُوح القدس کے اس مستقل بسیرے کو " ہماری میراث کا بیعانہ" کہتا ہے ( افسیوں 1باب 13-14آیات)۔ نئے عہد نامے میں اس مستقل قیام کے برعکس پرانے عہد نامے میں رُوح ا لقدس کا قیام مخصوص لوگوں کی زندگی میں عارضی تھا۔ رُوح القدس پرانے عہد نامے کے لوگوں جیسا کہ یشوع( گنتی 27باب 18آیت)، داؤد ( 1سموئیل 16باب 12-13آیات) اور ساؤل پر بھی " نازل ہوا" تھا ۔ قضاۃ کی کتا ب میں ہم رُوح القدس کے " نزول" کو اُن مختلف قاضیوں کی زندگی میں دیکھتے ہیں جن کو خدا نے اس لیے برپا کیا تھا کہ وہ اسرائیل کو اُن پر ظلم کرنے والوں سے رہائی دلائیں ۔ رُوح القدس اِن لوگوں پر خاص مقاصد کی تکمیل کے لیے نازل ہوا تھا ۔ ایک مخصوص شخص پر( جیسا کہ داؤد کے معاملے میں ) رُوح القدس کا نزول اس بات کی علامت ہوتی کہ خدا اُس شخص سے راضی ہے اور جب خدا اُس سے راضی نہ رہتا تو رُوح القدس بھی اُس سے جُدا ہو جاتا ( جیسا کہ 1 سموئیل 16باب 14آیت میں ساؤل کے معاملے میں ہوا تھا ) ۔ آخری بات ،کسی شخص پر رُوح القدس کا " نزول" ہمیشہ اُس شخص کی رُوحانی حالت کی نشاندہی نہیں کرتا تھا ( جیسا کہ ساؤل ، سمسون اور بہت سے قاضیوں کی زندگی میں دیکھا جا سکتا ہے )۔ چنانچہ نئے عہد نامے میں رُوح القدس صرف ایمانداروں کی زندگی میں نازل ہوتا اور مستقل طور پر بسا رہتا ہے جبکہ پرانے عہد نامے میں رُوح القدس مخصوص لوگوں پر اُن کی رُوحانی حالت کے قطع نظر ایک خاص مقصد کے تحت نازل ہوتا تھا ۔ اور ایک بار جب وہ مقصد پورا ہو جاتا تو ممکنہ طور پر رُوح القدس بھی اُس شخص سے جُدا ہو جاتا تھا ۔

پرانے عہد نامے میں رُوح القدس کے کام کا تیسرا پہلو گناہ کےخلاف مزاحمت کرنا ہے ۔ پیدایش 3باب 6آیت واضح کرتی ہے کہ رُوح القدس انسان کی بدی کو روکے رکھتا ہے اور جب اس گناہ کے بارے میں خدا کا تحمل " نقطہِ عروج" پر پہنچ جاتا ہے تو اکثر یہ پابندی ختم ہو جاتی ہے اور پھر خُدا گناہگار لوگوں کی عدالت کرتا ہے۔ یہ تصور 2تھسلنیکیوں 2باب 3-8آیات میں ملتا ہے جب آخری ایام میں بڑھتی ہوئی گمراہی خدا کی عدالت کے نازل ہونے کی نشاندہی ہوگی ۔ اُس مقررکردہ وقت تک جب وہ " گناہ کا شخص" ظاہر نہیں ہوگا رُوح القدس شیطان کی طاقت کو رو کے رکھے گا اور اُس وقت تک اپنا یہ کام نہیں چھوڑے گا جب تک ایسا کرنا اُس کے مقاصد کے لحاظ سے موزوں ہو گا ۔

پرانے عہد نامے میں رُوح القدس کے کام کا چوتھا اورآخری پہلو خدمت کی قابلیت عطا کرنا یا خدمت کے لیے قوت بخشنا ہے ۔ جس طرح رُوحانی نعمتیں نئے عہد نامے میں کام کرتی دکھائی دیتی ہیں بالکل اُسی طرح سے رُوح القدس کچھ مخصو ص لوگوں کو خدمت کی نعمت بھی بخشے گا ۔ خروج 31باب 2-5آیات میں بضلی ایل کی مثال پر غور کریں جسے خیمہ اجتماع کے حوالے سے ہر طرح کی صنعت اور ہنرمندی کا کام کرنے کی صلاحیت بخشی گئی تھی ۔ مزید برآں مذکورہ بالا رُوح القدس کے کسی مخصوص شخص پر عارضی نزول کے پسِ منظر میں ہم دیکھتے ہیں کہ اِ ن لوگوں ( مثلاً ساؤل اور داؤد )کو کچھ خاص مقاصد جیسا کہ بنی اسرائیل پر حکمرانی کے کام کو سر انجام دینے کےلیے رُوح سے معمور کیا گیا تھا ۔

ہم تخلیقِ کائنات کے عمل میں بھی رُوح القدس کے کردار کا ذکر کر سکتے ہیں ۔ پیدایش 1باب 2آیت رُوح القدس کے " پانی کی سطح پرجنبش" کرنے اور تخلیق کے کام کی نگرانی کرنے کے بارے میں بیان کرتی ہے ۔ اسی انداز میں رُوح القدس نئی پیدایش کے عمل کےلیے بھی ذمہ دار ہے ( 2کرنتھیوں 5باب 17آیت) کیونکہ وہ تخلیقِ نو کے وسیلہ سے لوگوں کو خدا کی بادشاہی میں لا رہا ہے ۔

مجموعی طور پر رُوح القدس جس طرح اس موجودہ دُور میں کردار ادا کرتا ہے بالکل اِسی طرح سے وہ پرانے عہد نامے کے اندر بھی اہم افعال سرانجام دیتا تھا ۔ا ہم فرق یہ ہے کہ اب رُوح القدس ایمانداروں کی زندگی میں مستقل طور پر بسا رہتا ہے ۔ جیسا کہ رُوح القدس کی خدمت میں اس تبدیلی کے بارے میں یسوع نے فرمایا تھا " تم اُسے جانتے ہو کیونکہ وہ تمہارے ساتھ رہتا ہے اور تمہارے اندر ہو گا"( یوحنا 14باب 17آیت)۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

پرانے عہد نامے میں رُوح القدس کا کیا کردار تھا؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries