settings icon
share icon
سوال

یہوداہ نے یسوع کو دھوکا کیوں دیا؟

جواب


اگرچہ ہم مکمل طور پرپُر یقین نہیں ہو سکتے کہ یہوداہ نے یسوع کو دھوکا کیوں دیا، لیکن کچھ باتیں یقینی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اگرچہ یہوداہ بارہ شاگردوں میں ہی ایک شاگرد کے طور پر چنا گیا(یوحنا 6باب 64 آیت)، لیکن کتابِ مقدس کے تمام ثبوت اِس بات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ اُس نے یسوع کے خُدا ہونے کا کبھی یقین نہیں کیا تھا۔ غالباً وہ اِس بات پر بھی قائل نہیں ہو سکا تھا کہ یسوع ہی مسیح ہے(جیسا کہ یہوداہ نے سمجھا)۔ دوسرے شاگردوں کے برعکس جو یسوع کو "خُداوند" کہتے تھے یہوداہ نے یسوع کے لئے یہ لقب کبھی استعمال نہیں کیا تھا۔ اِس کی بجائے وہ یسوع کو صرف "ربّی" کہا کرتا تھا جس کا مطلب ہے کہ وہ یسوع کو اُستاد سے زیادہ کچھ تسلیم نہیں کرتا تھا۔ جبکہ بعض اوقات دوسرے شاگردوں نے ایمان اور وفاداری کا کھلم کھلا اظہار کیا (یوحنا6 باب 68 آیت؛11 باب 16 آیت)، یہوداہ نے ایسا کبھی نہیں کیا بلکہ وہ خاموش ہی رہا ہے۔ یسوع میں ایمان کی کمی مندرجہ ذیل دیگراہم چیزوں کے لیے بنیاد فراہم کرتی ہے ۔ یہی بات ہم پر صادق آتی ہے۔ اگر ہم یسوع کو مجسم خُدا کے طور پر تسلیم کرنے میں ناکام ہو جاتے ہیں، جو اکیلا ہمیں ہمارے گناہوں کی معافی، اور ابدی نجات جو اِس کے ساتھ آتی ہے مہیا کر سکتا ہے، تو ہم دیگر متعدد مسائل کا شکار ہو جائیں گے جو خُد اکے بارے میں غلط نظریے سے پھوٹتے ہیں

دوسری بات یہ کہ یہوداہ کا نہ صرف مسیح پر ایمان کمزور تھا، بلکہ اُس کا یسوع کے ساتھ ذاتی تعلق بہت کمزور یا نہ ہونے کے برابر تھا۔ جب اناجیلِ مماثلہ بارہ شاگردوں کی فہرست پیش کرتی ہیں، تو سب رسولوں کے نام ہمیشہ معمولی سی تبدیلیوں کے ساتھ ایک ہی عام ترتیب سے درج کئے جاتے ہیں (متی10 باب 2-4 آیات؛ مرقس3 باب 16- 19 آیات؛ لوقا6 باب 14-16 آیات)۔ خیال کیا جاتا ہے کہ یہ عام ترتیب اُن کے یسوع کے ساتھ ذاتی تعلقات اور محبت بھری قُربت کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ تبدیلیوں کے باوجود، پطرس اور یعقوب اور یوحنا کو عام طور پر پہلے درج کیا جاتا ہے جس سےیسوع کے ساتھ اُن کےذاتی تعلقات کی عکاسی ہوتی ہے۔ یہوداہ کا ذکر ہمیشہ آخر پر کیا جاتا ہے، جو کہ مسیح کے ساتھ اُس کے ذاتی تعلق کی کمی کی طرف اشارہ ہو سکتا ہے۔ اِس کے علاوہ یسوع اور یہوداہ کے درمیان اُس گفتگو میں جس کو اناجیل میں درج کیا گیا ہے مریم کے بارے میں لالچ پر مبنی رائے پر یسوع کی طرف سے اُس کی سرزنش ہونا (یوحنا12 باب1-8 آیات)، یہوداہ کا اپنی دھوکہ دہی سے انکار کرنا (متی26 باب 25 آیت)، اور اُس کا یسوع کو دھوکہ دینا (لوقا22 باب 48 آیت) شامل ہے۔

تیسری بات یہ ہے کہ جیسا کہ ہم یوحنا12 باب 5-6آیات میں دیکھتے ہیں یہوداہ لالچ کی بُنیاد پر نہ صرف یسوع کے اعتماد کو بلکہ اپنے ساتھی شاگردوں کو بھی دھوکا دے رہا تھا۔ ہو سکتا ہےکہ یہوداہ نے یسوع کی پیروی صرف اِس وجہ سے کرنے کی خواہش کی ہو کیونکہ اُس نے بہت سے لوگوں کویسوع کی پیروی کرتے اور یسوع پر ایمان لاتے دیکھا تھا اور اُس کا یقین تھا کہ وہ لوگوں سے اکٹھے کئے گئے ہدیوں سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کر سکتا تھا۔ یہ حقیقت کہ یہوداہ روپے پیسوں کی تھیلی کا مُختار تھا دولت میں اُس کی دلچسپی کی طرف اشارہ کرتی ہے(یوحنا 13باب 29آیت)۔

اِس کے علاوہ یہوداہ اُس وقت کے بہت سے لوگوں کی طرح ایمان رکھتا تھا کہ مسیح(موعودہ مسیحا) رومی حکومت کے اختیار کو ختم کر کے بنی اسرائیل پر خود حکومت کرے گا۔ ہو سکتا ہے کہ یہوداہ نے یسوع مسیح کی پیروی نئے حکومتی سیاسی اقتدار میں یسوع کے ساتھ اشتراک سے فائدہ اُٹھانے کی اُمید میں کی ہو۔ عین ممکن ہے کہ اُس نے انقلاب کے بعد حاکم شُرفا میں شامل ہونے کی توقع کی ہو۔ یہوداہ کی غداری کے وقت یسوع نے واضح کر دیا تھا کہ وہ روم کے خلاف بغاوت شروع کرنے کا منصوبہ نہیں رکھتا بلکہ مرنے کا منصوبہ رکھتا ہے۔ لہذا یہوداہ نے بھی فریسیوں کی طرح فرض کر لیا ہو گا کہ چونکہ یسوع رومیوں کو ختم نہیں کرے گا، اِس لئے وہ مسیح (موعودہ مسیحا) نہیں ہو سکتا جس کی وہ توقع کر رہے تھے۔

پُرانے عہد نامہ کی چند آیات ہیں جو یہوداہ کی دھوکا دہی کی طرف اشارہ کرتی ہیں، دوسری آیات کے مقابلے میں چند مخصوص آیات زیادہ واضح طور پر اِس بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ ذیل میں اُن میں سے دو آیات کو پیش کیا گیا ہے۔

"بلکہ میرے دِلی دوست نے جس پر مجھے بھروسا تھا اور جو میری روٹی کھاتا تھا مجھ پر لات اُٹھائی ہے" (41ز بور 9 آیت ؛ اِس کی تکمیل متی 26باب 14 اور 48-49آیات میں دیکھیں)۔ اِس کے علاوہ "اور مَیں نے اُن سے کہا کہ اگر تمہاری نظر میں ٹھیک ہو تو میری مزدُوری مجھے دو، نہیں تو مت دو اور اُنہوں نے میری مزدُوری کے لئے تیس رُوپے تول کر دِئیے۔ اور خُداوند نے مجھے حکم دیا کہ اُسے کمہار کے سامنے پھینک دے یعنی اِس بڑی قیمت کو جو اُنہوں نے میرے لئے ٹھہرائی اور مَیں نے یہ تیس رُوپے لے کر خُداوند کے گھر میں کمہار کے سامنے پھینک دِئیے"(زکریاہ11 باب 12-13 آیات؛ زکریاہ کی اِس نبوت کی تکمیل کے لئے متی27 باب 3-5آیات دیکھیں)۔ پُرانے عہد نامہ کی یہ نبوتیں اِشارہ کرتی ہیں کہ یہوداہ کی بغاوت سے خُدا واقف تھا اور وقت سے پہلے ہی حاکم اعلیٰ کا منصوبہ تھا کہ یسوع مسیح کو قتل کیا جائے۔

لیکن اگر خُدا پہلے سے ہی یہوداہ کی بغاوت سے واقف تھا، تو کیا یہوداہ کی اپنی بھی کوئی مرضی تھی، اور کیا وہ دھوکا دہی میں اپنا کردار ادا کرنے کا ذمہ دار ہے؟ مستقبل کے واقعات کے بارے میں خُدا کے علم ِ سابق کو "آزاد مرضی" کے نظریہ کے ساتھ ملانا بہت سے لوگوں کے لئے مشکل ہے (جیسا کہ زیادہ تر لوگ سمجھتے ہیں)، اور یہ کافی حد تک لکیری فیشن میں وقت گزارنے کے ہمارے محدود تجربے کی وجہ سے ہوتا ہے۔ اگر ہم خُدا کے وجود کو وقت کی قید سے آزاد دیکھتے ہیں، جبکہ اُس نے "وقت" کی شروعات سے پہلے ہر چیز کو خلق کیا، تو پھر ہم یہ بھی سمجھ سکتے ہیں کہ خُدا وقت کے ہر لمحے کو موجودہ وقت کے طور پر دیکھتا ہے۔ ہم وقت کو ایک لکیری طریقے سے گزارتے ہیں ، ہم وقت کو ایک سیدھی لائن کے طور پر دیکھتے ہیں، اور ہم ماضی کو بھول کر جو ہم پہلے ہی گزار چکے ہوتے ہیں آہستہ آہستہ ایک سِرے سے دوسرے سِرے کی طرف بڑھتے ہیں، لیکن اُس مستقبل کو دیکھ نہیں سکتے جس کی طرف ہم بڑھ رہے ہوتے ہیں۔ تاہم خُدا وقت کی ساخت کے ابدی خالق کے طور پر "وقت میں"یا وقت کی لکیر (ٹائم لائن ) پر نہیں ہوتا، بلکہ اِس سے باہر ہوتا ہے۔ جب ہم خُدا کی ذات کے تعلق سے وقت کے بارے میں بات کرتے ہیں تو ہمیں وقت کو ایک ایسے دائرے کے طور پر سمجھنا چاہیے جس کا مرکز خُدا ہے اور اِس وجہ سے وہ ہمہ وقت برابر طور پر دائرے (وقت) کے تمام نقاط کے قریب ہے۔

یہوداہ کسی بھی صورت میں اپنی مرضی پوری کرنے کی کامل صلاحیت رکھتا تھا، کم از کم اُس نقطہ پر جہاں "شیطان اُس میں داخل ہوا" (یوحنا13 باب 27 آیت)، اور خُدا کے علمِ سابق (یوحنا13 باب 10، 18 اور 21آیات) نے کسی بھی طرح یہوداہ کی مرضی کرنے کی قابلیت کو ناکارہ نہیں بنایا تھا۔ بلکہ یہوداہ جس بات کا بھی آخر میں انتخاب کرتا خُدا نے اُسے ویسے ہی دیکھا جیسے ایک موجودہ مشاہدہ ہوتا ہے، اور یسوع نے یہ واضح کر دیا تھا کہ یہوداہ اپنی مرضی کے لئے ذمہ دار تھا اور اِس کے لئے جوابدہ ہو گا۔ "اور جب وہ بیٹھے کھا رہے تھے تو یسوع نے کہا مَیں تم سے سچ کہتا ہوں کہ تم میں سے ایک جو میرے ساتھ کھاتا ہے مجھے پکڑوائے گا" (مرقس14 باب18 آیت)۔ غور کریں کہ یسوع یہوداہ کی شراکت کو دھوکا دہی کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اور اِس دھوکا دہی کے لئے جوابدہی کے متعلق یسوع نے فرمایا، "کیونکہ ابنِ آدم تو جیسا اُس کے حق میں لکھا ہے جاتا ہی ہے لیکن اُس آدمی پر افسوس جس کے وسیلہ سے ابنِ آدم پکڑوایا جاتا ہے ! اگر وہ آدمی پیدا نہ ہوتا تو اُس کے لئے اچھا ہوتا"(مرقس14 باب 21 آیت)۔ اور جیسا کہ ہم یوحنا13 باب 26-27آیات میں دیکھتے ہیں شیطان کا بھی اِس میں حصہ تھا، اور وہ بھی اپنے کاموں کے لئے جوابدہ ہو گا۔ خُدا اپنی حکمت میں انسانیت کے فائدے کے لئے شیطان کی بغاوت سے بھی کام لینے کے قابل تھا جیسا کہ وہ ہمیشہ ہوتا ہے۔ شیطان نے یسوع کو صلیب تک پہنچانے میں مدد کی، اور صلیب پر گناہ اور موت کی شکست ہوئی، اور اب خُدا کی فراہم کردہ نجات مفت میں اُن سب لوگوں کے لئے دستیاب ہے جو یسوع مسیح کو نجات دہندہ کے طور پر قبول کرتے ہیں۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

یہوداہ نے یسوع کو دھوکا کیوں دیا؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries