سوال
اگر یسوع خود خُدا تھا تو پھر وہ خُدا سے دُعا کیسے کر سکتا تھا؟کیا یسوع اپنے آپ سے دُعا کر رہا تھا؟
جواب
اِس حقیقت کو سمجھنے کے لیے کہ یسوع بحیثیت خدا اپنی زمینی زندگی میں اپنے آسمانی باپ سے دُعا کیسے کر سکتا ہے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ یسوع کے مجسم ہونے سے پہلے ابدی باپ اور ابدی بیٹے کے درمیان ابدی رشتہ موجود تھا ۔ یوحنا 5باب 19-27آیات اوربالخصوص 23آیت پڑھیں جس میں یسوع تعلیم دیتا ہے کہ با پ نے بیٹے کو بھیجا ہے ( یوحنا 15باب 10آیت بھی دیکھیں )۔ یسوع اُس وقت خدا کا بیٹا نہیں بنا تھا جب وہ بیت لحم میں پیدا ہواتھا ۔ بلکہ وہ ازل سے خدا کا بیٹا تھا اور بیٹا ہے اور ہمیشہ رہے گا ۔
یسعیاہ 9باب 6آیت ہمیں بتاتی ہے کہ " ایک لڑکا تولّد ہوا اور ہم کو ایک بیٹا بخشا گیا "۔یسوع رُوح القدس کے ساتھ ہمیشہ سےخُدائے ثالوث کا اقنوم ہے۔ اور خُدائے ثالوث ہمیشہ سے ہمیشہ تک ہے۔ خدا باپ ، خدا بیٹا اور خدا رُوح القدس تین خدا نہیں بلکہ تین شخصیات پر مشتمل ایک خدا ہے ۔ یسوع نے سکھایا ہے کہ وہ اور باپ دونوں ایک ہیں (یوحنا 10باب 30آیت) جس کا مطلب یہ ہے کہ یسوع اور خدا باپ دونوں ایک رُوح اور ایک جوہر سے ہیں ۔ باپ ، بیٹا اور رُوح القدس تینوں ہم مرتبہ اقانیم ایک خُدا کے طور پر موجود ہیں۔ یہ تینوں ابدی رفاقت اور شراکت میں ہیں،رفاقت اور شراکت میں تھے اور رفاقت اور شراکت میں رہیں گے۔
خدا کے ابدی بیٹے یسوع نے جب گناہ سے مبرّہ انسانی روپ اختیار کیا تو اُس نے اپنے آسمانی جلال کو ترک کرتے ہوئے ایک خادم کی شکل اختیار کی تھی ( فلپیوں 2باب 5-11آیات)۔ انسان کے طور پر مجسم ہونے کے بعد جب اُسے شیطان کی طرف سے آزمایا گیا، لوگوں کی طرف سے اُس پر جھوٹے الزامات لگائے گئے، اُسے رَد کیا گیا اور بعد میں مصلوب کیا گیا تو اِس صورت میں یسوع کے لیے ضروری تھا کہ وہ اپنے باپ کی فرمانبرداری سیکھتا ( عبرانیوں 5باب 8آیت)۔ اپنے آسمانی باپ سے دُعا کرنے کا مقصد اصل میں باپ سے قوت ( یوحنا 11باب 41-42آیات) اور حکمت ( مرقس 1باب 35آیت؛ 6باب 46آیت) کےلیے پکار تھی ۔ زمینی زندگی میں یسوع کا دُعا کرنا اپنے باپ پر انحصار کرنے کو ظاہر کرتا ہے تاکہ وہ اپنے باپ کے نجات کے منصوبے کی تکمیل کر سکے اور یہ بات یوحنا 17باب میں مسیح کے کاہن کے انداز میں دُعا کرنے سے واضح ہوتی ہے ۔اُس کا دُعا کرنا اِس بات کا اظہار ہے کہ اُس نے ہماری خاطر جو شریعت کی نافرمانی اور موروثی گناہ کے باعث گناہگار ہیں صلیب پر قربان ہونے اور ہماری خاطر کفارہ دینے کےلیے خود کو باپ کی مرضی کے تابع کر دیا تھا (متی 26باب 31- 46آیات)۔ یقیناً وہ اپنے بدن میں قبر میں سے جی اُٹھا اور اُن زندگیوں کےلیے معافی اور ابدی زندگی کاانتظام کرنے میں کامیاب ہوا جو اپنے گناہوں سے توبہ کرتے اور اُسے نجات دہندہ کے طور پر قبول کرتے ہیں ۔
خدا بیٹے کے خدا باپ سے دُعا یا بات چیت کرنے میں کوئی پریشانی نہیں ۔ جیسےکہ پہلے بھی ذکر کیا جا چکا ہے کہ مسیح کے انسان بننے سے پہلے بھی باپ اور بیٹے میں ابدی رفاقت پائی جاتی تھی ۔ یہ رفاقت اناجیل میں پیش کی گئی ہے تاکہ ہم دیکھ سکیں کہ اپنی بشریت میں خدا بیٹے نے اپنے باپ کی مرضی کو کیسے پورا کیا ہے اور ایسا کرنے سےاُس نے اپنے بچّوں کےلیے نجات خریدی ہے( یوحنا 6باب 38آیت)۔ مسیح کی دُعائیہ زندگی نے اُس کو اپنے باپ کے حضور مستقل طور پر فرمانبردار رہنے میں بہت قوت و تقویت بخشی تھی ۔ مسیح کی دُعائیہ زندگی ہمارے لیے نمونہ ہے اور ہمیں اِس کی پیروی کرنی چاہیے ۔
یسوع مسیح کا زمینی زندگی میں اپنے آسمانی باپ سے دعا کرنا اُس کے رتبے کو کم نہیں کرتا ۔ اصل میں وہ اِس بات کو پیش کر رہا تھا کہ آسمانی باپ کی مرضی کو پورا کرنے کےلیے اُسے اپنی گناہ سے پاک بشریت کی حالت میں بھی دعائیہ زندگی گزارنے کی اشد ضروری ہے ۔ یسوع کا آسمانی باپ سے دُعا کرناتثلیث میں اُس کی رفاقت کی مثال اور اِس بات کا ثبوت تھا کہ ہمیں ضروری قوت اور حکمت کے حصول کےلیے دُعا کےوسیلہ سے خدا پر بھروسہ کرنا چاہیے ۔ جس طرح مجسم خدا یعنی مسیح کو زمینی زندگی میں سرگرم دعائیہ زندگی کی ضرورت تھی ویسے ہی آج کل اُس کے پیروکار وں کو دعائیہ زندگی میں سر گرم ہونا چاہیے ۔
English
اگر یسوع خود خُدا تھا تو پھر وہ خُدا سے دُعا کیسے کر سکتا تھا؟کیا یسوع اپنے آپ سے دُعا کر رہا تھا؟