settings icon
share icon
سوال

چھوٹے بچوں کا قتل عام کیا ہے؟

video
جواب


مسیح کی پیدایش کے کچھ عرصے بعد ہیرو دیسِ اعظم نے دو سال اور اس سے کم عمر کے تمام لڑکوں کو قتل کرنے کا حکم دے کر شیر خوار یسوع کو ہلاک کرنے کی ناکام کوشش کی۔ بیت لحم اور اِس کے آس پاس کے علاقوں میں بچوں کے اِس قتل کو کلیسیا میں چھوٹے بچوں کے قتلِ عام کا نام دیا جاتا ہے ۔



یہ واقعہ متی 2باب 16-18 آیات میں درج ہے : " ہیرود یس نے ۔۔ ۔ آدمی بھیج کر بَیت لحم اور اُس کی سب سرحدّوں کے اندر کے اُن سب لڑکوں کو قتل کروا دِیا جو دو دو برس کے یا اِس سے چھوٹے تھے۔ اُس وقت کے حِساب سے جو اُس نے مجُوسِیوں سے تحقِیق کی تھی۔ اُس وقت وہ بات پُوری ہُوئی جو یرمیاہ نبی کی معرفت کہی گئی تھی کہ۔ رامہ میں آواز سُنائی دی۔ رونا اور بڑا ماتم ۔ راخِل اپنے بچّوں کو رو رہی ہے اور تسلّی قبُول نہیں کرتی اِس لِئے کہ وہ نہیں ہیں"۔

ستارے کے نشان کو دیکھ کرمشرق سے آنے والے مجوسی یہ کہتے ہوئے یروشلیم میں آئے کہ "یہُودِیوں کا بادشاہ جو پَیدا ہُؤا ہے وہ کہاں ہے؟" (متی 2باب 2آیت)۔ سردار کاہنوں اور فقیہوں سے مشورہ کرنے کے بعد ہیرودیس نے مجوسیوں کو بتایا کہ پیشین گوئی کے مطابق مسیح کی جائےِ پیدایش بیت لحم ہے (4-5آیات)۔ اِس کے بعد اُس نے مجوسیوں کو اِس حکم کے ساتھ بیت لحم سے روانہ کیا کہ وہ یروشلیم واپس آئیں اور اُسے نومولود بادشاہ کی پیدایش کے درست مقام کے بارے میں آگاہ کریں۔جب واضح ہو گیا کہ مجوسیوں نے اُس کے حکم کو نظر انداز کیا ہے تو ہیرودیس نے معصوم بچوں کے قتلِ عام کا حکم دیتے ہوئے اپنے اِس وحشیانہ منصوبے کو عملی جامہ پہنایا۔

بچوں کا قتلِ عام ہیرودیس بادشاہ کے شدید دماغی خلل اور ظلم کا نتیجہ تھا۔اپنے مفادات کے تحفظ کی خاطر ہیرویس بادشاہ بیت لحم کے تمام چھوٹے لڑکوں کے قتلِ عام سمیت کچھ بھی کر گزرتا۔ مجوسیوں نے ہیرودیس کو بیت لحم میں ایک نئے بادشاہ کی آمد کے بارے میں خبردار کر دیا تھا ۔ اپنے خوف اور انتہائی بد گمانی کے باعث ہیرودیس اپنے مد مقابل بادشاہ کو زندہ نہیں چھوڑسکتا تھا۔ یسوع کی درست عمر سے نا معلوم ہیرودیس اس حوالے سے پُر یقین تھا کہ مجوسیوں نے اُسے بتایا تھاکہ اُنہوں نے پہلی بار ستارہ کب دیکھا تھا، لہذا اُس سے وہ وقت کا حساب لگاتے ہوئے بچوں کے قتلِ عام کا حکم دیتا ہے۔پس اُس نے اپنے حریف بادشاہ کو ختم کرنے کے لیے کوئی کسر نہ چھوڑی اور بیت لحم میں دو سال اور اِس سے کم عمر کے تمام لڑکوں کو مروا ڈالا۔

متی 2باب 17-18 آیات یرمیاہ 31باب 15 آیت کی پیشین گوئی کا حوالہ دیتی ہیں ۔یرمیاہ نبی کی پیشین گوئی اپنے اصل سیاق و سبا ق میں بابل میں اسرائیل کی اسیری اور یہوداہ پر حملے کے دوران بچوں کے قتل کا بیان کرتی ہے ۔اسرائیلی مائیں جن کی راخل کے طور پر تصویر کشی کی گئی ہے اپنے اُن لڑکوں کے لیے رو رہی ہیں جنہیں اسیر کر کے لے جایا گیا تھا۔راخل کو بنی اسرائیل میں نمایاں شخصیت خیال کیا جاتا تھا اور اُس کی قبر بیت لحم کے قریب واقع ہے ( پیدایش 35باب 19آیت)۔متی رسول یرمیاہ نبی کی پیشین گوئی کو بچوں کے قتلِ عام کے ساتھ جوڑتا ہے اور اِن دونوں کی مماثلت حیرت انگیز ہے ۔بچوں کے قتلِ عام اور موسیٰ کی پیدایش کے وقت تمام عبرانی لڑکوں کو قتل کرنے کے لیے فرعون کے حکم کے درمیان بھی پُر اسرار مماثلت پائی جاتی ہیں (خروج 1باب 15-16آیات)۔

ہیرودیس کے حکم کے مطابق بچوں کا قتلِ عام تو کیا گیا لیکن دنیا کو اُس کے مسیحا سے محروم کرنے کا اُس کا منصوبہ اُس وقت ناکام ہو ا جب خدا نے ایک اور پیشینگوئی کی تکمیل میں یسوع کو بچانے کے لیے مداخلت کی۔ جب مجوسی اپنے وطن واپس جانے کے لیے بیت لحم سے روانہ ہوئے تو یوسف نے ایک خواب دیکھا: "فرِشتہ نے یُوؔسف کو خواب میں دِکھائی دے کرکہا اُٹھ ۔ بچّے اور اُس کی ماں کو ساتھ لے کر مِصرؔ کو بھاگ جا اور جب تک کہ مَیں تُجھ سے نہ کہُوں وہیں رہنا کیونکہ ہیروؔد یس اِس بچّے کو تلاش کرنے کو ہے تاکہ اِسے ہلاک کرے۔ پس وہ اُٹھا اور رات کے وقت بچّے اور اُس کی ماں کوساتھ لے کر مِصرؔ کو روانہ ہو گیا۔اور ہیرود یس کے مَرنے تک وہیں رہا تاکہ جو خُداوند نے نبی کی معرفت کہا تھا وہ پُورا ہو کہ مِصرؔ میں سے مَیں نے اپنے بیٹے کو بُلایا(متی 2باب 13-15 آیات؛ ہوسیع 11باب 1آیت)۔ ہماری نجات کے منصوبے کو قائم رکھنے کے لیے خدا باپ نے اپنے بیٹے کو جسمانی حالت میں محفوظ رکھا۔

کچھ قدیم مسیحی روایات کا دعویٰ ہے کہ بچوں کے قتلِ عام میں دس ہزار سے لے کر ایک لاکھ تک بچے شامل تھے ۔ تاہم، بیت لحم کے چھوٹے سے گاؤں کی آبادی، سالانہ شرح پیدایش اور اُس وقت نومولود بچوں کی بلند شرح اموات کی بنیاد پر زیادہ تر بائبلی تاریخ دانوں اور ماہرینِ آبادیات کا اندازہ ہے کہ دو سال سے کم عمر کے نر بچوں کی کل تعداد 20 تا 40 تک سےزیادہ نہیں ہو گی ۔ بچوں کی کم تعداد اِس جرم کو کسی وحشت انگیزی سے کم قرار نہیں دے سکتی ۔ یہاں تک کہ ایک بچے کی موت بھی ایک بڑاالمیہ ہے ۔

اُس دور کی غیر مذہبی تاریخی کتب میں بچوں کے اِس قتلِ عام کا ذکر نہیں ملتا۔ ایک غیر اہم گاؤں میں چالیس عبرانی بچوں کا قتل دنیاوی تاریخ دانوں کی توجہ حاصل نہ کر پایا۔ مزید یہ کہ ہیرودیس کے ظلم اور بربریت کے ایسے بے شمار کام تھے جن میں اُس کی اپنی چند بیویوں اور بچوں کا قتل بھی شامل تھا۔ بچوں کا یہ قتل عام جس میں یہودی بچوں کی نسبتاً کم تعداد شامل تھی اِس بے رحم حکمران کی ظالمانہ کارروائیوں کی ایک طویل فہرست میں محض ایک اور ظالمانہ فعل تھا۔

رومن کیتھولک، اِیسٹرن رائٹ اور آرتھوڈوکس کلیسیاؤں میں عیدِ پاک معصومین کے موقع پر بچوں کے اِس قتل عام کی یاد منائی جاتی ہے جس میں ان مقتول لڑکوں کو مسیحی شہداء اور مقد سین کے طور پر سراہا جاتا ہے۔ یہ عید مغربی کلیسیاؤں میں 28 دسمبر کو اور مشرقی کلیسیاؤں میں 29 دسمبر کو منائی جاتی ہے۔

کوونٹری کیرول(جلاوطنی کا نغمہ) کرسمس کا ایک پرانا گیت اُن بچوں کے لیے لوری کے طور پر لکھا گیا تھاجو اس قتلِ عام میں مرے تھے ۔

بچوں کا قتل عام ہیرودیس کی خدا کے منصوبے کو ناکام بنانے اور بائبل کی پیشین گوئی کو پورا ہونے سے روکنے کی ایک کوشش تھی۔ یقیناً وہ ناکام ہوااور اپنی ناکامی میں اس نے دنیا کے مصائب اور گناہ میں اضافہ کیا۔ "خُداوند اور اُ س کے مسیح کے خِلاف زمِین کے بادشاہ صف آرائی کر کے اور حاکِم آپس میں مشوَرہ کر کے کہتے ہیں" (2زبور 2آیت)۔ لیکن اُن کی لڑائی بے فائدہ ہے ۔ صرف مسیح ہی فتح پانے والا ہے ۔ "پس اب اَے بادشاہو! دانِش مند بنو۔ اَے زمِین کے عدالت کرنے والو تربِیّت پاؤ۔ ۔ ۔ ۔ بیٹے کو چُومو ۔ اَیسا نہ ہو کہ وہ قہر میں آئے اورتُم راستہ میں ہلاک ہو جاؤ کیونکہ اُس کا غضب جلد بھڑکنے کو ہے "(10، 12آیت)۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

چھوٹے بچوں کا قتل عام کیا ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries