settings icon
share icon
سوال

خُدا ایمان کا تقاضا کیوں کرتا ہے؟

جواب


خدا کے ساتھ ہمارا رشتہ دوسر ے لوگوں کے ساتھ ہمارے تعلقات جیسا ہی ہے، اور دیگر لوگوں کے ساتھ ہمارے تمام تعلقات ایمان اور بھروسے کا تقاضا کرتے ہیں۔ ہم کسی شخص کو پوری طرح کبھی نہیں جان سکتے ہیں۔ ہم اُن سب باتوں کا تجربہ نہیں کرسکتے ہیں جن میں سے وہ گزرتے ہیں اور نہ ہی اُن کے خیالات اور جذبات کو جاننے کے لئے اُن کے ذہن میں داخل ہو سکتے ہیں ۔امثال 14باب 10آیت بیان کرتی ہے کہ " اپنی تلخی کو دِل ہی خوب جانتا ہے اور بیگانہ اُس کی خُوشی میں دخل نہیں رکھتا۔" حتیٰ کہ ہم اپنے دلوں کو بھی پوری طرح جاننے سے قاصر ہیں ۔ یرمیاہ 17باب 9آیت کہتی ہے کہ " دِل سب چیزوں سے زِیادہ حیلہ باز اور لاعلاج ہے ۔ اُس کو کون دریافت کر سکتا ہے؟" دوسرے الفاظ میں انسانی دل ایک ایسی چیز ہے جو اپنے مالک کو بھی دھوکہ دیتے ہوئے اپنی بدی کی گہرائی کو چھپانے کی کوشش کرتا ہے ۔ اور ہم اکثر دوسروں پر الزام تراشی، بُرے سلوک کو درست ٹھہرانے اور اپنے گناہوں کو نظر انداز کرنےوغیرہ کے ذریعے ایسا کرتے ہیں ۔

چونکہ ہم دوسرے لوگوں کو مکمل طور پر جاننے سےقاصر ہیں لہذا تمام تعلقات میں ایمان ( اعتماد) کسی حد تک ایک لازمی جزو ہے ۔ مثال کے طور پر ایک بیوی اپنے شوہر پر اس بھروسے کے ساتھ گاڑی میں سوار ہوتی ہے کہ وہ محفوظ طریقے سے گاڑی چلائے گا حالانکہ وہ سردیوں میں برف سے اٹی ہوئی سڑکوں پر اکثر اُس کی نسبت زیادہ تیز گاڑی چلاتا ہے ۔ وہ اپنے شوہر پر بھروسہ کرتی ہے کہ وہ ہر بار اُن دونوں کے بہتر ین مفاد کے لیے کام کرے گا۔ ہم سب اس بھروسے کے ساتھ دوسروں کو اپنے بارے میں بتاتے ہیں کہ وہ اس علم کو ہمیں دھوکا دینے کےلیے استعمال نہیں کریں گے ۔ روڈ پر گاڑی چلاتے ہوئے ہمیں یہ بھروسہ ہوتا ہے کہ روڈ پر موجود دوسرے لوگ بھی ٹریفک کے قوانین کی پیروی کریں گے ۔ پس معاملہ چاہے اجنبیوں کا ہو، بہت قریبی دوستوں کا یا پھر اپنے جولیوں کا، چونکہ ہم دوسروں کو مکمل طور پر نہیں جان سکتے اِس لیے ہمارا ایک دوسرے پر اعتماد ہمارے تعلقات کاایک لازمی جزو ہوتا ہے۔

اگر ہم اپنے ساتھی محدود انسانوں کو پوری طرح سے نہیں جان سکتے تو ہم لامحدود خدا کو مکمل طور پر جاننے کی اُمید کیسے کر سکتے ہیں ؟ حتیٰ کہ اگر وہ اپنی ذات کو پوری طرح عیاں کرنا بھی چاہے تو ہمارے لیے اُسے مکمل طور پر جاننا ممکن نہیں ہے ۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے سمندر (مقدار میں بظاہر لامحدود) کو کوزے میں سمونے کی کوشش کرنا ۔۔۔ ناممکن ہے!ان باتوں کے باوجود جس طرح ہم دوسرے لوگوں کی ذات اور کردار کے بارے میں اپنے علم کی بنیا د پر اُن کے ساتھ با مقصد تعلقات قائم کرسکتے ہیں بالکل اس طرح سے خدا نے اپنی تخلیق کے ذریعے ( رومیوں 1باب 18-21آیات)، اپنے تحریری کلام یعنی بائبل مقدس کے ذریعے ( 2تیمتھیس 3باب 16-17آیات ؛ 2پطرس 1باب 16-21آیات) اور اپنے بیٹے کے ذریعے اپنی ذات کے بارے میں مناسب اظہا ر کیا ہے تا کہ اُس کے ساتھ ہم ایک بامقصد رشتے کو قائم کر سکیں ۔ لیکن یہ تب ہی ممکن ہوتا ہے جب کسی شخص کے گناہ کی رکاوٹ کو اُس ایمان کے وسیلے سے دور کیا جائے جو مسیح کی ذات اور اُس شخص کے گناہ کی خاطرصلیبی کفارے کے عمل پر مشتمل ہے ۔ یہ انتہائی ضروری ہے کیونکہ روشنی اور تاریکی کا ایک ساتھ رہنا ناممکن ہے لہذا مقدس خدا کے لیے ایک گنہگار شخص کے ساتھ رفاقت قائم کرنا اُس وقت تک ناممکن ہے جب تک اُس کے گناہوں کی قیمت ادا نہ ہو جائے اور اُنہیں مٹایا نہ جائے ۔ یسوع مسیح جو خدا کا گناہ سے مبّرہ بیٹا ہے ہمارے گناہوں کی سزا کواپنے اوپر لینے اور ہمیں تبدیل کرنے کےلیے صلیب پر مواء تاکہ ہم خدا کے فرزند بن جائیں اور اُس کے حضور ہمیشہ زندہ رہیں ( یوحنا 1باب 12آیت؛ 2کرنتھیوں 5باب 21آیت؛ 2پطرس 3باب 18آیت ؛ رومیوں 3باب 10- 26آیت)۔

ماضی میں ایسا کئی بار ہوا ہے کہ خدا نے لوگوں پر خود کو زیادہ " قابل دید" انداز میں عیاں ہے ۔ اس کی ایک مثال مصر سے خروج کے وقت سامنے آتی ہے جب خدا اسرائیلیوں کےلیے اپنی فکر مندی کا اظہار مصریوں پر اپنی معجزانہ آفتوں کو نازل کرنے کے وسیلہ سے کرتا ہے اور یہ عمل اُس وقت تک جاری رہتا ہے جب تک مصری بنی اسرائیل کو غلامی سے آزاد کرنے کےلیے راضی نہیں ہوتے ۔ اس کے بعد خدا بحیرہ قلزم کے دو حصے کرتا ہے جس کے باعث قریباً بیس لاکھ اسرائیلی خشک زمین پر چل کر پار نکل جاتے ہیں ۔ اور پھر جب مصری فوجیں اُسی راستے سے بنی اسرائیل کا پیچھا کرنے کی کوشش کرتی ہیں تو خدا قلزم کے پانی کو اُن پر بہا دیتا ہے ( خروج 14باب 22- 29آیات)۔ اس کے بعد بیان میں خدا اُن کو معجزانہ طور پر من مہیا کرتا اور دن میں بادل کے ستون اور رات کو آگ کے ستون کی صورت میں اُن کی رہنمائی کرتا ہے ۔ یہ بنی اسرائیل کے ساتھ اُس کی قابلِ دید موجودگی کی مثالیں ہیں ( خروج 15باب 14-15آیات)۔

تاہم اُس کی محبت ، رہنمائی اور قدرت کے بارہا ظہور کے باوجود اسرائیلیوں نے اُس وقت خُدا پر بھروسہ کرنے سے انکار کردیا تھا جب وہ اُن کو وعدے کی سرزمین میں داخل کرنا چاہتا ہے ۔ خدا پر بھروسہ کرنے کی بجائے اُنہوں نے اُن دس لوگوں کی باتوں پر یقین کرنے کا فیصلہ کیا جنہوں نے فصیل دار شہروں اور اُن میں موجود دیوقامت لوگوں کے بارے میں اپنی کہانیوں کے ذریعے اسرائیلیوں کو خوفزدہ کیا تھا ( گنتی 13باب 26-33آیات)۔اِن واقعات سے معلوم ہوتا ہے کہ خدا کا اپنی ذات کے بارے میں مزید انکشاف کرنا اُس پر بھروسہ کرنے کی ہماری صلاحیت پر زیادہ اثر انداز نہیں ہو گا ۔ اگر خدا موجودہ زمانے کے لوگوں کے ساتھ بھی بالکل اسی انداز میں پیش آئے تو ہمارا ردّعمل بھی اسرائیلیوں سے مختلف نہیں ہو گا کیونکہ ہمارے گنہگار دل بھی ویسے ہی ہیں جیسے بنی اسرائیل کے تھے ۔

بائبل مستقبل میں ایک ایسے وقت کے بارے میں بات کرتی ہے جب جلالی مسیح یروشلیم میں اپنی ہزار سالہ بادشاہی کےلیے زمین پر واپس آئے گا (مکاشفہ 20باب 1- 10آیات)۔ مسیح کے دورِ حکومت میں مزید بہت سے لوگ زمین پر پیدا ہوں گے ۔ وہ مکمل عدل و انصاف کےساتھ حکمرانی کرے گا تاہم بائبل بیان کرتی ہے کہ اپنی کامل حکمرانی کے باوجود ہزار سال کے اختتام پر شیطان کو مسیح کی بادشاہی کے خلاف بغاوت کےلیے اپنی فوجیں کھڑی کرنے کا اختیار دیا جائے گا ۔ مستقبل میں رونما ہونے والا ہزار سالہ بادشاہی کا واقعہ اور ماضی میں مصر سے خروج کا واقعہ اس بات کا ثبوت ہیں کہ مسئلہ خدا کی ذات میں نہیں کہ اُس نے مناسب طور پر خود کو انسان پر ظاہر نہیں کیا بلکہ اصل مسئلہ انسان کے گنہگار دل کے ساتھ ہے جو خدا کی محبت بھری بادشاہی کے خلاف بغاوت کرتا ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم گناہ میں گرنے کے باعث خود اختیاری کے خواہشمند ہیں ۔

خدا نے اپنی ذات کااس حد تک انکشاف کر دیا ہے کہ ہم اُس پر بھروسہ کر سکتے ہیں ۔ اُس نے تاریخ کے واقعات ،قدرت کے کاموں اور یسوع مسیح کی زندگی کے وسیلہ سے واضح کیا ہے کہ وہ قادرِ مطلق، علیمِ کل، حکمت والا ، سب سے پیار کرنے والا، لاتبدیل اور ابدی خدا ہے ۔ اور اس مکاشفے کے ذریعے اُس نے یہ واضح کیا ہے کہ وہ قابلِ اعتماد ہے ۔ مگر بیابان میں موجود اسرائیلیوں کی طرح یہ ہمارا اپنا انتخاب ہے کہ ہم اُس پر بھروسہ کریں یا نہ کریں۔ خدا پر ایمان رکھنے کا انتخاب اکثر ہمارے اُسکے بارے میں علم پر مبنی ہوتا ہے یعنی وہ سب کچھ جو ہم سمجھتے ہیں کہ ہم خدا کے بارے میں جانتے ہیں ۔ اس کی بجائے ہمارے ایمان کے انتخاب کی بنیاد اُس علم پر مبنی ہونی چاہیے جو اُس نے اپنی ذات کے بارے میں عیاں کیا ہے اور جو اُس کے لاخطا کلام یعنی بائبل کے بغور مطالعہ کے ذریعے سمجھا جا سکتا ہے ۔ اگر آپ نے پہلے ایسا نہیں کیا تو بائبل کا بغور مطالعہ کرنا شروع کریں تاکہ آپ اُس کے بیٹے یسوع پر ایمان کے وسیلہ سے خدا کو جان سکیں جو ہمیں ہمارے گناہوں سے نجات دینے کےلیے زمین پر آیاتھا تاکہ ہم خدا کے ساتھ نہ صرف اب بلکہ آسمان پر بھی ایک محبت بھری رفاقت سے لطف اندوز ہو سکیں ۔

English



اُردو ہوم پیج پر واپس جائیں

خُدا ایمان کا تقاضا کیوں کرتا ہے؟
Facebook icon Twitter icon YouTube icon Pinterest icon Email icon اس پیج کو شیئر کریں:
© Copyright Got Questions Ministries