سوال
یہودی اور عرب/مسلمان ایک دوسرے سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟
جواب
سب سے پہلے تو اِس بات کو سمجھنا بہت ضروری ہے کہ سب کے سب عرب مسلمان نہیں ہیں، اور نہ ہی سب سے سب مسلمان عرب ہیں۔ اگرچہ عربوں کی ایک بڑی تعداد مسلمان ہے لیکن اِس کے ساتھ ساتھ بہت سارے ایسے عرب بھی ہیں جو مسلمان نہیں ہیں۔ مزید برآں انڈونیشیا اور ملائشیا جیسے ملکوں میں ایسے مسلمانوں کی تعداد زیادہ ہے جو عربی نہیں ہیں بہ نسبت عرب مسلمانوں کے۔ دوسرے نمبر پر یہ بات بھی یاد رکھنے والی ہے کہ سب کے سب عرب لوگ یہودیوں سے نفرت نہیں کرتے، اور نہ ہی سب کے سب مسلمان یہودیوں سے نفرت کرتے ہیں۔ اور دوسری طرف نہ ہی سب کے سب یہودی مسلمانوں یا عربوں سے نفرت کرتے ہیں۔ ہمیں خود سے ہی لوگوں پر کسی طرح کی چھاپ لگانے کی کوشش نہیں کرنی چاہیے۔ بہرحال عام پیرائے میں بات کی جائے تو عربوں اور مسلمانوں کے اندر یہودیوں کے لیے نا پسندیدگی اور عدم اعتماد کی فضاپائی جاتی ہے اور ایسا ہی رویہ اکثر یہودیوں میں مسلمانوں اور عربوں کو لیکر دیکھنے میں آیا ہے۔
اگر اِس نا پسندیدگی یا دشمنی کو لیکر کوئی واضح وضاحت پیش کی جا سکتی ہے تو اُس کے لیے ہمیں بائبل مُقدس میں ابرہام کی کہانی تک جانا پڑے گا۔ یہودی ابرہام کے بیٹے اضحاق کی اولاد ہیں جبکہ عرب ابرہام کے بیٹے اسمٰعیل کی اولاد ہیں۔ اسمٰعیل ابرہام کی اُس بیوی کی اولاد تھا جو ایک لونڈی تھی (پیدایش 16باب 1- 16 آیات) اور اضحاق وعدے کا وہ فرزند تھا جس کے بارے میں خُدا نے کہا تھا کہ وہ ابرہام کی سب برکتوں کا وارث ہوگا (پیدایش 21باب1- 3 آیات)۔ عین ممکن ہے کہ اضحاق اور اسمٰعیل کی اپنی زندگیوں میں ایک دوسرے کے لیے نا پسندیدگی اور کسی حد تک دشمنی پائی جاتی ہو۔ شاید یہی وجہ تھی کہ اضحاق جب ابھی بہت چھوٹا ہی تھا تو اسمٰعیل اُسکے اور سارہ کے حوالےسے ٹھٹھے مارتا تھا (پیدایش 21 باب 9 آیت)، اِس وجہ سے سارہ نے ابرہام سے بات کی کہ وہ ہاجرہ اور اُس کے بیٹے اسمٰعیل کو دور بھیج دے (پیدایش 21باب11-21 آیات)۔ اور شاید اِس وجہ سے اسمٰعیل کے دل میں اضحاق کے لیے اور زیادہ حقارت اور نفرت پیدا ہو گئی تھی۔ ایک فرشتے نے ہاجرہ پر ظاہر ہو کر اُس کے سامنے اِس بات کی نبّوت بھی کی تھی کہ "اسمٰعیل کا ہاتھ سب کے خلاف اور سب کے ہاتھ اسمٰعیل کے خلاف ہونگے اور وہ اپنے بھائیوں کے سامنے بسا رہے گا" (پیدایش 16باب11-12 آیات)۔
مذہبِ اسلام نے جس کے زیادہ تر عر ب پیروکار ہیں اِس باہمی دشمنی کو اور زیادہ کر دیتا ہے ۔ اِسلام مُقدس کتاب قرآن کے اندر مسلمانوں کے لیے جو ہدایات دی گئی ہیں وہ کئی ایک مقام پر خود تردیدی نظر آتی ہیں۔ کچھ جگہوں پر تو یہ مسلمانوں کو یہ ہدایات کرتا نظر آتا ہے کہ وہ یہودیوں کے ساتھ بھائیوں جیسا سلوک کریں، لیکن دوسرے مقام پر یہی قرآن مسلمانوں کو یہ ہدایت دیتا ہوا نظر آتا ہے کہ اگر یہودی اپنا مذہب تبدیل کر کے اسلام کو قبول نہ کریں تو اُن پر حملہ کر کے اُنہیں ماریں۔ یہیں ایک اور ابہام پیدا کر کے ایک تنازعہ کھڑا کیا گیا ہے کہ ابرہام کی اولاد میں سے وعدے کا فرزند اضحاق نہیں بلکہ اسمٰعیل تھا۔ جبکہ یہودیوں کی مقدس کتابیں یہ بیان کرتی ہیں کہ وعدے کا فرزند اضحاق تھا۔ قرآن یہ تعلیم دیتا ہے کہ وہ بچّہ جس کی ابرہام قربانی دینے کے لیے گیا تھا وہ بھی اضحاق نہیں بلکہ اسمٰعیل تھا (اور یہ بات پیدایش 22 باب کے بیان کے بالکل متضاد ہے۔ ابھی یہ بحث کہ وعدے کا فرزند کون تھا آج تک اِس دشمنی کو بڑھاوا دیئے ہوئے ہے۔ )
بہرحال اضحاق اور اسمٰعیل کی باہمی تلخی کی قدیم جڑ عربوں اور یہودیوں کے درمیان پائی جانے والی موجودہ دشمنی کی مکمل وضاحت پیش نہیں کرتی۔ حقیقت تو یہ ہے کہ مشرقِ وسطیٰ کی تاریخ کے ہزاروں سالوں تک یہودی اور عرب ایک دوسرے سے بے پرواہ قدرے پُر امن حالات میں زندگی گزارتے رہے ہیں۔دشمنی کی اہم ترین وجوہات موجودہ طور پر پیدا ہوئی ہیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب اقوام متحدہ نے اُس علاقے کی سر زمین کا ایک حصہ اسرائیل کے ملک کے طور پر یہودیوں کو دیا۔ اُس سر زمین پر اُس دور میں عرب (فلسطینی ) آباد تھے۔ زیادہ تر عرب اقوام نے اِس زمین کے اسرائیلیوں کو دیئے جانے کے خلاف احتجاج کیا اور یہودیوں کی آبادکاری کو اصل میں یہودیوں کی طرف سے فلسطین پر قبضہ تصور کیا۔ عرب اقوام نے اتحاد کیا اور اسرائیل پر حملہ کر دیا تاکہ اُنہیں اُس سر زمین سے نکال باہر کریں لیکن اُنہیں اُس جنگ میں شکست ہوئی۔ اُس وقت سے لیکر یہودیوں اور اُس کی ہمسایہ عرب اقوام کے درمیان شدید قسم کی دشمنی چلتی آرہی ہے۔ اسرائیل زمین کے ایک بہت چھوٹے سے ٹکرے پر آباد ہے جس کے چاروں طرف بہت بڑے بڑے عرب ملک آباد ہیں جیسے کہ یردن ، شام، سعودی عرب، عرا ق اور مصر۔ ہمارے خیال سے بائبلی نقطہ نطر کے مطابق اسرائیل قوم کو اُس سر زمین پر آباد رہنے کا حق حاص ہے کیونکہ یہ وہ سر زمین ہے جو خُدا نے یعقوب کی اولاد کو دی تھی جو کہ ابرہام کا پوتا تھا۔ اِس کے ساتھ ساتھ ہم اِس بات پر بھی یقین رکھتے ہیں اسرائیل کو ہمیشہ ہی امن کا خواہشمند ہونا چاہیے اور اُسے اپنے عرب ہمسایوں کے ساتھ محبت اور عزت کے ساتھ پیش آتے ہوئے امن کو بڑھاوا دینا چاہیے۔ 122 زبور 6 آیت بیان کرتی ہے کہ "یروشلیم کی سلامتی کی دُعا کرو۔ وہ جو تجھ سے محبت رکھتے ہیں اقبال مند ہونگے۔"
English
یہودی اور عرب/مسلمان ایک دوسرے سے نفرت کیوں کرتے ہیں؟